تحریک حریت کشمیر کو اس کے منطقی انجام یعنی آزادی کی منزل تک پہنچانے کے لئے جو مشکلات راہ میں حائل ہیں،اُن کا جائزہ لینا بھی ضروری ہے ۔پہلے یہ سوال کہ آزادی کیا ہے؟آزادی انسان کے روح کی بنیادی پکار ہے ،پیدائشی حق ہے ،کسی غیر کا تسلط ،جابرانہ قبضہ یا غلامی انسانی سرشت کے خلاف ہے۔اس لئے وہ اس کے خلاف آواز اٹھانا اپنا فرض سمجھتا ہے۔آواز صدا بصحرا ہوجائے تو دوسرے ذرائع کا استعمال کرنا بھی اس کے دائرۂ اختیار میں ہے۔کشمیریوں نے بھی اپنی آزادی کے حق میں آواز اٹھائی ہے ،باربار اٹھائی ہے ،اپنی مزاحمت جموں و کشمیر کے طول وعرض میں درج کی ہے ۔وہ گریز ہو یا کرگل ، کشتواڑ ہو یا راجوری ،ڈوڈہ ہو یا رام بن ،اسلام آباد ہو یا سرینگر ،بانڈی پورہ ہو یا بڈگام ۔۔۔یہ آواز 1931سے آج نومبر 2016تک ،مختلف شکلوں میں لگاتار جاری و ساری رہی ہے ۔ہم ا غیار کے تسلط سے نجات مانگتے رہے ہیں ،وہ اغیار دورِ مغل تھے یا افغان ،سکھا شاہی تھی یا ڈوگرہ شاہی۔۔۔ اور اب ہندوستان کے خلاف ناراض اورنہتے لوگوں نے آواز اٹھائی ،احتجاج کئے لیکن ا س کا جواب انہیں گولیوں گرفتاریوں ، تعذبیوں ، صلیبوں، زخموں، تباہیوں، عزت ریزیوں ، اور اب پیلٹ گن اور پاوا سے دیا جارہاہے ۔۔۔۔ گزشتہ چار ماہ سے ہزاروں لنگڑے ،لولے اور اندھے نوجوانوں کا ایک بڑا مجمعہ جمع کردیا گیا،یہ سب ڈیمو کریسی کی دہشت گردی کے شکار ہوگئے ہیں ۔ہمارے سامنے اُن کا خوابوں بھرا روشن ، جہاں تاریکیوں میں ڈبو دیا گیا ،یہ سب ہمارے اپنے عزیز ہیں۔مادر وطن کے ننھے معصوم بچے ہیں،ان کا درد ہم سب کا مشترکہ درد ہے ،اُن کی فکر مندی سے لاتعلقی اور اجنبیت کو ئی مردہ ضمیرہی کا شیوہ ہوسکتاہے۔ غموں المیوں کی لگاتار یورشوں کے بیچ آج لگاتار ہڑتال و کرفیو ،بندشوں کا آج ایک سو بیسواں دن ہے اور احتجاج جاری ہے ۔ ہم سب کشمیری چاہتے ہیں ،ہمار دیر ینہ ا مسئلہ پُر امن طریقے سے حل ہو،یہاں ظلم و جبر ،پکڑ دھکڑ اور خون ریزیاں ہمیشہ کے لئے بند ہوں۔
صاف ظاہر ہے کہ ہمارے سروں پر مسلط حکمران نہ انسانی حقوق کا احترام کر ناجانتاہے نہ بات چیت سے مسئلہ حل کرنا چاہتا ہے ۔وہ بھرپور طاقت ،چھل کپٹ ، سیاسی ساحری ،ظلم اور گولی سے معاملہ دبانا چاہتا ہے ۔ سوال یہ ہے کہ کیاکیا ہم دب جائیں گے ؟ممکن ہے یہاں حاکموں کے دبد بے سے قبرستان کی خاموشی چھا جائے ، لوگ اپنی زبانوں پر بھاری تالے چڑھائیں ، ان کی سانسیں اور نبضیں ظلم وتشدد کے آگے رک جائیں، ان کے خواب ٹوٹ جائیں۔۔۔۔ لیکن آواز ۔۔۔آزادی کی پکار تو حق ہے نا ۔۔۔۔ وہ زندہ ہے ،زندہ رہے گی۔ اسے ہمالیائی پہاڑ جتناظلم بھی دیا نہیں سکتا، یہ ضمیروں میں جوں توں سسکتی آہ بن کر جیئے گی اور کبھی بھی ایک چیخ کے قالب میں ڈھل کرانشاء کی بے نور آنکھوں اور جنید کے خون بھرے کفن سے اُبھرے گی ہی پھر ایک بار اور لگاتا ۔۔۔ہر طرف ۔۔۔فلک شگاف صدائے ابز گشت کے ساتھ۔۔۔ اورمنزل مراد سے ہمکنار ہونے تک یہ سلسلہ جاری رہے گا اور ہاں ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ مرادوں کی جھولی بھر نے کے لئے نئے وسائل ،نئی حکمت عملی پر غور کرنا بھی اہم ہے۔
یو این او یعنی انصاف کرنے والی اقوام ِعالم کے بین الاقوامی ادارے کا’’ انصاف‘‘ تو ہم نے دیکھ لیا۔ اس بارکشمیر میں جاری ظلم و جبر اور خونریزی کے باوجود بھی اورسو کے قریب شہادتوں کے باوجود بھی ،پیلٹ کی زبردست تباہ کاریوں کے باوجود بھی اور بان کی مون کو بھیجے گئے خون کی روشنائی سے رقم سینکڑوں مراسلوں کے باوجود بھی ، اقوام متحدہ کی مستی بھری نیند ابھی تک ٹوٹی نہیں ۔ ہماری آہ وپکار ابھی تک ان کے گوش ِ سماعت سے ٹکراکر دل کے نہاں خانے میں اتری ہی نہیں ، یہاں کسی ایک گوشے میں بھی کشمیر کے درد والم کا ذکر تک نہیں کیا ۔اس مجرمانہ بے حسی اور خاموشی کی کیا وجہ ہوسکتی ہے؟ اس کا مطلب کیا ہوسکتاہے ؟
وجہیں کئی ہیں اور مطالب بھی کئی ایک ہیں ۔۔۔ملکوں کی سیاستیں۔۔ ۔۔قوموں کے کاروباری تعلقات۔ ۔۔۔اقتصادیات کا غم اور مفادات کی فکر۔۔۔۔یو این او میں انصاف کو ثانوی حیثیت بھی حاصل نہیں مگر مفادات اور اغراض کی پو جا کی جاتی ہے۔۔۔ ایسٹ تیمور کو کچھ ہی سال پہلے یو این او کی مداخلت سے آزاد ی مل گئی، کوسووا اور بوسنیا کا مسئلہ بھی اقوام عالم کی سرپرستی میں حل کیا گیا لیکن کشمیر اور فلسطین کا مسئلہ پچھلے ستر برسوں سے لٹکا ہوا ہے اور بہت دیر لٹکتا رہے گا۔۔۔۔سال2014جولائی ،اگست کے مہینوں میں اسرائیل کے بمبار طیاروں نے ہزاروں ٹن بم غازہ کی بستی پر گرائے ،دو ہزار سے زیادہ فلسطینی مرد ،عورتیں اور بچے ابدی نیند سلائے گئے ،رہائشی مکانات ،ہسپتال ،سکول ،شاپنگ مال،پاور اسٹیشن وگیرہ سب زمین بوس کردئے گئے اور یو این او اپنی پتھردل خاموشی کا بھرم رکھ کر ان ناگفتہ بہ حالات کا تماشہ بڑے چاؤ سے دیکھتی رہی۔۔۔۔۔کوئی ایک ملک (خاص طور مسلمان ملک)سامنے آکر اسرائیل کو ننگی جارحیت سے روک نہ سکا۔بس اِدھر اُدھر سے کچھ مذمتی بیانات سامنے آگئے اور نہتے فلسطینیوں پر ظلم و تشدد ہوتا رہا ۔۔۔۔کھیل آج بھی جاری ہے۔۔۔ ۔کیونکہ اقوام متحدہ میں جس کی لاٹھی اُس کی بھینس کا بت پو جاجاتاہے۔
اسلامی ممالک اپنی اہم مجلسوں میں کشمیر کازیعنی رائے شماری کرانے کی حمایت زبانی کلامی تو کررہے ہیں ،خوش آیند بات ہے لیکن یہ زبانی جمع خرچ عملی طور پر کچھ کرکے دکھانے کے لئے نہیں ہوتا۔۔۔اور یہی دیکھتے دیکھتے یہاں کشمیر میں تاریخ کی آنکھیں بوڑھی ہوتی رہیں اور کئی دہائیوں سے جاری موت کے تانڈو میں انسانوں کی فصلیں کٹتی رہی ۔۔۔۔۔بچے ،بوڑھے ،عورتیں اور مرد مر رہے ہیں ۔۔۔ ہلاک شدگان کی تعداد لاکھ کے ہندسے تک دس سال پہلے پہنچی تھی ۔۔۔آج کی گنتی کسے معلوم ۔۔۔؟
پاکستان ،چین اور ترکی جس طرح ہر بڑے سٹیج پر مسئلہ کشمیر حل کرانے کی بات کررہے ہیں،کشمیر کاز کی حمایت کررہے ہیں ،وہ لائق تحسین ہے اور قابل قدر بھی جب کہ دوسرے مسلم ممالک کا رول اتنا پُر جوش نظر ہی نہیں آتا ہے حالانکہ ان کا وجود ہمارے لئے بہت اہم ہے ۔اب رہی ہماری سر زمین کشمیر کی بات ۔۔۔ہمارے قومی تشخص کی بات ۔۔۔ہماری اُمیدوںاُمنگوں کی بات۔۔۔آرزو ئے آزادی کی بات۔۔۔مجھے اپنے ایک بزرگ دوست کی بات یاد آرہی ہے ، بہت اچھے شاعر بھی ہیں اور مشہور ادبی جریدے کے ایڈیٹربھی ۔برسوں پہلے ممبئی میں ان کے کمرے میں بیٹھا چائے کی چسکیاں لے رہا تھا کہ باتوں باتوں وہ اچانک بولے ، ’’تم لوگ آزادی چاہتے ہونا؟ ۔۔۔مجھے معلوم ہے ۔میں کئی بار کشمیر آچکا ہوں ۔‘‘میں نے خاموشی سے اثبات میں سر ہلایا ۔ وہ کچھ دیر میرے چہرے پر نظر یں جمائے رہے پھر شفقت اور اپنائیت سے بولے۔’’آزادی چاہتے ہو تو پہلے خود کو خود کفیل کرو ،آگے کا سفر آسان ہوجائے گا ۔‘‘اُن کی یہ مجرب بات آج تک مجھے بڑی وزنی اور مفید عام لگ رہی ہے ۔ میرے خیال میں ہمت ، خواب اور کچھ کر دکھانے کی لگن ہی نہیں چاہتی بلکہ عمدہ آزادی فکر مانگتی ہے ،اتحاد و یگانگت مانگتی ہے ،ایثار و قربانی مانگتی ہے، اخلاقی برتری چاہتی ہے اورسب سے بڑھ کے اپنے سچے من سے اپنے خواب کا تصدیق بالقلب ا ور اقرار بالقلب مانگتی ہے ، ساتھ میںلہو مانگتی اور صبر و برداشت بھی مانگتی ہے۔۔۔۔کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ آزادی پلیٹ میں نہیں ملتی ہے ۔