سید اعجاز
اس بات سے ہم سب آشناہیں کہ تعلیم ایک ایسا ہتھیار ہے جس کی مدد سے ایک انسان کوئی بھی جنگ جیت سکتا ہے۔ تعلیم نہ صرف انسان کو معاشی طور مستحکم بنا دیتی ہے بلکہ سماج میں ایک منفرد شناخت عطا کرنے میں مدد کرتی ہے ۔جموںو کشمیر میں گزشتہ قریب دو دہائیوں کے دوران مرکزی و جموںو کشمیر سرکار نے مختلف سکیموں کی مدد سے یہاں ان علاقوں میںتعلیمی اداروں کے جال بچھائے ہیں جہاں آزادی کے بعد بھی کوئی تعلیمی ادارہ قائم ہی نہیں تھا اوریہاں بچوں کو لمبی مسافت طے کر کے تعلیمی ادروں تک پہنچ ناپڑتا تھاجو بعض کے لئے بنیادی تعلیم کے حصول میں ایک رکاوٹ کے طور سامنا آتاتھاتاہم محکمہ کی جانب سے اٹھائے گئے ان اقدام کی بدولت جہاںبچوں کو تعلیم حاصل کرنے کا موقع گائوں کی سطح پر میسر ہوا وہیں دوسری جانب تعلیم یافتہ نوجوانوں کو روز گار بھی حاصل ہواہے اور بے روز گاری پر بڑے پیمانے پر قابو بھی پایا گیا ہے ۔ماہرین کی ا گر مانیں تو ان کا کہنا ہے اس اقدام سے نوجوانوں میں مزید تعلیم حاصل کرنے کا ولولہ بڑ ھ گیا ہے ۔اس دوران مقامی سطح پر تعلیمی اداروں کے قیام ،اعلیٰ تعلیم یافتہ اساتذہ کی بھرتی سے کچھ علاقوں میں پہلی بار کسی بچے نے گریجویشن یا میٹرک پاس کیا ۔
شہروں اور قصبوں میں سرکاری تعلیمی اداروں کی ساتھ ساتھ نجی تعلیمی اداروں کی ایک بڑی تعداد بھی موجود ہے جہاں ایک مزدور بھی اپنے بچے کو تعلیمی میدان میں آگے لے جانے کے لئے نجی تعلیمی اداروں میںداخل کرتا ہے کیوںکہ شہر اور قصبوں میں دیہی آبادی کے مقابلے میں لوگ معاشی طور بہتر حالت میںہوتے ہیں اورایک دوسرے کو دیکھ کر بھی ایک بہتر ماحول کی وجہ سے بہتر سماجی بیداری سے ہر ایک بہتر سے بہتر تعلیم کے نور سے بچوں کو منور کرنے میں کوشاں رہتا ہے جس کی وجہ سے شہروں اور قصبوں میں 95فیصد بچے نجی تعلیمی ادروں جبکہ گائوں دیہات میں 95فیصدبچے سرکاری سکولوں میں زیر تعلیم ہیں۔ اگر سرکاری کی طرف سے بچوںاور اساتذہ کی شرح دیکھی جائے تو یہاں دیہی علاقوں میں سکولی عملے کی موجودگی کے ساتھ ساتھ دیگر سہولیات بہتر انداز میں ہونی چاہئیں تاہم معاملہ اس کے برعکس ہے۔ میدانی علاقوں میں سرکاری تعلیمی اداروں میں بچوں کی تعداد کم اور عملہ یا جگہ زیادہ ہے جبکہ دیہی علاقوں میں آج بھی70سے80بچوں کو پڑھانے کیلئے3یا دو کمرے اور 2استاد ہیں اور کئی مقامات پر ایسے تعلیمی ادارے بھی ہیں جبکہ120بچوں کو بیٹھنے کے لئے 3کمرے اور 6استاد تعینات ہیں ۔جبکہ مختلف قصبو ں میں دیکھا گیا ہے کہ20بچوں کے لئے5کمرے،5یا3استاد موجود ہیں ۔
اگر باریک بینی سے دیکھا جائے تو اس وقت جموںو کشمیر کا شعبہ تعلیم دیہی علاقوں کی مدد سے زندہ ہے تاہم انہی دیہی علاقوں میں عملے اور دیگر سہولیات کی کمی پائی جا رہی ہے جو ان غریب یا معاشی طور کمزرو طبقات کے بچوں کے ساتھ نا انصافی ہے ۔موجودہ دور میں ایک مزدور پیشہ شخص بھی اپنے بچوں کو بہتر تعلیم کے نور سے منور کرنے کے لئے دن رات محنت کرتا ہے ۔تاہم اگر دیہی علاقوں کے تعلیمی اداروں میں عملے کی کمی یا سہولیات کا فقدان رہا ہے تو ان علاقوں میں بھی لوگ زیادہ سے زیادہ نجی تعلیمی اداروں کا رخ کریں گے اور یہاں بھی سرکاری تعلیمی اداروں میں الو بولیں گے اور شہروں کی طرح یہاں بھی سرکار کو غیر ریاستی مزدورں کے بچوں ،چلتے پھرتے خانہ بدوشوں کے بچوں کو فرضی داخلے کرانا ہوں گے۔خدا کرے ایسا نہ ہوں ۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ سرکار اور محکمہ تعلیم تعلیمی شعبے کو بچانے کے لئے دیہی علاقوں میں قائم سرکاری تعلیمی ادروں کو عملی طور پر جدید خطوط پر استوار کرنے کے لئے وقت ضائع کئے بغیر اقدامات کرے کیوںکہ اب سرکاری تعلیمی سیکٹر گائوں دیہات کی وجہ سے زندہ ہے جہاں بچوں کی اچھی خاصی تعداد موجود ہے ۔اس لئے ان تعلیمی ادروں کی کی طرف فوری توجہ کی ضرورت ہے ۔
پتہ۔ ناگہ بل ترال،پلوامہ کشمیر
ای میل۔[email protected]
فون نمبر۔9506302379
(مضمون میں ظاہر کی گئی آراء مضمون نگار کی خالصتاً اپنی ہیں اور انہیں کسی بھی طور کشمیر عظمیٰ سے منسوب نہیں کیاجاناچاہئے۔)