افتخاراحمدقادری
مدارسِ اسلامیہ دینی تعلیم کے مراکز ہیں۔ دور حاضر میں مدارسِ اسلامیہ کے بارے میں جو غلط فہمیاں پیدا کی گئیں ہیں، وہ اصل میں خود مدارس کی اپنی غلطیوں کا نتیجہ ہیں۔ اس کمی کا ایک سبب یہ ہے کہ مدارسِ اسلامیہ کے لوگ اپنی روایات کے تحت بند ماحول میں رہتے ہیں، وہ خارجی دنیا سے اختلاط نہیں کرتے، اس بنا پر ان کا حال یہ ہوگیا ہے کہ نہ وہ آج کی دنیا کوپوری طرح جانتے ہیں اور نہ جدید حالات کے مطابق اپنے ذہن کو تیار کرتے ہیں۔ اس طریقۂ کار کی بنا پر ان کو شک کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ اس مسئلہ کا حقیقی حل صرف یہ ہے کہ مدارس کے ماحول کو بدلا جائے اور قدیم کے ساتھ جدید کو شامل کرنے کی کوشش کی جائے۔ مدارسِ اسلامیہ کو یا امت مسلمہ کو دور حاضر میں جو مسائل درپیش ہیں ان کی جڑیں بہت گہری ہیں۔
مدارسِ اسلامیہ کی ایک کوشش یہ ہونی چاہیے کہ تعلیم و تربیت کا بہتر سے بہتر انتظام ہو اور دوسری جانب برادرانِ وطن کے لیے دروازے کھلے ہوں جو غلط متعصبانہ ذہن نہیں رکھتے اور اپنی معلومات کے نتائج سے ہمدردانہ انداز میں صحیح طور پر ان لوگوں کو آگاہ کریں جو تعصب اور بددیانتی کی بناء پر فرقہ وارنہ فضا کو خراب کرنے کا باعث بنتے ہیں۔ مدراس اسلامیہ کے ذمہ داران کو اپنے پیغام و عمل اور جد وجہد پر پختہ یقین ہونا چاہیے اور اس کی پختگی کے لیے مزید کوشش جاری رکھنی چاہیے، مدارسِ اسلامیہ کے دروازوں کو دوسروں کے لیے کھول دینا چاہیے تاکہ وہ خود آکر ان مدارسِ اسلامیہ کی کارکردگی، سرگرمی اور جد وجہد کا جائزہ لے سکیں اور سماج کے تئیں ان کی خدمات کو محسوس کر سکیں۔ اس کے لیے علاقہ کے مختلف غیر مسلم اہل فکر و دانش، سماجی کارکنان، سیاسی اور عملی شخصیات کو گاہے بگاہے دعوت دے کر ان کے سامنے طلبہ کی علمی صلاحیتوں و لیاقتوں کا مظاہرہ کرنا چاہیے، نیز ایسے مذاکراتی پروگرام پیش کرنے چاہیے جس سے ان کے سامنے اسلامی تعلیمات کی وضاحت اور اچھے اقدار کی نمائندگی ہوسکے۔
ہندوستانی اسلامی مدارس صدیوں سے اپنے دینی و علمی کاموں میں مصروف ہیں۔ ان کا اصل مشغلہ درس و تدریس، وعظ و نصیحت اور تبلیغ و ہدایت ہے۔ مختلف مکاتبِ فکر کے چھوٹے بڑے مدارس ہزاروں کی تعداد میں ملک بھر میں پھیلے ہوئے ہیں جو عام مسلمانوں کے مالی تعاون و امداد سے اپنے مصارف و اخراجات پورے کرتے ہیں۔ اپنے ملک کے تعلق سے اُن کا فکری رجحان وہی ہے جو ایک عام ہندوستانی مسلمان کا ہے کہ اپنے ملکی مفاد کا تحفظ کرو، اس کی تعمیر و ترقی میں حصہ لو، دل سے اسے چاہو ،ملکی وحدت و سالمیت کے خلاف کبھی کوئی قدم نہ اٹھاؤ، یہی وجہ ہے کہ سماجی ہم آہنگی کے لیے یہ مدارس پُر امن بقائے باہم کے اصول پر عمل پیرا ہیں۔ان مدارس نے سماجی و ملکی مسائل کی گتھیاں سلجھانے میں ہمیشہ نمایاں کردار ادا کیا ہے۔ مثلاً فتویٰ نویسی کے ذریعے رہنمائی، مساجد میں خطاب جمعہ، عوامی جلسے میں خطاب، مختلف تقریبات کے دوران اساتذہ اور طلبہ کا عوام سے انٹریشن، شادی بیاہ جیسی رسموں میں شرکت کے دوران وعظ و نصیحت اور رسالوں کے ذریعے تعلیم و صحت وغیرہ۔ سماجی سطح پر ہندوستان میں مدارسِ اسلامیہ کا فکری رجحان یہ رہا ہے کہ مسلمان بچوں کو دینی تعلیم بھی ہو اور صحیح تربیت بھی تاکہ وہ سن بلوغ کو پہنچ کر مسلم ہونےکے ساتھ ساتھ اپنے ملک و قوم کی حیثیت سے اپنی ذمہ داری ادا کر سکیں، مدارسِ اسلامیہ کی دینی و معاشرتی حیثیت نہایت درجہ اہم ہے ،اس لئے ان کا بہتر سے بہتر نظم و انصرام ہونا چاہیے۔ جس سے صحیح معنوں میں بچے اور بچیوں کی دینی تعلیم و تربیت کی جاسکے۔ موجودہ جدید دور میں صرف دینی تعلیم ہی کافی نہیں ہے بلکہ بچوں کو دور حاضر کی جدید ٹیکنالوجی سے بھی آراستہ کیا جانا چاہئے۔ہندوستان جیسے کثیر مذہبی ملک میں بہتر مستقبل کی دوڑ میں مسلم طلبا اس لئے پیچھے رہنے کا رجحان پایا جاتا ہےکیونکہ مدارس میں جدید تعلیم سے بچوں کو آراستہ نہیں کیا جارہا ہے۔
ہمارااپنا ہندوستان جو ایک جمہوری اور ہندو اکثریتی ملک ہے ،یہاں دہشت پسند سرگرمیوں کی گنجائش بھی نہیں ہے۔پورے ہندوستان میں اب تک کوئی چھوٹا سا بھی ایسا واقعہ سامنے نہیں آیا کہ کسی بھی مدرسے کی مینیجنگ باڈی یا ٹیچرس اسٹاف یا اسٹوڈنٹس یونین کسی ملک دشمن سرگرمی میں ملوث پائی گئی ہو۔
اسلامی مدارس مسلم معاشرے کے لیے اہم حیثیت رکھتے ہیں ،یہ مدارس مسلم بچوں کو اسلامی تعلیم سے آراستہ کر کے انہیں سچا اور ملک کے آئین و قانون کا پاسداربھی بناتے ہیں۔
مدارسِ اسلامیہ کے لوگوں کو اُمت مسلمہ کے مسائل میں پُرامن عمل کابھرپور شعور ہونا چاہئے۔ انہیں دورِ جدید کے تمام معاملات سے آشنا ہونا چاہئےاور ہر میدان میں حصہ داری کے اصول پر کام کرنا چاہیے۔
(نوٹ۔ اس مضمون میں ظاہر کی گئی آراء مضمون نگار کی خالصتاً اپنی ہیں اور انہیں کسی بھی طور کشمیر عظمیٰ سے منسوب نہیں کیاجاناچاہئے۔)