وسیم فاروق وانی
بارش کی بوندیں رات کے خموشی کو ایسے چیر رہیں تھیں جیسے کوئی پرانی کتاب کے صفحے آہستہ آہستہ پلٹ رہا ہو۔ گلی سنسان تھی اور میں تیزگام۔ میرا دل گواہی دے رہا تھاکہ آج کچھ ہونے والا ہے،کچھ ایسا جو مرکے دن اور رات کا حساب بدل دے گا۔
میں اُس پرانی دیوار کے پاس رکا، جس کے سائے میں وہ شخص اکثر کھڑا ہوتا تھا۔ لمبا قد، بھاری اونی چادر میں لپٹا، آنکھوں میں ایسا سکون جیسے وقت اس پر اثر نہ کرتا ہو۔ وہ کبھی کچھ نہ بولتا مگر اس کا ہوناہی میرے لئے جیسے ااطمینان کا باعث ہو— وہ خاموش، مگر مستحکم نظر آتا۔
’’تجھے خبر ہے‘‘، اس نے پہلی بار رات کی گہری خاموشی توڑتے ہوئے کہا، ’’جب وقت آئے گا، میں تیرے سامنے گر جاؤں گا‘‘۔
میں نے ہنستے ہوئے کہا، ’’بڑی باتیں نہ کر۔ تم بھی بس ایک دیوار ہو… اور ہر دیوار ایک دن گر ہی جاتی ہے‘‘۔
اس نے کوئی جواب نہیں دیا۔ بس اپنی نظر آسمان پر جما دی، جیسے وہاں سے کوئی اشارہ آنے والا ہو۔
دن گزر تے گئے۔ میں اپنی زندگی کی بھاگ دوڑ میں کھو گیا، مگر وہ وہیں تھا۔۔۔۔ہر شام، اسی دیوار کے سائے میں۔
پھر ایک دن گلی میں شور ہوا۔ لوگ بھاگ رہے تھے۔ چہروں پر خوف، فضاء میں دھول، اور قدموں کی بھاری چاپ۔
وہ میرے سامنے آیا، جیسے کسی نے صدیوں بعد کسی کہانی کے کردار کو زندہ کر دیا ہو۔
میں نے پوچھا، یہ کیا ہو رہا ہے؟
اس نے مختصر کہا، ’’وقت آ گیا ہے‘‘۔
پہلا پتھر آیا، پھر دوسرا۔ دشمنوں کی آوازیں قریب آ رہی تھیں۔ میں پچھے ہٹنا چاہتا تھا مگر اس نے ہاتھ اٹھا کر مجھے روک دیا۔ ’’یہ جگہ تمہاری ہے، تمہاری سانسیں یہاں کی مقروض ہیں‘‘۔
اگلے ہی لمحے، وہ آگے بڑھا۔ اس کی چادرپر دھول اور خون کے دھبے تھے۔ وہ سب کچھ اپنے اوپر لے رہا تھا:ہر وار، ہر ضرب، ہر چیخ۔
پھر ایک دھماکے کی زوردار آواز آئی، جیسے کہیں بجلی کڑکی ہو۔ دھول اور دھواں چھٹا تو میں نے دیکھا… دیوار ٹوٹ چکی تھی۔ اور وہ شخص… وہ زمین پر تھا۔ اس کے چہرے پر ایک عجیب سی مسکراہٹ تھی، جیسے اس نے وعدہ پورا کر دیا ہو۔
میں نے اس کا ہاتھ پکڑنے کی کوشش کی، مگر وہ اب بس ایک خاموش پتھر تھا… اور میں، پہلی بار سمجھ پایا کہ وہ شخص محض ایک سایہ نہیں تھا۔ وہی میری دیوار تھا—جو میرے لئے گر گئی۔
���
سرینگر کشمیر،موبائل نمبر؛7006041789
[email protected]