ہمارے معاشرے میں ذہنی امراض کے بارے میں بظاہر مکمل جانکاری نہ ہونے کے برابر ہے ۔ نفسیاتی امراض کو گھروں میں ہی دبادیا جاتا ہے۔ حالانکہ کسی بھی فرد کے دماغ کو لگنے والے مرض کا لازمی مطلب پاگل پن ہی نہیں ہوتاہے، جیسے کہ جسم کے باقی اعضاء میں لگنے والے زخم یا مرض کی نوعیت کچھ اور ہو سکتی ہے،اسی طرح دماغی امراض کی بھی مختلف نوعتیں ہوسکتی ہیں،البتہ دماغ چونکہ پورے جسم کو کنٹرول کرتا ہے، لہٰذا اس میں کوئی مسئلہ پیدا ہو جائے تو پورا جسم متاثر ہوتا ہے،اس لئے یہ امراض خطرناک بھی ثابت ہو سکتے ہیں،جنہیں ہرگز ہلکا نہیں لیا جاسکتا۔ہمارے معاشرے کے بیشتر لوگ اول تو ذہنی امراض کو تسلیم کرتے ہی نہیں بلکہ اس کے متعلق بات کرنے سے بھی بعض لوگ ہچکچاتے ہیں۔ اس بات سے قطع نظر کے اس وقت ہمارے نوجوانوں کو کئی ایسے خطرناک ذہنی امراض کا سامنا ہے جو اکثر جان لیوا ثابت ہوتے ہیں۔عالمی ادارہ برائے ذہنی امراض کے مطابق انسان کو لاحق ہونے والے زیادہ تر دماغی امراض 24 سال کی عمر سے شروع ہو جاتے ہیں۔جبکہ ماہرین ِ ذہنی امراض کے بقول ماضی کے مقابلے میںاب ذہنی صحت کو زیادہ خطرات لاحق ہیں، کیوں کہ اس تیز رفتارجدید ٹیکنالوجی کے دور میں زندگی کی رفتار بھی بہت تیز ہوگئی ہےاور اب لوگوں کے پاس ایک دوسرے کے لیے وقت نہیں ہے۔ دورِ حاضر میں ڈپریشن، بائی پولر ڈس آرڈر، شیزوفرینیا، جذباتی صدمات اور ڈرگ کا حد سے زیادہ استعمال کا شمار ذہنی امراض میں کیا جارہا ہے۔جن کا نشانہ سب سے زیادہ طلاب بن جاتے ہیں، جن پر نہ صرف اپنی پڑھائی کا بوجھ ہوتا ہے بلکہ وہ معاشی (نوکری ڈھونڈنا ) دباؤ اور سماجی دباؤ ( شادی وغیرہ ) کا بھی شکار ہوتے ہیں۔گویا دورِ حاضر میں طالب علم کو ہر لمحہ ہمہ جہت چیلنجز کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ ایک زمانے میںافلاطون اور آئین سٹائین جیسے ذہیں طلاب 80 فی صدنمبر لیا کرتے تھے ،مگر ہمارے ناقص امتحانی نظام کے تحت ہزاروں طلاب سو فیصد نمبر حاصل کررہے ہیں، اس سے طلاب پر شروع سے ہی پریشر بڑھنا شروع ہو جاتا ہے۔ اسی طرح سوشل میڈیا اور جدید ٹیکنالوجی کے استعمال نے بھی انسان کو نہ صرف تنہا کر دیا ہے بلکہ نوجوانوں میں متعدد مسائل کی بنیادی وجہ بھی بن رہا ہے۔چنانچہ یہ مسائل جس رفتار سے بڑھ رہے ،اسی حساب سے انہیں حل کرنے کے لئے وسائل مہیا نہیں ہیں۔اُستاد اور بالخصوص سپروائزر ہماری مدد کرنے سے زیادہ دیگر سرگرمیوں میں اُلجھائے رکھتے ہیںجبکہ ہمارے گھروں کا ماحول بھی ایک دردِ سر ہے۔ گھریلو ناچاقیاں یا گھریلو جھگڑے زیادہ اذیت ناک ہوتے ہیں کیوں کہ ان کے باعث ذہنی تناؤ کے خطرات بڑھ جاتے ہیں۔ذہنی قابلیت اور رجحان دیکھے بغیر خاندان میں طالب علموں کا آپس میں مقابلہ کیا جاتا ہے، جس کے نتیجے میں وہ ذہنی الجھن کا شکار ہوکررہ جاتے ہیں اوراُن کی زندگی میں ترقی کا سفر جمود کا باعث بن جاتا ہے جو رفتہ رفتہ اس کی صلاحیتوں کے ساتھ اس کی خوشیوں، خوابوں، رشتوں اور محبتوں کو دیمک کی طرح چاٹ کراُسے ذہنی مریض بنا کر کھوکھلا کر دیتا ہے۔پچھلی ایک دہائی کے دوران طلاب میں خودکشی کرنے کے رجحان میں اضافہ ہوا ہے، ایسا کیوں ہو رہا ہے؟ اس پر غوروفکر کرنا لازمی ہےاور اپنے نوجوانوںپر نظر رکھنے کی اشدضرورت ہےکہ کون کھانا وقت پر یا ٹھیک سے نہیں کھا پا رہا ہے۔ کون بُجھا بُجھا سا ہے،کس کا طرزِعمل بدل سا رہا ہے، کون گم سُم سا ہےاور کون بالکل خاموش رہتا ہے؟ایسا کچھ بھی نظر آئےتو اس کا مطلب ہے کہ ہمارا پیارا،لاڈلا مشکل میں ہے،جسے ہماری مدد کی ضرورت ہے۔اگر محسوس ہوجائےکہ اس میں ڈپریشن کی ابتدا ہو رہی ہے تواس پر قابو پانے کے لئےبہترین دفاعی صورت حال پیدا کرنا انتہائی اہم ہے۔خصوصاًوالدین ،قرابت دار وں،ہمسایوںاور دوستوںکے لئے لازم ہے کہ وہ ڈپریشن کے شکار ایسے طلاب اور نوجوانوں کو دوائوں سے زیادہ دوستانہ اور سازگار ماحول میں اُن کا دل جیتنے کی کوشش کریں،اُن کو بہلائیں،اُن کے ساتھ محبت و شفقت کے ساتھ پیش آئیںاور انہیں ہر معاملے میں راحت پہنچائیں،اُنہیں اپنے ساتھ گھومنے پھرنے لے جائیںاور اُن کے اُداس چہروں پر مُسکراہٹ بکھیر نے کی کوششیں کریں تو یقیناً اُنہیں ڈپریشن سے چھٹکارا مل جائے گا اور وہ ذہنی امراض سے محفوظ رہ سکیں گے۔
! ذہنی امراض سے دوچارہمارے نوجوان

AL25-HAPPINESS A Danish study suggests that depression and unhappiness can inspire creativity. It appears that the most lasting inspiration for artists may come from the most difficult moments.Editable vector silhouette of a man sitting with his head in his hand with background made using a gradient meshUploaded by: Herron, Shaun