زاہد بشیر
گول// جموںو کشمیر کے دور دراز دیہاتوں میں آجبھی روایتی گھاس کٹائی ’’لیتری‘‘ڈھولوں کے ساتھ آج بھی برقرار ہے ۔موسم خزان کے شروع ہوتے ہی لوگ گھاس کٹائی شروع کرتے ہیں جہاں زیادہ گھاس کی کٹائی ہوتی ہے وہاں پر بیس سے پچاس لوگ ڈھولوں کے ساتھ گھاس کٹائی کرتے ہیں ۔ یہ روایت صدیوں سے چلی آ رہی ہے ۔ کئی بزرگوں کا کہنا ہے کہ ڈھولوں کے ساتھ گھاس کٹائی جو آج بھی روایت بر قرار ہے اس سے نوجوان جوش میں آتے ہیں اور زیادہ گھاس کاٹتے ہیں ۔ زیادہ تر یہ روایت خطہ چناب اور خطہ پیر پنچال میں آج بھی بر قرار ہے ۔ کشمیر عظمیٰ کے ساتھ بات کرتے ہوئے عبدالرشید نے کہا کہ یہ روایت صدیوں سے چلی آ رہی ہے جس میں کافی تعداد میں لوگ گھاس کٹائی کرتے ہیں اور اس دوران ڈھول کا ہونا لازمی ہے کیونکہ ڈھول بجانا نوجوانوں میں جوش پیدا کرتے ہیں اور یہ دوگناکام کرتے ہیں ،ان میں سستی نہیں رہتی ہے ۔انہوں نے کہا کہ اس روایت کو ’’ہم اپنی زبان میں لیتری کہتے ہیں ‘‘۔ اس لیتری میں پچاس تک لوگ جمع ہوتے ہیں اور گھاس کاٹتے ہیں ۔ انہوں نے کہا پہلے زمانے میں لوگ ایک دوسرے کو یا دوستی کے طو رپر مفت میں گھاس کاٹتے تھے اور اسی طرح کی لیتری جاتے تھے جہاں ڈھولوں کا کافی رواج ہوتا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ یہ رواج پونچھ راجوری ، کشتواڑ ، ڈوڈہ ، رام بن اضلاع میں آج بھی بر قرار ہے ۔عبدالرشید نے کہا کہ زمانہ جدید کے ساتھ ساتھ جہاں دیگر روایتی انداز میں جو کام ہوتے تھے وہ معدوم ہو کر رہ گئے ہیں لیکن گھاس کی کٹائی میں آج بھی وہی جوش و جذبہ نظر آ رہا ہے جو پہلے زمانے میں ہوا کرتا تھا ۔عبدالرشید نے کہا کہ پہلے کو لوگ کچے مکان بناتے تھے اُن پر مٹی لادی جاتی تھی جسے میں یہاں اپنی کشمیر زبان میں ’’لآدی‘‘ کہتے ہیں وہاں پر بھی ڈھول بجاتے تھے لیکن اب مکان پکے بننے لگے جس وجہ سے وہ روایت برقرار نہیں رہ سکی ۔ انہوں نے کہا ہے کہ گھاس کٹائی آنے والے وقت میں بھی رہے گی اور امید ہے کہ یہ روایت آئند ہ بھی برقرار رہے گی ۔
دیہاتوں میں روایتی گھاس کٹائی ’’لیتری‘‘ بر قرار موسم خزاں کے ساتھ ہی لوگ ڈھول بجا کر گھاس کٹائی میں مصروف
