مسعود محبوب خان
ذِی الحجہ اسلامی قمری کیلنڈر کا بارہواں اور آخری مہینہ ہے، جو کہ اسلامی کیلنڈر میں بہت اہمیت رکھتا ہے، کیونکہ اس کا سیِّدُنا ابراہیمؑ کی زندگی سے گہرا تعلق ہے۔ یہ مقدس مہینہ خاص طور پر حج کے مناسک اور عید الاضحیٰ کی تقریبات کے لیے قابل ذکر ہے، جو مسلمانوں کے لیے روحانی اور معاشرتی لحاظ سے نہایت اہم ہیں۔ جو سیّدنا ابراہیمؑ کی زندگی کے اہم واقعات کی یاد دلاتے ہیں، اور ان کے غیر متزلزل ایمان اور اللہ کے آگے سر تسلیم خم کرنے کی عکاسی کرتے ہیں۔ اس مضمون میں ہم ذی الحجہ کو سیِّدُنا ابراہیمؑ کی سیرت کے تناظر میں دیکھیں گے اور ان کی زندگی سے جڑے اہم واقعات پر روشنی ڈالیں گے۔
سیّدنا ابراہیمؑ کی زندگی کے اہم واقعات: ۔سیِّدُنا ابراہیمؑ نے اپنے قوم کے بتوں کو توڑ دیا اور لوگوں کو ایک خدا کی عبادت کی دعوت دی۔ اس پر نمرود بادشاہ نے ان کو آگ میں جلانے کا حکم دیا لیکن اللہ نے آگ کو سیِّدنا ابراہیمؑ کے لیے ٹھنڈا اور سلامتی والا بنا دیا۔ سیِّدنا ابراہیمؑ نے اللہ کے حکم پر عراق سے کنعان (موجودہ فلسطین) اور پھر مصر کا سفر کیا۔ ان کی ہجرت کا مقصد اللہ تعالیٰ کے حکم کی پیروی اور دین کی تبلیغ تھا۔ سیِّدنا ابراہیمؑ کا شمار انبیاء کرامؑ میں سے ہوتا ہے جنہوں نے توحید کی تعلیم دی اور شرک کے خلاف جہاد کیا۔ آپؑ کی زندگی میں کئی اہم واقعات ایسے ہیں، جو اسلامی تاریخ اور روایات میں نہایت اہمیت رکھتے ہیں، جو ذِی الْحجہ سے منسلک ہیں اور ان کی یاد میں اس مہینے کی مناسبت سے کئی عبادات اور اعمال انجام دیے جاتے ہیں۔ حضرت ابراہیمؑ نے اللہ کے حکم پر اپنی بیوی حضرت ہاجرہؑ اور بیٹے حضرت اسماعیلؑ کو مکہ کے بے آب و گیاہ وادی میں چھوڑ دیا۔ یہ واقعہ اللہ پر کامل ایمان اور یقین کا مظہر ہے۔ حضرت ہاجرہؑ کی جدوجہد کے نتیجے میں اللہ نے حضرت اسماعیلؑ کے پیروں کے نیچے سے زمزم کا چشمہ جاری کیا۔
تعمیر ِکعبہ: ۔ سیِّدنا ابراہیمؑ نے اپنے بیٹے حضرت اسماعیلؑکے ساتھ مل کر اللہ کے حکم سے خانہ کعبہ کی تعمیر کی۔ یہ واقعہ ذی الْحجہ کے مہینے میں ایک خاص مقام رکھتا ہے۔ خانہ کعبہ کی تعمیر کے بعد سیِّدُنا ابراہیمؑ نے لوگوں کو حج کی دعوت دی، جس کی پیروی آج بھی کی جاتی ہے۔ خانہ کعبہ مسلمانوں کے قبلہ کی حیثیت سے مرکزی مقام رکھتا ہے اور حج کے ارکان میں شامل ہے۔
ذِی الْحجہ کے ابتدائی دس ایام: ۔ ذِی الْحجہ کے پہلے دس دن سال کے سب سے بابرکت دن سمجھے جاتے ہیں، جن میں عبادت، دعاء، اور نیک اعمال کے مواقع سے بھرپور ہوتے ہیں۔ یہ دن بڑھتی ہوئی عقیدت، روزے، اور غور و فکر کے ساتھ گزارے جاتے ہیں، اور سیِّدُنا ابراہیمؑ کی تقویٰ اور استقامت سے تحریک لیتے ہیں۔ ان دنوں میں خیرات، مہربانی، اور نیک کاموں میں مشغول ہونا برکتوں اور اجر کو بڑھا دیتا ہے، اور سیِّدُنا ابراہیمؑ کی سخاوت اور بے غرضی کی وراثت کی عکاسی کرتا ہے۔
قربانی کا واقعہ:۔ذِی الْحجہ کی دسویں تاریخ کو عید الاضحیٰ منائی جاتی ہے، جو سیِّدُنا ابراہیمؑ اور حضرت اسماعیلؑ کے عظیم امتحان کی یادگار ہے، جو اللّٰہ کے حکم کی تعمیل میں تھا۔ اللّٰہ تعالیٰ نے سیِّدُنا ابراہیمؑ کو خواب میں اپنے بیٹے حضرت اسماعیلؑ کی قربانی کا حکم دیا۔ سیِّدُنا ابراہیمؑ نے اللہ کے حکم کے سامنے سر تسلیم خم کیا اور اپنے بیٹے کو قربانی کے لیے تیار کر لیا۔ اللّٰہ تعالیٰ نے ان کی اطاعت اور قربانی کو قبول کرتے ہوئے حضرت اسماعیلؑ کی جگہ ایک دنبہ بھیج دیا۔ اس واقعے کی یاد میں عید الاضحیٰ پر جانوروں کی قربانی کی جاتی ہے۔ یہ واقعہ عید کی تقریبات کا مرکز ہے اور سر تسلیم خم کرنے، ایمان، اور الٰہی رحمت کی یاد دلاتا ہے۔
عید الاضحیٰ کے دوران، دنیا بھر کے مسلمان ایک جانور، عموماً بکری، بھیڑ، بقرہ، یا اونٹ کی قربانی کرتے ہیں۔ گوشت کو خاندان، دوستوں، اور ضرورت مندوں میں تقسیم کیا جاتا ہے، جو خیرات اور کمیونٹی کی روح کو مجسم کرتا ہے۔ یہ عمل سیِّدُنا ابراہیمؑ کی اللّٰہ کی مرضی کے آگے مکمل سر تسلیم خم کرنے کی علامت ہے اور مسلمانوں کو قربانی، سخاوت، اور ہمدردی کا سبق دیتا ہے۔
حج کے مناسک: ۔حج کے مناسک بھی سیِّدُنا ابراہیمؑ اور ان کے اہلِ خانہ کی قربانیوں اور اطاعت کی یاد میں انجام دیے جاتے ہیں۔ صفا اور مروہ کے درمیان سعی، مقامِ ابراہیمؑ پر نماز اور عرفات میں وقوف جیسے اعمال حضرت ابراہیمؑ اور حضرت ہاجرہؑ کی یاد دلاتے ہیں۔ ان مناسک کے دوران حاجی انبیاء کرامؑ کی پیروی کرتے ہوئے ان کی زندگی کے اہم واقعات کو یاد کرتے ہیں اور ان سے روحانی رہنمائی حاصل کرتے ہیں۔
حج، جو اسلام کے پانچ ستونوں میں سے ایک ہے، ذِی الْحجہ کے پہلے دس دنوں کے دوران انجام دیا جاتا ہے۔ یہ سفر سیِّدُنا ابراہیمؑ کی آزمائشوں اور عقیدت کا گہرا مظہر ہے۔ دنیا بھر سے مسلمان مکہ میں جمع ہوتے ہیں تاکہ وہ مناسک ادا کریں جو سیِّدُنا ابراہیمؑ اور ان کے خاندان کی وراثت کو عزت بخشتے ہیں۔ حج کے اہم پہلو جو براہ راست سیِّدُنا ابراہیمؑ سے منسلک ہیں۔
حجاج طواف (خانہ کعبہ کے گرد چکر لگانا) کرتے ہیں، جو مقدس گھر ہے جسے سیِّدُنا ابراہیمؑ اور ان کے بیٹے حضرت اسماعیلؑ نے تعمیر کیا تھا۔ وہ سعی بھی کرتے ہیں، جو صفا اور مروہ کے درمیان سات چکر لگانے پر مشتمل ہے، حضرت ہاجرہؑ کی اپنے بیٹے حضرت اسماعیلؑ کے لیے پانی کی تلاش کی نقل کرتے ہیں۔
ذِی الْحِجَّہ کے نویں دن، میدان عرفات میں کھڑے ہوکر، حجاج دعا اور غور و فکر میں مشغول ہوتے ہیں۔ یہ سیِّدُنا ابراہیمؑ کی عقیدت اور اس دن کی یاد دلاتا ہے جب انہوں نے اللّٰہ کی رحمت اور ہدایت طلب کی تھی۔حجاج منیٰ میں تین ستونوں پر کنکریاں پھینکتے ہیں، جو اس وقت کی یادگار ہے جب سیِّدُنا ابراہیمؑ نے شیطان کی طرف سے حضرت اسماعیلؑ کی قربانی سے روکنے کی کوششوں کو ردّ کیا۔
ذِی الْحجہ کے اعمال اور ان کی روحانی اہمیّت: ۔ ذِی الْحجہ میں انجام دی جانے والی عبادات اور اعمال مسلمانوں کی روحانی تربیت کے لیے نہایت اہم ہیں۔ یہ مہینہ ہمیں سیِّدُنا ابراہیمؑ کی اطاعت، قربانی اور اللہ تعالیٰ کے ساتھ تعلق کی گہرائی کی یاد دلاتا ہے۔
حج کے موقع پر دنیا بھر کے مسلمان ایک جگہ جمع ہوتے ہیں، جس سے اسلامی بھائی چارہ اور اتحاد کی فضاء پیدا ہوتی ہے۔ قربانی کا عمل بھی مسلمانوں کو ایک دوسرے کے قریب لاتا ہے۔
روزے: ۔ذِی الْحجہ کے پہلے دس دنوں کے روزے رکھنا سنّت ہے، خاص طور پر یوم عرفہ کا روزہ بہت زیادہ فضیلت رکھتا ہے۔ یہ روزہ گزشتہ اور آئندہ ایک سال کے گناہوں کا کفارہ بن جاتا ہے۔ ذِی الحجہ کے روزے ایک عظیم عبادت ہیں جو مسلمانوں کو اللہ کے قریب لے جاتی ہیں۔ احادیث میں ذِی الحجہ کے پہلے نو دنوں کے روزوں کی بڑی فضیلت بیان کی گئی ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ان دنوں میں کوئی دن ایسا نہیں ہے جس میں نیک اعمال اللہ کو اتنے محبوب ہوں جتنے ذِی الْحجہ کے پہلے دس دنوں میں ہوتے ہیں‘‘۔ (بخاری)ان دنوں میں روزے رکھنا ایک بہترین عمل ہے جو اللہ کے قریب لے جاتا ہے۔ ذِی الْحجہ کا نوواں دن یعنی یوم عرفہ کا روزہ رکھنا خاص طور پر بہت فضیلت والا ہے۔ نبی کریمؐ نے فرمایا: ’’یوم عرفہ کے روزے کے بارے میں مجھے اللّٰہ سے امید ہے کہ یہ ایک سال قبل اور ایک سال بعد کے گناہوں کا کفارہ بن جائے گا‘‘۔ (مسلم)یہ روزہ حج کرنے والوں کے علاؤہ سب مسلمانوں کے لئے مستحب ہے۔ اللّٰہ کی خوشنودی حاصل کرنا ہر مسلمان کا مقصد ہے اور ان دنوں میں روزے رکھ کر یہ مقصد حاصل کیا جا سکتا ہے۔
ذِی الْحجہ کی تکبیرات: ۔ذِی الْحجہ کے ابتدائی دنوں میں تکبیرات کہنے کا حکم ہے، جو اللہ تعالیٰ کی بڑائی اور عظمت کا اعتراف کرتی ہیں۔ یہ تکبیرات ہمارے ایمان کو مضبوط کرتی ہیں اور ہمیں اللّٰہ کے قریب کرتی ہیں۔ ذِی الْحجہ کی تکبیرات کو اسلام میں خاص اہمیت حاصل ہے اور اس کی تاریخ اور تشریح کو جاننا ہر مسلمان کے لئے مفید ہے۔
تکبیرات کا آغاز ذِی الْحجہ کے پہلے عشرے میں ہوتا ہے اور یہ ایامِ تشریق تک جاری رہتی ہیں۔ ایامِ تشریق 10، 11، 12 اور 13 ذِی الْحجہ کے دنوں کو کہا جاتا ہے۔تکبیرات بنیادی طور پر اللہ کی بڑائی اور اس کی عظمت کو بیان کرنے کے لئے کہی جاتی ہیں۔ ان کا مقصد اللہ کی حمد و ثناء اور اس کی بزرگی کو تسلیم کرنا ہے۔ تکبیرات کا عمومی متن کچھ اس طرح ہے، ’’اللہ اکبر، اللہ اکبر، لا اله الا الله، والله اكبر، الله اكبر، ولله الحمد‘‘ یہ الفاظ اللہ کی کبریائی اور وحدانیت کو ظاہر کرتے ہیں اور اس کیلئے شکر گزاری کو بیان کرتے ہیں۔
ایامِ تشریق میں تکبیرات کی خاص اہمیت ہے۔ حج کے دوران تکبیرات کا کہنا واجب ہے اور یہ منیٰ میں قیام کے دوران حاجیوں کے لئے خاص اہمیت رکھتی ہیں۔ یہ تکبیرات ہر نماز کے بعد کہی جاتی ہیں۔ تکبیرات اجتماعی طور پر کہی جاتی ہیں جس سے مسلمانوں میں اتحاد اور اجتماعی عبادت کا احساس بڑھتا ہے۔ یہ ایک ایسی روایت ہے جو مسلمانوں کو ایک دوسرے کے قریب لاتی ہے اور ان میں روحانی ہم آہنگی پیدا کرتی ہے۔
احادیث کے مطابق ذِی الْحجہ کے پہلے دس دنوں کی عبادت کا اجر بہت زیادہ ہے۔ نبی کریمؐ نے فرمایا کہ ان دنوں میں کیا گیا کوئی بھی نیک عمل اللّٰہ کو بہت پسند ہے۔
ذِی الْحجہ کی تکبیرات ایک اہم عبادت ہے جو اللہ کی بڑائی اور وحدانیت کو تسلیم کرنے کا ایک ذریعہ ہے۔ یہ نہ صرف حاجیوں کے لئے بلکہ ہر مسلمان کے لئے اہمیت رکھتی ہیں۔ ذِی الْحجہ کے دنوں میں اللہ کی یاد اور شکر گزاری کو بڑھانے کا ایک خاص موقع ہے جو مسلمانوں کو مزید قریب لاتا ہے اور ان کے ایمان کو مضبوط کرتا ہے۔
تکبیرات کو پوری روحانیت اور اخلاص کے ساتھ پڑھنا چاہئے تاکہ اس کے اثرات قلب و روح پر مرتب ہوں اور مسلمان اللہ کے قرب اور رضا کو حاصل کر سکیں۔
ذِی الْحجہ کا مہینہ ہمیں سیِّدُنا ابراہیمؑ کی زندگی کے اہم واقعات کی یاد دلاتا ہے اور ان کی سیرت کے تناظر میں ہماری روحانی تربیت کا ذریعہ بنتا ہے۔ اس مہینے کی عبادات اور اعمال ہمیں اللہ کے قریب کرتے ہیں اور ہمیں اطاعت، قربانی اور توحید کی تعلیمات پر عمل پیرا ہونے کی ترغیب دیتے ہیں۔ حضرت ابراہیمؑ کی زندگی ہمارے لیے ایک مثالی نمونہ ہے جس سے ہمیں سیکھنے اور اپنی زندگی میں عمل کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ اہم واقعات حضرت ابراہیمؑ کی زندگی میں اللہ کے ساتھ ان کے قریبی تعلق اور ان کے ایمان کی مضبوطی کو ظاہر کرتے ہیں۔ذِی الْحجہ اپنی گہرائی میں بھرپور مناسک اور تقریبات کے ساتھ، سیِّدُنا ابراہیمؑ کی ایمان، قربانی، اور عقیدت کی طاقتور یاد دلاتا ہے۔ ان کی زندگی اور اعمال اسلام کے بنیادی اقدار کی مثال پیش کرتے ہیں اور مسلمانوں کی روحانی سفر میں رہنمائی کرتے ہیں۔ یہ مہینہ اللہ کی مرضی کے آگے سر تسلیم خم کرنے، قربانی کی اہمیت، اور امت اور خیرات کی اہمیت پر غور کرنے کا موقع ہے۔ سیِّدُنا ابراہیمؑ کی زندگی کے واقعات کی یاد مناکر، مسلمان اپنے ایمان اور وراثت کے ساتھ اپنے تعلق کو مضبوط کرتے ہیں، اور ان اصولوں کو مجسم کرتے ہیں جن کو انہوں نے وفاداری کے ساتھ برقرار رکھا۔اللہ تعالیٰ ہم سب کو ذِی الْحجہ کے اعمال کرنے کی توفیق عطاء فرمائے اور ہمیں اپنی رحمتوں سے نوازے۔ (آمین)
رابطہ۔09422724040
[email protected]