محمد الطاف ثاقب،پونچھ
آج کل کی نوجوان نسل تیزی سے ذہنی تناؤ کا شکار ہو رہی ہے جو نہ صرف ان کی ذاتی زندگی بلکہ معاشرتی ڈھانچے پر بھی منفی اثرات ڈال رہا ہے۔ جدید ٹیکنالوجی اور سماجی دباؤ کے ساتھ ساتھ تعلیمی اور پیشہ ورانہ مقابلے کی شدت نے نوجوانوں کے ذہنی اور جسمانی صحت کو نقصان پہنچایا ہے۔ہر انسان کی الگ الگ پریشانیاں ہیں لیکن وہ اپنی پریشانیوں کو دوسروں کو بتانا نہیں چاہتا۔ دور جدید میں رازداری کا مسئلہ بڑا ہے، ہر آدمی اپنی باتوں کو ایک دوسرے سے چھپا کر رکھتا ہے۔ نوجوان بے روزگاری کی وجہ سے ذہنی تناؤ کا شکار ہوتے جا رہے ہیں۔ معاشی حالت بہتر نہ ہونے کی وجہ سے بھی ذہنی تناؤ کا شکار ہوتے جا ر ہے ہیں۔ انسان کا ہر عمل جو یہ کرتا ہے اس کا تعلق سیدھا دماغ سے ہے۔ اگر انسان کی ذہنی حالت ٹھیک نہیں ہے تووہ کوئی بھی کام بہتر طریقے سے نہیں کر سکتاہے۔ آجکل ہمیں اکثر لوگ ذہنی تناؤ کے شکار ملتے ہیں۔ اکثر لوگ اپنوں کو کھونے کے فراق میں ذہنی تناؤ میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ مینٹل ہیلتھ سروے کی رپورٹ کے مطابق بھارت میں 15 فیصد لوگوں کو ذہنی دباؤ سے بچانے پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ گاؤں اور دور دراز پسماندہ علاقوں میں تو اس بیماری کو بالکل ہی نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔وہ اس کی سنجیدگی سے واقف نہیں ہوتے ہیں،جس کے گمبھیر نتائج سامنے آتے ہیں۔
ایسا ہی ایک معاملہ جموں کشمیر کے ضلع پونچھ کے گاؤں سنئی کا ہے۔جہاں سائمہ خاتون (نام تبدیل)جس کی عمرمحض 12 سال تھی۔گذشتہ ماہ قبل وفات پا چکی ہے،اس کی داستان دل دہلا دینے والی ہے۔اس کے اہل خانہ کا کہنا ہے کہ’’سائمہ کی عمر جب ڈھائی برس کی تھی تب اس کی والدہ انتقال کر گئی،جس کے بعداس کی پرورش والد نے کی۔ سائمہ تین بھائیوں کی اکلوتی بہن تھی، وہ ہر وقت اپنی والدہ کے بارے میں ہی سوچتی رہتی تھی کہ وہ کیسی تھیں؟ دیکھنے میں کیسی ہوگی؟ ان کی وفات کیسے ہوئی ہوگی؟ وغیرہ۔سائمہ نے جب پانچویں جماعت پاس کی تو اس کے والد بھی اس کو چھوڑ کر دنیا سے رخصت ہو گئے۔ ابھی والدہ کا غم بھولی بھی نہیں تھی کہ ایک بار پھر اس بچی کا حوصلہ ٹوٹ گیا تھا۔ جب کبھی بھی وہ بات کرتی تو اپنے والد کے بارے میں ہی کرتی کہ’’میرے پاپا نے یہ کیا، وہ کیا۔‘‘ اپنی ہر ایک چیز کو اپنے پاپا کے نام منسوب کر کے انہیں یاد کرتی رہتی تھی۔ وہ بہت زیادہ ذہنی تناؤ کا شکار ہو گئی تھی۔ اس کی صحت پر اتنا گہرا اثر ہوا کہ 12 سال کی لڑکی سات سال کی لگتی تھی۔ جسم کا اندرونی حصہ بالکل کھوکھلا ہو چکا تھا اور دیکھنے میں بھی وہ ایک دم کمزورلگتی تھی۔سائمہ آٹھویں جماعت کی متعلمہ تھی تب ایک دن وہ اچانک بیمارہو گئی، اس کو ضلع ہسپتال میں داخل کر دیا گیا۔وہاں افاقہ نہ ہونے کی صورت میں اُسے جموں روانہ کر دیا گیا، مگرراستے میں ہی اس کی موت ہو گئی۔ آخر کیا وجہ تھی جو اتنی سی عمر میں ذہنی تناؤ کا شکار ہو گئی تو اس کے بھائیوں نے بتایا کہ’’اپنے والد محترم کی موجودگی میں ٹھیک تھی۔ ہمارے والد صاحب نے ہمیں ماں کے جیسا پیار دیا اور کبھی بھی ماں کی کمی کو محسوس نہیں ہونے دیا۔جب ہمارے والد کا انتقال ہوا تب سے ہی اس کی طبیعت بگڑنے لگی۔ بھائیوں نے بتایا کہ ہم سے بھی وہ زیادہ گفتگو نہیں کرتی تھی۔ من ہی من میں وہ سوچتی رہتی تھی۔ سب سے چھوٹے بھائی نے بتایا کہ جب کبھی مجھ سے بات کرتی تو والد کے بارے میں ہی کرتی یعنی والد کی وفات کا غم اسے اتنا کھا گیا تھا کہ وہ ذہنی مرض میں مبتلا ہو کر باپ کے فراق میںجاں بحق ہوگئی ۔ علاقے میں اگر ڈپریشن پر کام کرنے اور ایسے بچوں کی کونسلنگ کرنے کا معقول انتظام ہوتا تو شائدوہ زندہ ہوتی۔ دیہی علاقوں کے الگ الگ گاؤں میں نہ جانے کتنی ایسی سائمہ ہوتی ہوں گی جو ڈپریشن کا شکار ہوکر اپنی جان جانِ آفریں کے حوالے کردیتی ہیں؟
اب سوال یہ پیداہوتا ہے کہ آخر ڈپریشن کیسے اورکیوں ہوتا ہے؟اس حوالے سے ماہرنفسیات ڈاکٹر صلاح الدین حیدراس کی کچھ بنیادی وجوہات بتاتے ہیں۔ان کے مطابق آج کل نوجوانوں پروالدین اور معاشرتی توقعات کا دباؤ ہوتا ہے کہ وہ تعلیمی میدان میں اعلیٰ کامیابیاں حاصل کریں۔ زیادہ سے زیادہ نمبر حاصل کرنے اوربہتر مستقبل کی ضمانت کی خواہش اکثر انہیں حد سے زیادہ محنت پر مجبور کردیتی ہے، جس کے نتیجے میں ان پرذہنی دباؤ بڑھ جاتا ہے۔اس کے علاوہ سوشل میڈیا نے نوجوانوں کی زندگی میں ایک اہم کردارادا کرنا شروع کر دیا ہے۔ مسلسل دوسروں کی زندگیوں سے موازنہ سے نوجوان اپنی شناخت کھونے لگتے ہیں اور ذہنی دباؤکا شکار ہو جاتے ہیں۔وہیں آج کے نوجوان ایک غیر مستحکم معیشت اور محدود روزگار کے مواقع کا سامنا کر رہے ہیں۔ مستقبل کے بارے میں غیر یقینی صورتحال اور معاشرتی توقعات کا بوجھ ان کے ذہنی تناؤ میں اضافہ کرتا ہے۔ خاندانی جھگڑے، والدین کے درمیان اختلافات یا ذاتی رشتوں میں دراڑیں بھی نوجوانوں کو ذہنی دباؤ میں مبتلا کر سکتی ہیں۔ گھر کا ماحول نوجوانوں کی ذہنی صحت پر گہرا اثر ڈالتا ہے۔ڈاکٹر حیدر کے مطابق ذہنی تناؤ کے اثرات نہ صرف انفرادی سطح پر بلکہ معاشرتی سطح پر بھی محسوس کیے جا سکتے ہیں۔ ذہنی تناؤ میں مبتلا نوجوان اکثر ڈپریشن، بے خوابی یا ذہنی بیماریوں کا شکار ہو سکتے ہیں، جس کے نتیجے میں تعلیمی کارکردگی کمزور ہو سکتی ہے۔ مزید برآں کچھ نوجوان منشیات کی طرف بھی مائل ہو سکتے ہیں، جو ان کی زندگی کو مزید پیچیدہ بنا دیتا ہے۔اس کے ممکنہ حل یہ ہوسکتے ہیں کہ ان کی ذہنی آگاہی کی تربیت دی جائے۔اس وقت اسکولوں اور کالجوں میں ذہنی صحت کے بارے میں آگاہی پیدا کرنا ضروری ہے۔ طلبہ کو ذہنی تناؤ کے بارے میں سکھانا اور انہیں اس سے نمٹنے کے طریقے بتانا نوجوانوں کے لیے ایک اہم قدم ہو سکتا ہے۔وہ کہتے ہیں کہ ایک صحت مند اور معاون خاندان کا ماحول نوجوانوں کو ذہنی تناؤ سے بچانے میں مدد کر سکتا ہے۔اس کے علاوہ نوجوانوں کو پیشہ ورانہ مشورے اور سائیکالوجیکل سپورٹ فراہم کی جانی چاہیے۔ اسکولوں اور کالجوں میں ذہنی صحت کے ماہرین کی موجودگی یقینی بنانا ضروری ہے تاکہ وقت پر مدد فراہم کی جا سکے۔
دراصل نوجوان نسل میں ذہنی تناؤ کا بڑھتا ہوا رجحان ایک سنگین مسئلہ ہے جسے نظرانداز نہیں کیا جا سکتا ہے۔ معاشرتی دباؤ، تعلیمی پریشانیاں اور مستقبل کی غیر یقینی صورتحال نوجوانوں کی ذہنی صحت پر شدید اثرات مرتب کر رہی ہیں۔ ہمیں اس مسئلے کو سنجیدگی سے لینا ہوگا اور نوجوانوں کو ذہنی سکون فراہم کرنے کے لیے ضروری اقدامات اٹھانے ہوں گےتاکہ وہ اپنی زندگی میں کامیابی کے ساتھ آگے بڑھ سکیں۔حکومت کے ساتھ ساتھ، نجی تنظیموں اورمعاشرے کو بھی چاہیے کہ وہ بھی اس مسئلہ کو سنجیدگی سے لے۔دیہی سطح پر ایسے طلبہ وطالبات کی ذہنی پروریش کرنے کی کوشش کرے جو مختلف وجوہات کی وجہ سے چھوٹی عمر میں ہی اس مرض میں مبتلا ہو رہے ہیں۔(چرخہ فیچرس)
������������������������