دینی و عصری، معیاری تعلیمی اداروں کا قیام وقت کی اہم ترین ضرورت

ڈاکٹر عبید الرحمن ندوی

علم اور حکمت ہی کی وجہ سے انسان اشرف المخلوقات بنا، علم اور حکمت کے بغیر انسانی شخصیت بےمعنی ہوتی ہے، بلا شبہ یہ دونوں وہ عظیم جوہر ہیں جو انسان کو انسان بناتے ہیں۔
دراصل انسان کائنات کی مجموعی مشین کا ایک ذرہ ہے،اس دنیا کو قسام ازل نے بازیچۂ اطفال نہیں بنایا بلکہ ایک خاص نظام حکمت کے ساتھ دنیا کو پیدا کیا ہے، چنانچہ رب کریم کی مرضی یہ ہوتی ہے کہ اس کائنات کے اندر جو کچھ بھی ہو اسی کے نظام کے تحت ہو، چنانچہ کائنات کو پیدا کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے حضرت آدمؑ کو پیدا کیا اور ان کو سب سے پہلے اشیاء کے نام سکھائے ،جس کا تذکرہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کے سورۃ البقرہ آیات نمبر ۳۱ تا ۳۳ میں کیا ہے۔
ارشاد خدا وندی ہے:’’ اور آدم کو اللہ تعالیٰ نے سارے کے سارےنام سکھا دیئے،ان کو فرشتوں کے سامنے پیش کیا اور ان سے کہا اگر تم سچےہو تو مجھے ان چیزوں کے نام بتلاؤ۔‘‘ ( البقرہ۔۳۱)’’وہ بول اٹھے آپ ہی کی ذات پاک ہے، جو کچھ علم آپ نے ہم کو دیا ہے، اس کے سوا ہم کچھ نہیں جانتےہیں، حقیقت میں علم وحکمت کے مالک تو صرف آپ ہی ہیں۔‘‘( البقرہ: 32)’’ اللہ نے آدمؑ سے کہا کہ تم ان کو ان چیزوں کے نام بتا دو۔‘‘چنانچہ جب انہوں نے ان کے نام بتا دیئے تو اللہ تعالیٰ نے فرشتوں سے کہا:’’ کیا میں نے تم سے نہیں کہا تھا کہ میں آسمانوں اور زمین کے بھید جانتا ہوں؟ اور جو کچھ تم ظاہر کرتے ہو اور جو کچھ چھپاتے ہو مجھے اس کا علم ہے۔‘‘(البقرہ۔ : ۳۳)
مذکورہ بالا تینوںآیتوںسے علم کی غیر معمولی فضیلت ثابت ہوتی ہے، نیز انسان کو علم ہی کی بنیادپر فرشتوں پر فوقیت حاصل ہےاوریہ بھی پتہ چلتاہے کہ سب سے پہلا معلم(Teacher ) الله ہے اور سب سے پہلا طالب علم(Student) آدم علیہ السلام، گو یا یہ آسمانی دنیا پر سب سے پہلا درس تھا، جو اسماء یعنی (Nouns) پر مشتمل تھا۔ اس لئے کہ دنیا میں تمام چیزیں اسماء ہیں اور تا قیامت جتنی چیزیں آنے والی ہیں وہ تمام اسماء ہی ہوں گی، آج بھی ہم الگ الگ موضوعات پر درس دیتے ہیں۔کوئی تفسیر ،کوئی حدیث،کوئی فقہ کوئی سائنس، کوئی ریاضی، کوئی انگریزی ، کوئی جغرافیہ وغیرہ وغیرہ ۔
اللّٰہ تعالیٰ نے سب سے آخر میں محمد صلی الله علیہ و سلم کو لوگوں کے لیےتا قیامت (رحمت للعالمین) بنا کر مبعوث فرمایا اور آپؐ پر جو سب سے پہلی وحی بذریعہ جبرئیلؑ نازل ہوئی اس کا بھی تعلق علم سے ہے۔ارشاد خداوندی ہے،’’ اپنے رب کے نام سے پڑھو۔‘‘
اگر ہم غور سے دیکھیں تو پہلا حکم جو حضرت محمدؐکو ملا کہ تم پڑھو تو دراصل پڑھانے والا بالواسطہ اللہ ہی ہے اور طالب علم محمدؐ ہیں، چنانچہ یہ بتانے میں کوئی حرج نہیں ہے کہ ہم کو جو علوم و فنون حاصل ہوئے ہیں اس کا بھی تعلق آسمانی دنیا سے ہےاور یہ دنیا جس میں ہم زندگی گزر رہے ہیں، اسکو جنت نما بنانے میں علم اور حکمت درکار ہے، یہی وجہ ہے کہ الله تعالیٰ نے آدم ؑ سے لیکر محمدؐ تک جو پہلا درس دیا وہ علم اور حکمت پر مشتمل تھا۔
اسلام میں جہاں تک علم اور حکمت کی اہمیت اور اس کو حاصل کرنے کی فضیلت کا سوال ہے تو اس کا اندازہ ہم یوں لگا سکتے کہ پورے قرآن میں علم اور اسکے مشتقات 82 سورتوں میں اور645آیات میں763 مرتبہ یعنی علم 112 اور اس سے ماخوذ الفاظ 651 مرتبہ آئے ہیں۔ اسی طرح لفظ حکمت قرآن میں49 سورتوں میں124 آیات میں اور 126 مرتبہ مختلف معنی میں آیا ہے۔ اس کے علاوہ تقریباً ہر حدیث کی کتاب میں’’کتاب العلم ‘‘ کے نام سے الگ الگ باب موجود ہیں ۔
اس حقیقت کے باوجود آج ہم دنیا کے دیگر قوموں کے مقابلہ میں تعلیم کے میدان میں پیچھے نظر آرہے ہیں جو کہ مقام افسوس بھی ہے اور مقام ندامت بھی۔
اس سلسلے میں یہ بات عرض کرتا چلوں کہ جب سے ہم نے علم کو دو خانوں میں تقسیم کیا یعنی دینی علم اور دنیاوی علم تب سے تعلیم کے میدان میں غیر معمولی تنزلی اور انحطاط آیا ہے ، اگر ہم واقعی اپنے شاندار ماضی کی طرف لوٹنا چاہتے ہیں تو ہمیں اس دوری اور اس کھائی کو پاٹنا ہوگا۔ اسلام نے کبھی علم کو دو خانوں یعنی دینی اور دُنیاوی تعلیم میں تقسیم نہیں کیا ہے۔
آج مقام افسوس یہ ہے کہ مسلمانوں میں ایک بڑی تعداد ایسے لوگوں کی ہے جو یہ سمجھتے ہیں عصری علوم حاصل کرنا بے کار ہے کیونکہ آخرت میں کام نہیں آئے گا ،اس طرح کی سوچ بالکل غلط ہے۔اسلام میں تعلیم حاصل کرنے کی طرف زور دیا گیا ہے ، اس میں دینی اور دنیاوی کا کوئی مسئلہ نہیں ہے۔قابل ذکر بات یہ ہے کہ ہمارے بعض علماء بھی اس غلط فہمی میں مبتلا ہیں اور عصری تعلیم حاصل کرنے والوں کو وہ اہمیت نہیں دیتے ہیں جو ان کو ملنی چاہئے۔یہ بھی کم علمی اور جہالت کی دلیل ہے۔
آج اگر کوئی عالم اپنے بیٹے یا بیٹی کو ڈاکٹر یا انجینئر بناتا ہے تو لوگ ان پر جملے کستے ہیں، بعض تو مارے شرم کے اپنی اولاد کو عصری تعلیم سے دور رکھ رہے ہیں، یہ سوچ کر کہ سماج میں ان کا مقام و مرتبہ گر جائے گا اور لوگ یہ کہیں گے کہ مولانا صاحب بھی دنیادار بن گئے ہیں۔ اس طرح کی سوچ بھی اسلامی روح اور مزاج کے بالکل خلاف ہے۔
آج اگر واقعی ہم اپنے پیروں پر کھڑے ہونا چاہتے ہیں اور دنیا کی دوسری قوموں کے برابر اور انکی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں دینی اور دنیاوی تعلیم کے فرق کو ختم کرنا پڑے گا۔
آج ایسے اسکولوں کی سخت ضرورت ہے جہاں دینی اور دنیاوی دونوں طرح کی تعلیم کا خاص نظم ہواور جہاں اعلی اور معیاری تعلیم کا بہترین نظم و نسق ہو ۔
قابل ذکر بات یہ ہے کہ مسلمان وہ قوم ہے جو اپنا ایک شاندار ماضی رکھتی ہے، انہیں اپنے ماضی سے فائدہ اٹھانا چاہئے۔ اسلامی دور حکومت میں کبھی تعلیم کو دو خانوں میں تقسیم نہیں کیا گیا۔ اس وقت مدارس سے علماء بھی نکلتے تھے اور اطباء بھی سائنسداں بھی اور انجینئرس بھی، یہاں تک کہ مغل دور میں بھی یہی نظام رہا۔اس حقیقت کو سمجھنا بالکل آسان ہے کہ تاج محل،قطب مینار ، دہلی جامع مسجد اور لال قلعہ کو بنانے والے کسی یونیورسٹی کے انجینئرس نہیں تھے بلکہ وہ مدارس کے فارغ تھے۔یہ تو انگریزوں کی نحوست تھی کہ ان لوگوں نے تعلیم کو دو خانوں میں تقسیم کردیا اور عصری اور دینی اسکولوں کی داغ بیل ڈا لی۔
یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ آج بڑی تعداد میں مسلم نوجوان بچے اور بچیاں مرتد ہو رہے ہیں۔ اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ انہیں بچپن ہی سے غیر اسلامی ماحول ملا اور انکی تعلیم و تربیت اسی خاص ماحول میں ہوئی،جس کے نتیجےمیں آج ہمارا ایمان خطرے میں ہے،دین خطرے میں ہے اور ہمارا تشخص Identity خطرے میں ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ مدارس دین کے قلعے ہیں لیکن بمشکل چار سے پانچ فیصد مسلم بچے ان مدارس میں پڑھتے ہیں، بقیہ مسلم بچے اسکولوں،کالجوں اور یونیورسٹیوں میں زیر تعلیم ہیں۔ان کے مستقبل کی فکر کرنا ہمارے لیے اشد ضروری ہے، ان اداروں میں جو نصاب پڑھائے جاتے ہیں اور ان کی جس طرح وہاں تعلیم و تربیت ہوتی ہے ،اس سے ان کے عقیدے کا صحیح رہنا محال نظر آتا ہے۔اگر ہم واقعی اس ارتداد کی لہر کو روکنا چاہتے ہیں تو ہمیں دینی، تعلیمی، عصری معیاری ادارے قائم کرنے ہوں گے۔
الغرض آج وقت کی ضرورت یہ ہے کہ ہم اپنی نئی نسل کی صحیح اور معیاری تعلیم اور اس سے بڑھ کر ان کے ایمان و عقیدے کی خاطر سنجیدگی سے سوچیں اور گاؤں گاؤں اور قریہ قریہ دینی، تعلیمی، عصری، معیاری ادارے قائم کریں تاکہ ہماری نوجوان نسل دونوں جہاں میں کامیابی و کامرانی حاصل کر سکے ۔
[email protected]