اپنے خوبصورت گاؤں سے جب شہر آیا تو اس کی عمر اٹھارہ برس تھی۔ اس کے گاؤں میں پنڈت اور مسلم صدیوں سے ایک ساتھ مل جل کر رہتے آ رہے تھے۔ وہ ایک غریب گھرانے کا چشم و چراغ تھا۔ خدا نےاس کو شکل و صورت کے علاوہ قابلیت اور ذہانت سے بھی نوازا تھا۔ اس نے انٹرنس کا امتحان امتیازی نمبروں سے پاس کر کے میڈیکل کالج میں ایم بی بی ایس کے لیے داخلہ لیا۔ پورے گاؤں میں یہ بات جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی کہ رمیز چاچا کا بیٹا شاداب ڈاکٹر بن رہا ہے۔ گاؤں کے سارے لوگ ، مسلم و پنڈت یکجا، رمیز چاچا کے گھر مبارکباد دینے کے لیے آئے۔
رمیز چاچا کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ تھا مگر اندر ہی اندر انہیں اس بات کی فکر ہو کھائے جارہی تھی کہ اب شاداب کی پڑھائی اور رہنے کے خرچے کا انتظام کیسے ہوگا۔ بیٹے کی خاطر انہوں نے یہ بات دل میں ہی چھپا لی اور کچھ پیسوں کا انتظام کر کے شہر پہنچ گئے۔کالج میں بیٹے کا داخلہ کرنے کے بعد رمیز چاچا اس کے رہنے کا انتظام کالج کے نزدیک ہی ایک پنڈت کے گھرانے میں کرکے خود گاؤں کے لیے روانہ ہو گئے۔یہاں شاداب کی ملاقات رانی سے ہوئی۔
آج شاداب نے شہر کے ریلوے اسٹیشن سے اپنی ٹکٹ لی اور ٹرین میں بیٹھ گیا۔ جیسے ہی وہ سیٹ پہ بیٹھا تو پیچھے سے کسی عورت نے آواز دی۔۔"شاداب! ڈاکٹر شاداب!"۔
شاداب نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو بڑی مشکل سے اسے یاد آیا کہ یہ رانی ہے۔
"رانی تم!" ڈاکٹر شاداب نے جواب دیا اور اس کے ساتھ ہی شاداب ماضی کے دریچوں کو کھولنے لگا۔
اسے یاد آیا کہ جب اس نے میڈیکل کالج میں داخلہ لیا تھا تو اس کے ابو نے اسے رانی کے گھر میںپیینگ گیسٹ کی حیثیت سے رکھا تھا۔ اسے یاد آیا کہ جب وہ رانی کے گھر میں رہتا تھا تو کسطرح رانی اس کا خیال رکھتی تھی۔ اُسے کپڑے استری کرکے تیار ملتے تھے۔ امتحان کے دنوں صبح سویرے جگاتی تھی اور شام کے دس بجے اس کے کمرے میں ادرک والی چائے کا کپ پہنچاتی تھی۔
رانی ہمیشہ کہا کرتی تھی:شاداب جب آپ ڈاکٹر بن جاو گے تو مجھے مت بھولنا۔اور وہ ہمیشہ یہی جواب دیا کرتا تھا، ’’ایسا کبھی نہیں ہوگا‘‘۔
ایم بی بی ایس اور ایم ڈی کی ڈگری حاصل کر کے جب وہ اپنے گھر واپس چلا گیا تو اس کا باپ بہت کمزور اور لاغر ہو چکا تھا۔ بہنیں جوان ہو چکی تھیں۔ اس لیے بہت ساری ذمہ داریاں اس کا انتظار کر رہی تھیں۔ ایم ڈی ہونے کے باوجود اسے یہاں نوکری نہ ملی اور وہ اپنی ذمہ داریوں کو نبھانے کی خاطر بیرون ملک چلا گیا۔
ایک ایک ذمہ داری کو نبھاتے نبھاتے وہ رانی کو تو کیا اپنے آپ کو بھی بھول گیا۔ نہ اسے دن کا پتہ رہا نہ رات کی خبر۔ وقت کا چرخہ چلتا رہا اور دیکھتے ہی دیکھتے دس سال گزر گئے۔
آج وہ اتنے برس بعد گھر جا رہا تھا تو اسے ٹرین میں رانی مل گئی۔
ڈاکٹر شاداب!
ڈاکٹر شاداب!
رانی نے اس کے کندھے کو ہلایا تو وہ خیالوں کی دنیا سے واپس آیا۔ اسے یقین ہی نہیں آیا کہ رانی اس کے سامنے ہے۔ اتفاق سے آج رکھشا بندھن کادن تھا۔ رکھشا بندھن کا خیال ذہن میں آتے ہی اس نے اپنی کلائی ندامت سے رانی کی طرف بڑائی تو رانی نے فورا اپنا پرس کھول کر اس میں سے پوری دس راکھیاں نکال کے شاداب کی کلائی پر ایک ایک کر کے باندھ دی۔ اور اس کے ساتھ ہی ان کی آنکھیں نم ہو گئیں۔
رابطہ؛پہلگام ۔ اننت ناگ،9419038028, 8713892806