موسیٰ اُس پرانی حویلی میں مُدت سے اکیلا رہتا تھا۔ شام ہوتے ہی وہ دالان پر لال ٹین کی دھیمی روشنی میں رات گئے تک شب کے سناٹے کو تکتا رہتا تھا۔ یہ اُسکا روز کا معمول تھا صبح سویرے جب سورج کی کرنیں حویلی کے در و دیوار چومنے لگتیں تھیں تو موسیٰ اپنی ڈائیری ہاتھوں میں لئے پھر دن بھر اس کی ورق گردانی کرتا تھا۔ موسیٰ زندگی سے خفا کیوں تھا!؟ موسیٰ کا اس قدر تنہائیوں میں کھوجانا اور شب کے سکوت میں ڈوبنا کس راز کا انکشاف کرتا ہے!؟ یہ جاننے کے لئے اُس رات حویلی میں چلا گیا۔
رات کے گیارہ بج چُکے تھے موسیٰ لال ٹین کی دھیمی روشنی میں کھو گیا تھا۔ مجھے اچانک اپنے روبرو دیکھ کر موسیٰ حیران ہوا اور دفعتاََ لالٹین کی لو بڑھا دی۔ مجھے کچھ کہے بغیر اُس نے اپنی ڈائیری میری طرف بڑھا دی۔ اُس کا فونٹین پین ابھی ڈائیری میں ہی تھا۔ میری نظر ڈائیری کے دسویں باب پر پڑی۔ اس باب کی عبارت اس قدر مُتاثر کن تھی کہ میرے ہوش و حواس اُڑ گئے۔
’’اُس نے میرے ساتھ ہی اس رات تہجد کی نماز ادا کی۔۔۔۔ تب وہ بہت رویا تھا۔۔۔۔ وہ صرف مُجھ سے اتنا بول کر چلا گیا کہ ’’بابا مجھ سے اب ظُلمت کدہ کا ظلم برداشت نہیں ہو پاتا ہے۔ مجھے روشنی کی تلاش ہے۔۔۔ میں روشنی لیکر واپس لوٹ آئوں گا‘‘۔ دسویں باب کو پڑھنے کے بعد میں نے ڈائیری بند کی۔ موسیٰ چونک گیا اُس نے پڑ کر لال ٹین کی لو بڑھادی اور مجھے ڈائیری کا آخری باب پڑھنے کا اشارہ کیا۔ میں نے یہ باب بھی پڑھا۔ ’’میں صحرا کے اُس درخت کی مانند ہُوں جو اکیلا تپتی ریت، بے رحم بارش اور ڈراونی آندھیوں کی برداشت کر لیتا ہے۔ صحرا کے گردو نواح میں سیاہ نوکیلے پہاڑ میرا مسکن بن گیا ہے۔ یہ عالیشان حویلی اب میرے لئے طاق نساں سے کچھ کم نہیں ہے! وہ روشنی لے کر ضرور واپس آئے گا۔ وہ انجان راہوں کا مُسافر ہے۔ تمہیں اگر وہ کہیںملے تو اُس تک ضرور میرا یہ پیغام پہنچانا۔ میرے لخط جگر ! تم میری ہر نئی کہانی کا مکمل کردار اُبھر کر آتے ہو۔۔۔ تم ہی میری کہانی کا کلائمیکس ہو۔۔۔ تم سے ہی میری کہانی کا کہانی پن نکھر آتا ہے۔ تم میرے خواب کی تعبیر ہو۔ میری جان! تمہیں اس ماں کی قسم ہے جس نے علمدارؒ ، للؔ اور غنیؔ کو جنم دیا۔ تُم ضرور روشنی لے کر آنا۔۔۔‘‘
اُس دن جب اُس بڑے ناول پر تبصرے چھپ گئے تو ناول ہاتھوں ہاتھ بک گیا۔ چند دنوں میں ہی ناول کی ہزاروں کاپیاں بکِ گئیں۔ ناشر کی دُکان کے سامنے ناول کے خریداروں کی لمبی قطاریں ہوتی تھیں۔۔۔ میں نے بھی ناول خریدا۔ ناول کے خوبصورت جیکٹ پر (دی اینڈ) لکھا تھا اور نیچے سنہرے حروف مین ناول نگار کا نام ’’موسیٰ‘‘ رقم تھا۔ناول کو BEST BOOK ایوارڑ سے نوازا گیا۔ ایواڈ کی خبر سنتے ہی میں ناول کے تخلیق کار موسیٰ کو مُبارک باد دینے کے لئے دوڑ پڑا۔ میرے پائوں تلے زمین کھسک گئی، جب میں نے اُس عظیم تخلیق کار کو حویلی کے برآمدے میں مُردہ پایا!!۔
رابطہ: ا?زاد کالونی پیٹھ کا انہامہ
9906534724