قیصر محمود عراقی
بلا شبہ ہمارے معاشرے میں تنگی کی شکایت اور خوشیوں کے مواقع پر اسراف ہمارا وتیرہ بن چکا ہے ۔ شادیوں کے لئے اتنے قرضے لئے جا تے ہیں کہ کئی برسوں تک ان کی ادائیگی کی جا تی ہے یاشادی صرف اس لئے مؤ خر کی جا تی ہے کہ اس کے اخراجات ( اسراف) کے لئے رقم جمع نہیں ہو تی۔ اگر اس حوالے سے اسلام یا نقطہ نظر سے دیکھا جا ئے تو بالکل واضح نظر آتاہے کہ آپ کو اللہ نے نعمتوں سے نوازا ہو،لیکن آپ ان کا استعمال نہ کریں ۔ اگر اللہ نے وسعت دی ہے تو شرعی حدود میں رہتے ہو ئے جتنی بڑی خوشی منا ئیں ، اس سے قباحت نہیں ۔ لیکن قرض لے کر مصنوعی خوشی منانا اسلامی تعلیمات کے منافی ہے ۔آج کل کے ترقی یافتہ دور میں جہاں سماجی رابطوں کے ذرائع کا بے دریغ استعمال کیا جا رہا ہے ، وہیں ان ذرائع کے اثرات انسانی زندگیوں پر بھی نظر آتے ہیں ۔ فیس بک کو ہی دیکھیں، چائے پینے سے پہلے تصویر ، گاڑی میں بیٹھتے ہو ئے تصویر ، کھا نا کھانے کی تصویر ، یہ سب مصنوعی خوشیاں ہیں ۔ خوشی وہ ہے جس کا احساس اندر سے ہو نہ کہ لوگوں کو دکھا کر یا اپنی جھوٹی شان و شوکت کا مظاہرہ کر کے ۔ فیس بک کی دنیا میں اکثر لوگ مصنوعی زندگی گزار تے ہیں اور اس بیماری میں امیروغریب سب برابر کے شریک ہیں ۔
عید قرباں کی آمد آمد ہے ۔ لوگ قربانی کے لئے جانور خریدنے میںمصروف ہیں ، یہاں بھی یہی رویہ نظر آتا ہے ۔ لوگ اپنی استطاعت سے بڑھکر جانور لانے کی کوشش کر رہے ہیں ،اگر یہ مسابقت صرف رضائے الٰہی کے لئے ہے تو اس سے اچھی کوئی بات نہیں ۔ لیکن اگر یہ ریا اور نمود و نمائش کے لئے ہے تو ہمیں سوچنے کی ضرورت ہے ۔ اگرانسان کو اصل خوشی درکار ہے تو اسے اپنے اخلاص میں تلاش کر ے ۔ قربانی کا جانور خریدنے کے لئے مال کہاں سے لایا ؟ قربانی کا مقصد واضح ہے یا نہیں ؟ قربانی کیوں کی جا رہی ہے ؟ آیا گوشت کی ضرورت ہے ؟ جانور کا خون بہا کر تسکین ملتی ہے ؟ لوگوں کے سامنے اپنی شان و شوکت کا مظاہرہ کر نا ہے ؟ بچوں کی خوشی کے لئے قربانی کر رہے ہیں ؟ اپنی عزت اور ناک کا مسئلہ ہے ؟ کسی کو اپنی حیثیت دکھانی ہے ؟ محلے والوں پر رعب ڈالنا ہے ؟ ان جیسے دیگر سوالات ہی ہمیں قربانی کے اصل مقصد تک لے کر جا سکتے ہیں ۔ اگر اللہ نے ہمیں وسعت دی ہے ، مال سے نوازا ہے ، تو اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ صرف مال و دولت ہو نے کی وجہ سے قربانی کا مقصد جا نے اور اخلاص نیت کے بغیر قربانی کی جائے،یہ عمل اللہ کو قبول نہیں ۔ جن کو اللہ نے وسعت نہیں دی ، اس کے باوجود وہ قربانی کر تے ہیں اور وہ بھی مقصد قربانی اور اخلاص نیت سے عاری ہو تے ہیں تو ایسی قربانی کی بھی اللہ کو ضرورت نہیں ۔ کیونکہ اللہ تو صرف دِلوں کا حال دیکھتا ہے ۔
اگر ہم اس آئینہ میں اپنی تصویر دیکھنا چاہیں تو ہماری صورت بگڑی ہو ئی نظر آتی ہے ۔ ہر خاص و عام کا یہی حال ہے کہ اپنی اَنّا ، اپنی شہرت،اپنی ناموری بچانے، یا اس کو حاصل کر نے کے لئے ، اسی طرح حصول مال و زر اور شان و شوکت کے لئے اگر ملت کے بڑے سے بڑے مفاد کو قربان کر دینا پڑے تو اس میں باک نہیں ہو تا ۔ کہاں وہ روحانی قربانی کہ جس کے لئے سب کچھ قربان کر دیا گیا اور کہاں یہ عالم کہ چند روزہ زندگی کے مفاد و ناموری کے لئے بڑی قربانی ہی کو قربانی کر دیا جا ئے ۔ اس سیاق میں اگر ہم اپنی عید قرباں کا جائزہ لیں تو معلوم ہو گا کہ جانور کی شکل میں مادی و جسمانی قربانی کو ہم کر تے ہیں مگر روحانی قربانی کا خیال تک نہیں آتا ۔ ہمارا یہ حال کہ جانور کی قربانی تو سال میں ایک بار کر تے ہیں اور مصنوی و روحانی قربانی کو ہمہ وقت قربان کر تے رہتے ہیں، پھر قربانی کے وہ فوائد کہاں سے ہوں ،جن کے لئے قربانی کی صورت کو اپنایا ہے مگر اس کی حقیقت کو نظر انداز کر دیا ہے ۔ اس لئے ہم اپنے ہر منصوبہ میں ناکام ، دوسروں کے غلام بنے ہو ئے ہیں یا بن جا تے ہیں ۔ بد قسمتی سے آج قربانی کو صرف بکرے اور دُنبہ کی قربانی کے ہم معنی سمجھ لیا گیا ہے ۔ گویا چند روپے خرچ کر کے ہم قربانی دینے والوں کی صف میں شامل ہو جا تے ہیں، اس کے بعد پھر ہمیں کسی قربانی کی ضرورت نہیں رہتی ۔
آج مسلمانوں نے اللہ تعالیٰ کے لئے قربانی کا مطلب صرف یہ سمجھ لیا ہے کہ ہر سال حج کر آیا کرو ۔ولیمہ اور عقیقہ کی شاندار دعوت کر دیا کرو اور بقر عید میں کسی جانور کی قربانی کر لیا کرو اور اس کے بعد سال بھر چین کی بانسری بجا یا کرو ۔ اس پر شکایت یہ ہو تی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی نصرت نہیں آتی اور ہم مسلمانوں کی مدد نہیں ہو تی ۔ کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ بزنس کی تر قی کے لئے ہر مصیبت کو خندہ پیشانی کے ساتھ بر داشت کر لیتے ہیں، ہر تکلیف گوارا کر نا آسان مانتے ہیں لیکن صبح کے وقت اپنا نرم بستر چھوڑ کر فجر کی نماز کے لئے اُٹھنا ہمارے لئے مشکل ہو جا تا ہے ؟ کیا یہ حقیقت نہیں کہ نما زقضا ہو جا ئے ، کسی کی حق تلفی ہو جا ئے ، کوئی ناجائز کام ہم سے سرزد ہو جا ئے تو احساس تک نہیں ہو تا ؟ کیا یہ حقیقت نہیں کہ اپنے دل کی تسکین کے لئے ہر قسم کی فضول خرچی کر گذرتے ہیں ،یہ چند حقائق ہیں ، غور سے دیکھا جائے تو نظر آئے گا کہ ہماری ساری زندگی اس قسم کے نمونوں سے بھری ہو ئی ہے۔
قربانی کی حقیقت یہ نہیں کہ ہم نے اپنی بُری عادتوں کی اصلاح اور اپنی خواہشات کی بندش کی ضرورت کبھی محسوس نہیں ہوئی بلکہ قربانی کی حقیقت یہ ہے کہ پہلے آدمی اپنے ارادے ، اپنی خواہش، اپنی عادت اور اپنے مزاج کے گلے پر چھری پھیرے ، اپنے دل کے کہنے پر نہیں بلکہ خدا اور رسولؐ کے کہنے پر چلنے کا فیصلہ کرے اور اس قسم کے ہر موڑ پر خدا کے ڈر اور آخرت میںجواب دہی کے خیال سے بُرائی سے اپنا ہاتھ روک لے ۔ کم از کم بڑے گناہوں سے بچے ، مثلاً غیبت ، خیانت، جھوٹ اور فرائض میں کوتاہی سے اپنے آپ کو بچانے کی کوشش کرے اور اس راہ میں اگر اس کو اپنے اوقات اور اپنی عادت کی کچھ قربانی کر نی پڑ رہی ہو تو اس سے بالکل بھی دریغ نہ کرے ۔ کیونکہ قربانی کی یہی صحیح تصویر ہے جس پر خدا کی نصرت کا وعدہ ہے جبکہ اس کے بر عکس آج ہمارے معاشرے کی حالت اتنی خراب ہو تی جا رہی ہے کہ گھر میں کھانے کو روٹی نہیں ہے مگر پھر بھی قوم کے کچھ نا سمجھ اور نادان لوگ قرض لے کر قربانی کا فریضہ انجام دیتے ہیں ، ایک دوسرے پر بر تری حاصل کر نے کے لئے جانوروں کی زیادہ سے زیادہ بولی لگا کر جانور خریدتے ہیں اور قربانی کر تے ہیں ۔ اکثر و بیشتر جگہوں پر ریا والی قربانی،قرض والی قربانی ، گوشت کھانے والی اور ایک دوسرے پر سبقت لے جانے والی قربانی ہو رہی ہے ۔
افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ آج ہمارے علماء کرام قربانی سے دو ہفتہ پیشتر مسجد کے منبر پر کھڑے ہو کر قربانی کے جانوروں میں کیا کیا عیب ہو نے سے قربانی نہیں ہو گی بتاتے ہیں۔ لیکن ایک بار بھی علما کرام یہ نہیں کہتے کہ جس طرح قربانی کے جانور وں میں یہ یہ عیب نہیں ہو نی چاہئے، اسی طرح قربانی دینے والوں میں بھی یہ عیب نہیں ہو نی چاہئے جو عیب اکثر قربانی دینے والوں میں پائی جا تی ہے ۔ یعنی حرام کی کمائی سے دی جا نے والی قربانی جائز نہیں ہو گی ۔ مگر کیا کیا جا ئے یہ جملہ’’ قربانی کیلئے بے عیب جانور ڈھونڈنے والے اپنی بے عیب کمائی کا بھی خیال کریں ‘‘ کہنے سے ہمارے علما ء کتراتے ہیں ۔ اس کی خاص وجہ یہ ہے کہ اس طرح لوگ قربانی نہیں کرینگے اور جب قربانی نہیں ہو گی تو چمڑا نہیں ملے گا اور جب چمڑا نہیں ملے گا تو ان علمائوں کی جیب کیسے بھرے گی ۔ لہٰذا، اُمت کو چاہئے کہ جانور میں عیب تلاش کر نے سے پہلے اپنی آمدنی میں عیب تلاش کرے۔
(رابطہ۔6291697668)