بلال فرقانی
سرینگر//کھادی اینڈ ولیج بورڈ کی رورل ایمپلائمنٹ جنریشن پروگرام(دیہی روزگار تخلیقی پروگرام) کے تحت قرضہ درخواستوں کی منظوری کے عمل کا جائزہ لیتے ہوئے یہ انکشاف ہوا ہے کہ گزشتہ2برسوں کے دوران مجموعی طور پر صرف 41 فیصد درخواستیں بینکوں سے منظور ہوئیں، جو کہ قرضہ منظوری کے عمل میں بہتری کی ضرورت کو اجاگر کرتا ہے۔جموں و کشمیر رورل ایمپلائمنٹ جنریشن پروگرام قرضہ کے ساتھ ساتھ سبسڈی پروگرام ہے جو جموں و کشمیر کھادی اینڈ ولیج انڈسٹریز بورڈ کے زیر انتظام چلایا جاتا ہے۔پروگرام کے تحت 18 سے 40 سال کے عمر کے دیہی علاقوں کے افراد نئے منصوبوں کیلئے درخواست دے سکتے ہیں، جنہیں تعلیمی قابلیت کے مطابق مختلف پروجیکٹوں کی لاگت کی حدوں میں سبسڈی دی جاتی ہے۔میٹرک کیلئے 10 لاکھ روپے تک،+2 10کیلئے 15 لاکھ روپے تک، گریجویٹ کیلئے 20 لاکھ روپے تک اور پوسٹ گریجویٹ کیلئے 25 لاکھ روپے تک قرضہ دیا جاتا ہے۔سرکاری اعداد شمار کے مطابق گزشتہ2برسوں کے دوران دیہی روزگار تخلیقی پروگرام کے تحت 4776 درخواستیں مالی معاونت کیلئے جمع کی گئیں۔ تاہم ان میں سے صرف 1963 درخواستیں، یعنی تقریباً 41 فیصد، بینکوں سے منظور ہوئیں۔اعداد شمار کے مطابق سال2023-24میں بنکوں نے1280اور مالی سال2024-25میں صرف 683 درخواستوں کو منظور کیا گیا، جس کا مطلب ہے کہ بینکوں کی منظورشدہ درخواستوں کی شرح 36 فیصد رہ گئی۔ درخواست گزاروں کا کہنا ہے کہ یہ کمی اس بات کی غماز ہے کہ قرضوں کی منظوری میں سختی آ گئی ہے یا بینکوں نے اضافی چناؤ کے معیار کو اپنایا ہے۔ مجموعی درخواستوں میں سے سال2023-24میں 2526 درخواستیں اورسال2024-25کے دوران 1942 درخواستیں ڈسٹرکٹ لیول ٹیکنیکل اینڈفائنانشل کمیٹی کے سامنے مزید جائزے کیلئے پیش کی گئیں۔ تاہم ان درخواستوں کا ایک بڑا حصہ بینکوں سے منظوری حاصل نہیں کر سکا۔ اس دوران2023-24میں 952 درخواست دہندگان نے مارجن منی دعویٰ کیا تھا، جس میں سے 916 کی رقم کامیابی سے منظور کی گئی جبکہ رواں مالی سال کے دوران283افراد نے مارجن منی کا دعویٰ کیا جن میں سے278 کے حق میں یہ رقم منظور کی گئی۔ بورڈ کے ایک افسر نے بتایا کہ یہ اعداد و شمار جموں و کشمیر کے دیہی علاقوں میں خود روزگار اور پائیدار روزگار کے مواقع پیدا کرنے کیلئے کی اہمیت کو واضح کرتے ہیں۔ تاہم قرضہ منظوری کی شرح میں کمی یہ ظاہر کرتی ہے کہ بہت سے درخواست دہندگان بینکوں کے مقرر کردہ معیار کو پورا کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ ہلال احمد ریشی نامی ایک درخواست گزار نے بتایا’’اس صورتحال کے پیش نظر ضروری ہے کہ دیہی روزگار جنریشن پروگرام کے تحت قرضہ منظوری کے عمل کا دوبارہ جائزہ لیا جائے تاکہ زیادہ سے زیادہ درخواست دہندگان کو مالی معاونت فراہم کی جا سکے اور دیہی علاقوں میں روزگار کے نئے مواقع پیدا کیے جا سکیں۔‘‘