آج دنیا بھر میں علم،سائنس، ٹیکنالوجی ،ایجادات اور انکشافات کی بھرمارہورہی ہے اور لوگوں کو درس وتدریس کی اہمیت سمجھنے کی جانب بلایاجاتاہے مگر اسلام نے آج سے چودہ سو اڑھتیس سال پہلے علم اور خواندگی کی اہمیت اور افادیت کو اُجاگر کیاجب حق تعالیٰ نے قرآن کریم میں سورئہ علق کی پہلی پانچ آیات مبارکہ کو لفظ ’’اِقرأ ‘‘سے نازل فرمایا۔ اس طرح پہلی وحی کے نزول اس سے یہ ظاہر ہوا کہ اللہ کی دی ہوئی نعمتوں میں سب سے بڑا عطیہ علم ہے ۔اللہ کے رسولﷺ کا ارشاد ہے کہ ’’علم ہر مسلمان مرد اور عورت پر فرض ہے‘‘۔ حضرت علی کرم اللہ تعالیٰ وجہہ جن کے متعلق رسول کریمؐ کا ارشاد گرامی ہے ’’میں (محمدؐ) علم کا شہر ہوں اور حضرت علیؓ اس علم کے شہر کا دروازہ ہے‘‘۔ یوں فرماتے ہیں کہ جن سے میں نے صرف ایک لفظ سیکھا اُن کا مجھ پر حق ہے کہ چاہیے غلام بناکر کر رکھے یا آزاد کریں، یعنی معلم کا مجھ پر یہ احسان ہے جن سے میں نے ایک لفظ سیکھا، اب میں ان کا یہ احسان کبھی نہیں چکا سکوں گا۔ نبی کریمؐ کا ارشاد مبارک ہے کہ ’’لوگو! علم کے واپس لیے جانے اور اُٹھا لیے جانے سے پہلے علم حاصل کرلو‘‘۔ (مسند احمد ۵؍۲۶۶) حضرت جابرؓ سے روایت ہے کہ نبی کریمؐ نے ارشاد فرمایا: ’’علم دو طرح کا ہوتا ہے۔ ایک وہ علم ہے جو دل میں اُتر جائے وہی علم نافع ہے اور دوسرا وہ علم ہے جو صرف زبان پر ہو یعنی عمل اور اخلاص سے خالی ہو تو وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے انسان کے خلاف اس کے مجرم ہونے کی دلیل ہے یعنی یہ علم الزام دے گا کہ جاننے کے باوجود عمل کیوںنہیں کیا‘‘۔ (الترغیب: ۱؍۱۵۳)۔حضرت علامہ ابوعبید قاسم بن سلام ایک بڑے پایہ کے محدث و اعلیٰ مصنف تھے۔ ایک بار امیر وقت طاہر بن عبید اللہ نے حضرت علامہ ابوعبید سے سماع حدیث کی درخواست کی اور خواہش ظاہر کی کہ میرے قیام گاہ پر ہی آکر سنائیں، حضرت علامہ ابوعبید نے یہ منظور نہیں کیا اور کہا کہ تم خود میرے پاس آکر سن سکتے ہو لیکن جب علی بن مدینیؒ اور بعض بزرگ تشریف لائے تو حضرت علامہ ابوعبید نے اپنی کتابوں کو ہمراہ لے کر خود ان بزرگوں کے قیام گاہ پر جاکر سنادیا۔ (صفۃ الصفوۃ ج۴ ص۱۰۶) جلیل القدر محدث حضرت سیفان بن عینیدؒ فرماتے ہیں کہ جو لوگ اللہ اور انسان کے درمیان سفارت کا کام کریں وہ سب سے بڑے مرتبہ کے لوگ ہیں اور یہ انبیاء و علماء ہیں۔ (صفۃ الصفوۃ ج۲ ص۱۳۱)۔
تاریخ میں آیا ہے کہ حجاج بن یوسف کسی وجہ سے وقت کے عالم ابراہیم نخعی پر خفا ہوا اور ان کے نام گرفتاری وارنٹ جاری کردی۔ ابراہیم نخعی کو کسی طرح خبر ہوگئی اور روپوش ہوگئے۔ حجاج کے سپاہیوں نے ابراہیم تیمی کو گرفتار کرکے واسطہ کے جیل خانہ میں قید کردیا۔ ابراہیم تیمی نے ابراہیم نخعی کو بچانے کے لیے خاموشی کی اور اس بات کو سینہ میں دبائے رہ گئے کہ جیل خانہ میں ان کا انتقال ہوگیا۔ حجاج نے واسطہ میں رہ کر خواب دیکھا کہ کہنے والا کہہ رہا ہے کہ آج واسطہ میں ایک بہشتی آدمی کا انتقال ہوگیا۔ جب صبح اس کو معلوم ہوا کہ جیل میں ابراہیم نامی قیدی کا انتقال ہوگیا ہے تو حجاج جھنجھلاکر بولا کہ یہ شیطانی خواب تھا مگر حق یہ ہے کہ ابراہیم تیمی نے ایک صاحب علم و فضل کو بچانے کے لیے اپنے اوپر تمام مصیبتیں عائد کرلیں اور زبان سے اُف تک نہ کیا۔ آج ایسی وفاداری کی مثالیں بہت کم ملتی ہیں ؎
حق یہ ہے عالموں کا اہل جہاں پر
قدر ان کی جانو قبل بھٹک جانے پر
معاذ بن جبلؓ فرماتے ہیں ’علم کو سیکھوں اس لیے کہ اللہ کے لیے علم کا حصول خشیت ہے ،اس کی طلب عبادت ہے اس پر مذاکرہ کرنا تسبیح ہے، اس میں تحقیق و محنت جہاد ہے ناواقف لوگوں کو تعلیم دینا صدقہ ہے۔ مستحق لوگوں پر اسے خرچ کرنا قربت خداوندی کا باعث ہے۔ علم جہالت کی مرد ہ دلوں کو زندہ کرتا ہے۔ علم سے مقام ملتا ہے، علم کی راہ میں غور و فکر روزوں کے برابر ہے۔ یہ عمل کا امام اور اس کا مطاع ہے، خوش بخت ہمکنار اور بدبخت اس سے محروم رہ جاتے ہیں‘‘۔ حضرت زید بن ثابتؓ جو اللہ کے رسولﷺ کا کاتب تھے ،فرماتے کہ ’’مجھے اللہ کے رسولﷺ نے سریانی زبان سیکھنے کا حکم دیا اور میں نے آپﷺ کے حکم کے پیش نظر سریانی زبان میں یہودیوں سے خط و کتابت کرنا سیکھا‘‘۔ (بخاری) اللہ کے رسولﷺ نے فرمایا ’عالم و متعلم دونوں خیر میں شریک ہیں اور بقیہ لوگوں میں خیر کا کوئی پہلو نہیں ہے‘‘۔ (ابن ماجہ) ’’جو شخص علم کی طلب میں نکلا تو وہ اللہ کے راستہ میں ہے جب تک لوٹ نہ آئے‘‘۔ (ترمذی) اللہ کے رسولﷺ نے فرمایا ’’قیامت کے دن اللہ عزوجل علماء سے کہے گا کہ میں نے تمہارے اندر اپنا علم و حلم اس لیے رکھا تھا کہ میں تمہاری خطائوں کی مغفرت چاہتا تھا اور اس کے علاوہ مجھے کسی چیز کی پرواہ نہیں ہے‘‘۔ (طبرانی)۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ تین آدمی ہیں جن کی بے ادبی و بے توقیری صرف منافق ہی کرسکتا ہے۔ ایک بوڑھا مسلمان، دوسرا عالم اور تیسرا عادل بادشاہ۔ (الطبرانی از زواجر)۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا وہ شخص ہم میں سے نہیں جو ہمارے بڑوں کی تعظیم نہ کرے، ہمارے بچوں پر ر حم ۱ور ہمارے عالموں کی قدر نہ کرے (از زواجر)۔
حضرت مصعیب بن عمیر ؓ کو رسول اللہﷺ نے بہترین کردار، اچھے عادات اور علمی ذہنیت کی بنیاد پر اسلام کا پہلا سفیر مدینہ کے لیے مقرر کیا گیا اور حضر ت معاذ بن جبلؓ کو اسی طرح یمن کا تعلیمی انسپکٹر مقرر کیا گیا۔ خلفائے راشدین نے بالعموم اور حضرت عمرفاروقؓ نے بالخصوص مشاورت کو بہت زیادہ اہمیت دی۔ آپؓ نے شوریٰ کے اجتماع سے ایک بار خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ ’میں ہرگز یہ نہیں چاہتا کہ آپ میری خواہش کی پیروی کریں۔ آپ میں سے جس کا جی چاہے مجھ سے اتفاق کرے اور جس کا جی چاہے مجھ سے اختلاف کرے‘۔ یہ آپؓ کے عظمت کردار کی دلیل تھی کہ آپؓ اپنی کم علمی کا اعتراف فرماتے اور مشورہ دینے والے کی حوصلہ افزائی کرتے۔ مشہور صحابی حضرت عبداللہ بن مسعودؓ نے ایک سے زیادہ دفعہ اپنی تقریروں میں فرمایا کہ ہم تمام صحابہؓ نے اتفاق کرلیا اور ہم نے جو ہم سب میں بہتر اور افضل تھا اور اس کو فوقیت تھی اس کے تلاش کرنے میں کمی نہیں کی۔ پھر ہم نے ساری تلاش کرنے کے بعد حضرت عثمان بن عفانؓ کے ہاتھ پر بیعت کی اور اُنہیں خلیفہ مقرر کیا۔ رسول اللہﷺ کے جلیل القدر صحابی حضرت عبداللہ بن مسعودؓ فطری طور پر قانون کی طرف گہرا میلان رکھتے تھے اور قرآن و سنت سے قانونی نکتہ آفرینی اور استدلال کا انہیں خاص ملکہ حاصل تھا۔ ان کی اسی خصوصیت کی وجہ سے امیر المومنین حضرت عمرؓ نے انہیں اہل کوفہ کی تعلیم و تربیت کے لیے کوفہ بھیجا تھا جہاں آپؓ نے مدرسہ فقہ قائم فرمایا۔
واسطہ شہر کے گورنر ابن ہبیرہ جو بنو امیہ میں تھا نے تمام علماء و فقہاء کا تعاون حاصل کرکے امام اعظم امام ابوحنیفہؒ کو گورنر کے بعد دوسرا درجہ دینے کی پیشکش کی مگر آپؒ نے جواب میں فرمایا: یہ ملازمت تو بڑی بات ہے اگر یہ شخص مجھ سے چاہے کہ واسطہ شہر کی مسجد کے دروازے گن دوں تو میں یہ بھی نہیں کروں گا، میں اس کی یہ خواہش کیسے پوی کرسکتا ہوں کہ وہ کسی کی گردن مارنے کا حکم دے اور میں اس پر مہر لگادوں۔ ‘ ابن ہبیرہ نے آپؒ کو قیدخانے میں ڈال کر کوڑے مارنے کا حکم دے دیاتو آپؒ نے فرمایا ’بغداد میں کوئی عہدہ قبول نہیں کروں گا، موت ایک ہی بار آنی ہے۔ دنیا میں کوڑوں کا مار سہہ لینا روز حشر کے آہنی گرزوں کی مار سہنے سے بدرجہا آسان ہے۔ اس کے بعد عباسی خلیفہ ابوجعفر المنصور نے آپؒ کو آخری حد تک قاضی القضاء کا عہدہ قبول کرنے کے لیے مجبور کیا مگر آپؒ نے وہ بھی ٹھکرادیا۔ امام ابوحنیفہؒ کوفہ کی جامع مسجد میں اپنے چالیس اجتہادی مرتبہ کے شاگردوں سے خطاب کرتے ہوئے فرماتے ’کہ میں آپ کو اللہ کا واسطہ دے کر اور جس علم کے آپ حاملین ہیں، اس کی عظمت و جلالت کا احساس دلاتے ہوئے یہ کہتا ہوں کہ اس علم کو محکومی کی ذلت سے بچائے رکھنا، تم میں سے اگر کوئی قضا کا عہدہ قبول کرنے پر مجبور ہوا تو یاد رکھیں کہ اپنے فیصلوں میں اگر کسی کمزور کا ارتکاب کریں گے، خواہ وہ خلق خدا کی نگاہوں سے پوشیدہ ہو، ایسے قاضی کا فیصلہ جائز نہیں ہوگا، نہ اس کی ملازمت حلال ہوگی اور نہ اس کی تنخواہ پاک قرار پائے گی۔
اورنگ زیب عالمگیرؒ نے شیخ نظام الدین برہانپوریؒ کی سربراہی میں ہندوستان بھر کے چیدہ چیدہ جید علماء کی کمیٹی تشکیل دی، جن میں مورخین نے ۲۷ علماء کے حالات زندگی کو جمع کیاہے اور فتاویٰ عالمگیری کا منصوبہ انجام دے دیا۔، انگریز حکمرانوں کے دور میں شاہ عبدالعزیز محدث دہلویؒ نے مختلف اوقات و حالات میں اٹھائے گئے سوالات کے تحریری جواب یعنی کتابی شکل میں دے دئے۔ یہ مجموعہ فتاویٰ عزیزی کے عنوان سے شائع ہوا۔ اسی طرح مولانا رشید احمد گنگوہیؒ اور مولانا قاسم ناناتویؒ نے اپنی علمی صلاحیتوں کی بدولت ہی دارلعلوم دیوبند جیسا مدرسہ قائم کیا جو کہ برصغیر ہند میں ہی نہیں بلکہ پوری دنیا میں اپنا ایک خاص مقام کا حامل ہے۔ آٹھویں صدی ہجری کے فقیہ شیخ عمر بن اسحاق غزنوی جو شیخ سراج الدین ہندی کے نام سے مشہور ہیں، ایک عرصہ تک مصر میں قاضی القضاء ابن الترکمانی کے نائب کی حیثیت سے اپنی قابلیت و صلاحیت کی بنیاد پر قاضی کے فرائض انجام دیتے رہے۔ امام ابو یوسفؒ جو امام ابوحنیفہؒ کی مجلس فقہ کے سیکرٹری اور تاریخ اسلام کے پہلے قاضی القضاء تھے اور فقہ و حدیث میں بہت ممتاز مقام رکھتے تھے۔ ان کا بیان ہے کہ ’’میں نے ابو حنیفہؒ سے بڑھ کر تفسیر الحدیث کا کوئی عالم نہیں دیکھا‘‘۔ قاسم بن معین بن عبدالرحمٰن بن عبداللہؒ رسول اللہؐ کے مشہور صحابی حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کے پڑپوتے تھے۔ وہ اسالیب عرب اور فقہ کے اس قدر ماہر تھے کہ ان سے کسی نے کہا، ’آپ عربی زبان و ادب کے امام اور فقہ کے بھی امام ہیں۔ ان دونوں میں آپ کا علم کس میں وسیع تر ہے، تو آپؒ نے فرمایا: ’خدا کی قسم، ابوحنیفہؒ کی کتابوں میں سے ایک کتاب ہی ساری عربی زبان سے بڑھ کر ہے‘۔ آپؒ کوفہ کے قاضی بھی رہے مگر معاوضہ نہیں لیتے تھے ۔
مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ ’’میری محسن کتاب‘‘ کے زیر عنوان ایک شذرے میں لکھا ہیں ’قدیم و جدید فلسفہ، سائنس، معاشیات، سیاسیات وغیرہ پر اچھی خاصی ایک لائبریری دماغ میں اُتار چکا… مگر جب آنکھ کھول کر قرآن کو پڑھا تو بخدا یوں محسوس ہوا کہ جو کچھ پڑھا تھا، سب ہیچ تھا۔ علم کی جڑ اب ہاتھ آئی ہے اور دنیا کے تمام بڑے بڑے مفکرین اب مجھے بچے نظر آتے ہیں۔ بے چاروں پر ترس آتا ہے کہ ساری عمر جن گتھیوں کو سلجانے میں الجھتے رہے ان کو اس کتاب نے ایک ایک دو دو فقروں میں حل کرکے رکھ دیا ہے۔ میری اصل محسن بھی یہی کتاب ہے سو میرے لیے یہ قرآن شاہ کلید ہے۔ مسائل حیات کے جس قفل پر لگاتا ہوں کھل جاتا ہے‘‘۔
حافظ صلاح الدین یوسف حفظ اللہ اپنی کتاب ’حقوق العباد‘ میں مولانا ابوالکلام آزاد کا ایک واقعہ قلمبند کرکے یوں لکھتے ہیں کہ ایک بار مولانا آزاد دوپہر کے خوب والے لباس میں برآمد ہوئے اور مولانا ابوالوفاء شاہجہاں پوری کو اپنی دو منزلہ کمرہ میں لے گئے اور انہوں نے یہ قصہ سنایا کہ ابھی ابھی مجھ سے گاندھی جی ملنے آئے تھے تو میں نے اُن کو واپس کردیا کیونکہ ہمارے اور گاندھی جی کے درمیان ملاقات کا جو وقت مقرر تھا اس کے خلاف گاندھی جی چار منٹ دیر کرکے آئے۔ میں نے اُن کو جواب دیا کہ اب میرے پاس وقت نہیں ہے، پھر کہا کہ مولانا ابوالوفاء شاہجہاں صاحب دنیا کے کسی رئیس یا صدر کو کوئی جگہ نہیں دیتا لیکن اہلِ علم کا تو میں خادم ہوں۔اس واقعہ کو اس شعر سے بہت خوب سمجھا جائے گا ؎
فرش پہ علماء کا تو تعظیم و تکریم کر
عرش پہ اللہ کی رحم و کرم تو حاصل کر
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں زیادہ سے زیادہ علم حاصل کرنے کی اور علماء ے حق کی عزت وتکریم کرنے کی توفیق بخشے۔ آمین
9858109109