ٹیکنالوجی
ویب ڈیسک
امریکی فوج کے مطابق انکشاف ہوا ہے کہ وہ دیوار کے آر پار انسانوں، جانوروں اور اسلحے وغیرہ کو دیکھنے والی قابلِ اعتبار ٹیکنالوجی میں غیرمعمولی دلچسپی لے رہی ہے۔اس وقت امریکی فوج کے ماہرین ایسے وائٹ پیپر وصول کررہی ہے جس میں مختلف اداروں نے اس ٹیکنالوجی پر کام کیا ہو یا منصوبے کو کسی سطح تک پہنچایا گیا ہو۔ اپنے بیان میں کہا ہے کہ فوجیوں کے لیے’ کسی بھی دیوار یا رکاوٹ کے اس پار، دور رہتے ہوئے، کسی سپاہی، انسان، جانور یا شے کو محسوس، شناخت اور اس پر نظر رکھ سکے ۔‘اس کے علاوہ فوج کی خواہش ہے کہ یہ ٹیکنالوجی ہمہ جہت ہو اور سپاہی پوشیدہ کمرے، راستے، اور کونوں کو بھی دیکھ سکے۔ اعلامئے کے مطابق اس ٹیکنالوجی کی تیاری میں فوج کے کئی گروپ شامل ہیں جن میں آرمی اسپیشل آپریشنز فورسز، کومبیٹ کیپبلٹی کمانڈ، نائٹ وژن اینڈ الیکٹرانک سینسر ڈائرکٹوریٹ، اور سی فائیو سرویلنس بطورِ خاص قابلِ بیان ہیں۔اس ٹیکنالوجی کو مجموعی طور پر ’سینس تھرو دی وال (ایس ٹی ٹی ڈبلیو) سسٹم کا نام دیا گیا ہے۔ جس کا ایک اور کام یہ ہوگا کہ کسی عمارت سے کسی گاڑی کو یا پھر کسی جانور کو الگ کرکے شناخت کیا جاسکے۔ اسی طرح ٹیکنالوجی کو اس قابل بھی ہونا چاہیے کہ وہ کسی بھی جگہ کاروں، انسانوں، اشیا اور جانوروں کی درست تعداد کی شناخت میں مدد دے سکےیا اگلے مرحلے میں دوست اور دشمن کی تمیز بھی کرسکے۔ابتدائی کاغذات میں فوج کے تقاضوں میں یہ بھی شامل ہے کہ سارا ڈیٹا ایک ٹیبلٹ میں سادہ انداز میں نشر ہوسکے تاکہ فوری فیصلہ کیا جاسکے۔واضح رہے کہ اس سے قبل صدر ڈونلڈ ٹرمپ امریکی افواج کو جدید بنانے کے لیے 2.2 ٹریلیئن ڈالر کی رقم کا اعلان کرچکے ہیں۔ اس کے تحت امریکی دفاع کو مضبوط بنانے کے لیے عمدہ ترین ملٹری سامان اور جدید ترین راکٹ، میزائل اور طیارے وضع کئے یا خریدے جائیں گے۔دریں اثنا دنیا کا پہلا ایسا اڑن روبوٹ تیار کیا گیا ہے جو اپنے بازو (ونگز) موڑ سکتا ہے جسے’’پیجن بوٹ‘‘ کا نام دیا گیا ہے۔کبوتروں پر تحقیق کرکے بہتر ڈرون اور اڑنے والے روبوٹ بنائے جاسکتے ہیں۔ کبوتر اور دیگر پرندے اپنے بازوؤں کو موڑنے، سکیڑنے اور کھینچنے کے ماہر ہوتے ہیں۔اس طرح وہ ہرطرح کی ہوا اور دباؤ میں بہتر انداز میں پرواز کرسکتے ہیں۔ انہیں دیکھ کر اسی طرح کےڈرون بنائے جاسکتے ہیں جو ہرطرح کی فضائی حالت کو برداشت کرسکیں۔اسے اسٹینفرڈ یونیورسٹی کے ماہرین نے تیار کیا ہے جسے کبوتر بوٹ کا نام دیا گیا ہے جو ہوا کے دباؤے لحاظ سے اپنے بازو عین پرندوں کی طرح کھولتا ، بند کرتا اور موڑتا ہے۔ اس طرح پھرتیلے طیارے اور ڈرون بنانے میں بہت مدد ملے گی۔اسی خاصیت کی بنا پر گنجلک جگہوں اور تنگ جگہ سے یہ ڈرون باآسانی مڑجاتا ہے۔ اگر اسے عمارتوں یا گھنے جنگل میں اڑایا جائے تب بھی یہ کسی سے ٹکرائے بغیر آگے بڑھتا رہتا ہے۔ اگر ہوا ناموافق ہو تب بھی یہ اس عبور کرتے ہوئے آگے بڑھتا رہتا ہے۔اسے بنانا آسان نہ تھا سب سے پہلے ماہرین نے کبوتر کے پروں اور بازو کا بغور مشاہدہ کیا۔ پھر دیکھا کہ کس طرح کبوتر دوران پرواز اپنے بازو موڑتے ہیں اور اس کے بعد روبوٹ کبوتر تیار کیا گیا یہاں تک کہ کبوتر صرف ایک بازو موڑ کر بھی پرواز کے کرتب دکھا سکتے ہیں۔اس کے اگلے مرحلے میں خاص مٹیریل سے پر بنانا ایک دوسرا چیلنج تھا۔ کئی آزمائشی مراحل کے بعد ماہرین نے یہ مشکل بھی حل کردی۔ اس کے لیے روبوٹ کے بازو کو عین کبوتر کے بازو کی طرح ڈیزائن کیا گیا ہے۔