سید اسامہ ہدوی
اسلام سے پہلے دنیا نے جتنی بھی ترقی کی ہے، اس میں مرد کا حصہ عورت سے زیادہ رہا۔ کیونکہ اس دورِ جہالت (DARK AGES) میں عورت کو کوئی مقام حاصل نہ تھا، لیکن اسلام کی تشریف آوری سے عورت کو بیٹی، بیوی اور بہن کے روپ میں عزت اور اعلیٰ مقام حاصل ہوا اور وسائل ترقی میں دونوں صنفوں کی کوششوں کو شامل کیا۔ اسلام نے جو عزت اور مقام عورت کو عطا کیا ہے اُس کی مثال نہ تو قومی تاریخ میں ملتی ہے اور نہ ہی دنیا کی مذہبی تاریخ میں۔ اسلام نے صرف عورت کے حقوق ہی نہیں مقرر کئے بلکہ ان کو مردوں کے برابر درجہ دے کر مکمل انسانیت قرار دیا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ عورت ماں، بہن، بیوی اور بیٹی ہر روپ میں قدرت کا قیمتی تحفہ ہے ،جس کے بغیر کائناتِ انسانی کی ہرشے پھیکی اور ماند ہے۔ اللہ تعالیٰ نے مرد کو اس کا محافظ اور سائبان بنایا ہے۔ عورت اپنی ذات میں ایک تناور درخت کی مانند ہے جو ہر قسم کے سرد و گرم حالات کا دلیری سے مقابلہ کرتی ہے۔ ا سی عزم وہمت، حوصلہ اور استقامت کی بنیاد پر اللہ نے جنت کو اس کے قدموں تلے بچھا دیا۔ حضرت حواؑ سے اسلام کے ظہور تک کئی نامور خواتین کا ذکر قرآن و حدیث اور تاریخ اسلامی میں موجود ہے جن میں حضرت ابراہیمؑ کی ازواج حضرت سارہؑ، حضرت ہاجرہؑ، فرعون کی بیوی آسیہ، حضرت ام موسیٰ یوحانز، حضرت مریم، حضرت خدیجۃ الکبریؓ، حضرت عائشہ صدیقہؓ، حضرت ام سلمہؓ، سیدہ کائنات حضرت فاطمہؓ، حضرت سمیہؓ اور دیگر کئی خواتین ہیں جن کے کارناموں سے تاریخ کے اوراق بھرے پڑے ہیں۔
تاریخ اسلام خواتین کی قربانیوں اور خدمات کا ذکر کئے بغیر نا مکمل رہتی ہے۔ اسلام کی دعوت وتبلیغ میں مردوں کے ساتھ عورتوں نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔
اسلام کی ابتدائی تاریخ میں مسلم خواتین کا جو کردار رہا ،وہ آج ساری دنیا کی خواتین کے لئے ایک واضح سبق بھی ہے۔
اسلام کو سب سے پہلے قبول کرنے کی سعادت حاصل کرنیوالی، حضرت خدیجہؓ کی ذات گرامی ہے۔انہوں نے اپنی پوری زندگی جان و مال سب کچھ دین اسلام کے لئے وقف کر دیا۔3 سال شعب ابی طالب میں محصور رہ کر تکالیف اور مصائب برداشت کئے جس کے باعث آپؓ اس قدر بیمار اور کمزور ہو گئیں کہ اسی بیماری کے عالم میں خالق حقیقی سے جا ملیں۔ رسول اللہؐ کی ازواج میں ایک ایسی خاتون بھی ہیں جن کو یہ شرف حاصل ہے کہ ان سے صحابیات تو درکنار صحابہ کرام نے بھی علم حدیث حاصل کیا۔ وہ خوش نصیب حضرت عائشہؓ ہیں۔ خاتونِ جنت، سرور کائنات کی بیٹی حضرت فاطمہؓ کی زندگی بھی بے مثال ہے۔ آپؓ ایک عظیم اور ہمہ گیر کردار کی مالکہ تھیں جو ایک بیٹی کے روپ میں، ایک ماں کی شکل میں اور ایک بیوی کے کردار میں قیامت تک آنے والی خواتین کیلئے نمونہ حیا ت ہیں، جنہوں نے اپنے عظیم باپ ؐ کی محبت کا حق ادا کرتے ہوئے بچپن میں سرداران قریش کے ظلم و ستم کا بڑی جرأت مندی، شجاعت، ہمت اور متانت سے سامنا کیا۔پیغمبر اسلامؐ کی پھوپھی حضرت صفیہ نہایت بہادر اور نڈر خاتون تھیں۔ آپ دوران جنگ بے خوف وخطر زخمیوں کو میدان جنگ سے باہر لاتیں اور ان کی مرہم پٹی کرتی تھیں۔ انہوں نے غزوہ خندق کے موقع پر نہایت بہادری کا مظاہرہ کرتے ہوئے جب دوران جنگ ایک یہودی مسلمان خواتین پر حملہ آور ہوا تو آپؓ نے اس پر زوردار وار کیا جس سے اس کا کام تمام ہو گیا۔حضرت ام عمارہؓ مشہور صحابیہ تھیں۔ انہوں نے غزوہ احد میں جبکہ کفار مکہ نے یہ افواہ پھیلا دی کہ نعوذ باللہ حضور اکرم ؐ شہید ہو گئے ہیں، ایسی انتہائی نازک حالت میں نبی کریم ؐ کا دفاع کیا اور شمشیر زنی کا ناقابل فراموش مظاہرہ کیا۔ان پاکیزہ خواتین کے تذکرے کا مقصد صرف اور صرف یہ ہے کہ آج کی خواتین اِن عظیم ہستیوں کی زندگی کو اپنا آئیڈیل بنائیں، اپنے اندر خود اعتمادی پیدا کریں، دین کی اشاعت اور ملکی ترقی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں۔
[email protected]>