محمد امین میر
بھارت کے وسیع دیہی علاقے اس کی زرعی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی ہیں، لیکن ان کی زمینوں کا ریکارڈ آج بھی الجھن، تنازع اور فرسودہ دفتری نظام میں الجھا ہوا ہے۔ جہاں شہروں میں جائیداد کی ڈیجیٹل رجسٹری تیزی سے آگے بڑھ رہی ہے، وہیں دیہات اب بھی ہاتھ سے لکھی گئی جمع بندیاں، زبانی گواہیاں اور بوسیدہ ’’تتمہ نقشے‘‘ پر انحصار کر رہے ہیں۔اب وقت آ گیا ہے کہ اس خلا کو پُر کیا جائے—مہنگے سیٹلائٹ سروے یا افسر شاہی کی پیچیدگیوں سے نہیں بلکہ ایک سادہ، سستا اور مقامی سطح پر قابلِ عمل تجرباتی ڈیجیٹل زمین حدبندی ماڈل کے ذریعے، جو کہ عام انسانوں اور مقامی پٹواریوں کے ذریعے انجام دیا جا سکتا ہے۔یہ مضمون ایک قابلِ عمل حکمت عملی پیش کرتا ہے۔ منتخب دیہات میں تجرباتی ڈیجیٹل زمین حدبندی، جس میں گوگل میپس، گوگل لینز، GPS اور پٹواریوں کی فیلڈ ورک جیسے سادہ ٹولز استعمال ہوں گے۔ یہ تجربات بھارت کے زمین حکمرانی کے نظام میں بڑی اصلاحات کی بنیاد رکھ سکتے ہیں۔
دیہات پہلے کیوں؟شہری علاقوں میں عمارتوں کی بھرمار اور پیچیدہ تعمیرات زمین کی نشاندہی کو مشکل بنا دیتی ہیں، جبکہ دیہات میں کھلی زمین، واضح حد بندیاں اور مقامی لوگوں کی زمین سے متعلق زبانی یادداشت اسے ڈیجیٹل حدبندی کے لیے مثالی میدان بناتی ہیں۔
دیہات میں آغاز کے فوائد:کم آبادی، زمین کی حد بندی آسان۔کم تعمیرات، تنازعات اور اوور لیپنگ کا امکان کم۔زبانی تاریخ کی موجودگی ،مقامی لوگ پلاٹوں کی تاریخ جانتے ہیں۔انتظامی سادگی ،پنچایت تعاون فراہم کر سکتی ہے۔مروجہ نظام کی خامیاں،اصلاحات کی فوری ضرورت۔کئی ریاستوں، خاص طور پر جموں و کشمیر میں زمین کے ریکارڈ آج بھی نوآبادیاتی دور کے نظام پر چل رہے ہیں۔ ان میں مندرج خامیاں پائی جاتی ہیں:کئی دہائیوں پرانی جمع بندیاں اور شجرہ نقشے،زبانی حبہ، عدالت کے فیصلے یا کرایہ داری کی منتقلیوں کا اندراج نہیں،مشترکہ یا تقسیم شدہ زمینوں کی حد بندی موجود نہیں،قانونی ملکیت اور اصل قبضے میں کوئی مطابقت نہیں۔اس کے نتیجے میں ریونیو عدالتیں مقدمات سے بھر گئی ہیں، تنازعات بڑھ رہے ہیں اور حق دار افراد اپنے حقوق سے محروم ہو رہے ہیں۔ ڈیجیٹل حدبندی کا یہ تجرباتی ماڈل ایک تیز، شفاف اور قانونی طور پر درست متبادل فراہم کرتا ہے۔
ڈیجیٹل حدبندی کا سادہ اور زمینی ماڈل: یہ تجویز کردہ ماڈل ڈرون یا مہنگے GIS سسٹمز پر مبنی نہیں بلکہ پٹواریوں جیسے زمینی عملے پر انحصار کرتا ہے جنہیں ہر اسمارٹ فون میں دستیاب جدید ٹولز سے لیس کیا جا سکتا ہے۔
اہم ٹولز:گوگل میپس / گوگل ارتھ:پلاٹ کی شکلیں ٹریس کرنا۔گوگل لینز:گھر کے نمبر، نشانات یا دستاویزات اسکین کرنا،GPS:صحیح حدود کا تعین،کیمرہ:تصاویر کے ذریعے ثبوت لینا،بنیادی GIS ایپس:فوری ڈیجیٹل تتمہ نقشہ بنانا،مرحلہ وار طریقہ کار: پٹواریوں کے لیے فیلڈ گائیڈ۔
پہلے دیہات کا انتخاب،فی ضلع 10-15 دیہات منتخب کریں جہاںآبادی 3000 سے کم ہو،زمین کے مقدمات کم ہوں،پنچایت تعاون کرے،زمینی تصدیق اور ڈیٹا اکٹھا کرنا،پٹواری من درج کام انجام دیں گے:ہر خسرہ نمبر کا فزیکل دورہ،مالک، قابض، اور کرایہ دار کی تفصیل،زمین کا موجودہ استعمال نوٹ کرنا،GPS کے ذریعے حدود اور تصاویر،عارضی جمع بندی اور تتمہ خاکہ،گوگل میپس سے پلاٹ کی ٹریسنگ،گوگل لینز سے پرانے ریکارڈ اسکین کرنا،عوامی تصدیق اور اعتراضات کا ازالہ،کھلی پنچایت میں ریکارڈ کی تصدیق،موقع پر اعتراضات کا حل،30 دن کی مہلت برائے تحریری اعتراضات،ڈیجیٹل ریکارڈ کی تیاری،ڈیٹا کو کمپیوٹرائزڈ جمع بندی میں منتقل کرنا،گوگل میپس پر دیہات کی حد بندی کے ساتھ ملانا،GPS اور تصاویر کے ذریعے ڈیجیٹل دستخط،قانونی حیثیت اور پالیسی فریم ورک۔اس عمل کو قانونی تحفظ دینے کے لیے حکومت کو چاہئے کہ وہ ان تجرباتی حدبندیوں کو عبوری دستاویز قرار دے، جن کی مدت 3 سے 5 سال ہو اور جن پر اعتراضات کی گنجائش ہو۔
تجویز کردہ تحفظات: ان کو ’’عارضی تصدیق شدہ زمین رجسٹر‘‘کا درجہ دیا جائے،عوامی اور قانونی اعتراضات کے لیے واضح مدت مقرر ہو،متنازع یا غیر دستاویزی زمینوں کو الگ نشان زد کیا جائے،زرعی اصلاحات (مثلاً زمین کی حد، کرایہ داری تحفظ) کے اثرات کو شامل کیا جائے۔
بین الاقوامی مثالیں: سبق آموز تجربات۔دنیا کے کئی ممالک میں دیہی ڈیجیٹل حدبندی کامیابی سے ہو چکی ہے:روانڈا:1کروڑ پلاٹ GPS سے رجسٹر۔بنگلہ دیش: موبائل ایپ سے زمین کا ریکارڈ، تنازعات میں 60 فیصد کمی۔ایتھوپیا: خواتین اور کرایہ داروں کو شامل کر کے شفافیت لائی گئی۔بھارت میں نوجوانوں کی ٹیکنالوجی سے واقفیت اور پنچایتی نظام ان ماڈلز سے بھی بہتر نتائج دے سکتا ہے۔
ڈیجیٹل حدبندی کے بڑے فوائد،شفافیت اور بھروسہ،عوامی شرکت سے چوری چھپے اندراج ممکن نہیں،شفافیت سے مقامی اعتماد میں اضافہ،کم لاگت، بڑا اثر،سرکاری عملہ اور مفت ٹولز استعمال،ڈرون یا سیٹلائٹ خرچ سے بچاؤ،پٹواریوں کو بااختیار بنانا،ریکارڈ کلرک کے بجائے فیلڈ انویسٹی گیٹر۔
تنازع سے بچاؤ : حد بندی پہلے کر کے مستقبل کے جھگڑے روکے جا سکتے ہیں،آنے والے وقت میں تیز تر حدبندی،اس ماڈل کو بڑی سطح پر آسانی سے نافذ کیا جا سکتا ہے،ریونیو ڈیپارٹمنٹ کے لیے پالیسی تجاویز،ریاستی حکومتوں اور یونین ٹیریٹریز کو چاہیے کہ پائلٹ نوٹیفکیشن جاری کریں،ہر تحصیل میں 10دیہات پر آزمائشی عمل،ریونیو عملہ کو تربیت دیں۔ ہفتے کا ڈیجیٹل ٹولز پر کورس،سہولت ٹیمیں بنائیںپٹواری، پنچ، اساتذہ اور مقامی رضاکار۔نگرانی سیل قائم کریں ،آزاد افسران سے درستگی کی جانچ۔عوامی شرکت کو بڑھائیں،آن لائن ایپ یا ویب پورٹل کے ذریعے مشورہ طلبی،ممکنہ رکاوٹیں اور ان کا حل،بااثر افراد کی مزاحمت،ناجائز قبضوں کے بے نقاب ہونے کا خدشہ۔
حل:قانونی اپیل کی سہولت اور عوامی شعور،دیہی عوام کی ڈیجیٹل ناخواندگی، کاغذی نقشے بھی ساتھ ساتھ دکھائے جائیں۔عدالتی اعتراضات:حل:اس کو ’’ابتدائی دستاویزات‘‘ قرار دے کر قانونی تحفظ فراہم کیا جائے۔
اختتامیہ:دھول سے ڈیجیٹل شفافیت تک ۔بھارت کا دیہی زمین نظام اب مزید ابہام، کاغذی فائلوں اور برسوں پرانے جھگڑوں کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ پٹواریوں کی قیادت میں گوگل ٹولز پر مبنی تجرباتی ڈیجیٹل حدبندی ایک نئی سمت فراہم کر سکتی ہے،سادہ، شفاف اور قابلِ توسیع۔اصلاحات کا انتظار ختم کریں،یہ انقلاب اوپر سے نیچے نہیں بلکہ دیہات سے شروع ہونا چاہیے۔ زمین، عوام اور قانون—تینوں کو ایک اسمارٹ فون، ایک پٹواری اور ایک دیہاتی اجتماع کے ذریعے جوڑا جا سکتا ہے۔فائلوں سے فون تک، عدالت سے عوامی پنچایت تک، شک سے یقین تک کا سفربس ایک قدم کی دوری پر ہے۔