حقائق
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
آج جبکہ پوری دنیا میں تعلیم نے صنعت و تجارت کی حیثیت حاصل کرلی ہے، مدارس اسلامیہ متوسط اور غریب خاندان کے لڑکے لڑکیوں کی تعلیم کا واحد ذریعہ ہیں ۔یہاں لیا نہیں بلکہ سب کچھ دیا جاتا ہے۔ تعلیم بھی ، تربیت بھی ، کتابیں بھی ، خوراک بھی ، رہائش بھی ، کپڑے بھی ، سب کچھ مفت۔ مدرسوں کی کوئی مستقل ذریعہ آمدنی نہیں ہوتی، یہاں کا بجٹ آمدنی کے بعد نہیں بنتا بلکہ اللہ کے فضل اور اہل خیر کے ذریعہ دی جانے والی رقم کی موہوم امید اور توقعات پر بنا کرتا ہے۔ یہاں کے اساتذہ معمولی تنخواہوں پر کام کرتے ہیں اور صرف یہی وہ لوگ ہیں جو اپنی صلاحیتیں فروخت نہیں کرتے ،دنیاوی اُجرت کا تصور نہیں رکھتے بلکہ اجر ِخداوندی کی امید پر کام کرتے ہیں۔ان کی امیدیں اللہ سے لگی ہوتی ہیں ، ان کے مقاصد جلیل اور آرزوئیں قلیل ہوتی ہیں۔ مختلف اوقات خصوصاً ماہِ رمضان اور دوسرے موقع سے یہ اہل ِ خیر سے رابطہ کرتے ہیں ، چھوٹی بڑی رقمیں وصول کر لاتے ہیں ،جس سے مدارس اسلامیہ کا یہ سارا نظام چلا کرتا ہے۔ مولانا سید نظام الدینؒ فرمایا کرتے تھے کہ اپنے تعلیمی نظام کو خیرات زکوٰۃ پر منحصر نہیں کرنا چاہئے ، اپنی اصل آمدنی میں سے بھی اس کام کے لئے نکالنا چاہیے،لیکن واقعہ یہی ہے کہ عطیات کی مختصر رقم کو چھوڑ کر اب تک مدارس اسلامیہ کا ساراتعلیمی نظام مسلمانوں کے خیرات زکوٰۃ پر ہی منحصر ہے ۔
چھوٹے مدارس کی اہمیت بھی کم نہیں ہے ، یہ مسلم سماج میں اسلامی تعلیم و تربیت اور اعلیٰ اخلاقی اقدار کے فروغ کے لئے’’ لائف لائن‘‘ کی حیثیت رکھتے ہیں ۔ مسلم سماج کے جسم و جان میں اسلامی حمیت و غیرت اور دینی تعلیم و تربیت کا جو خون گردش کرتا ہے ،وہ سب انہیں مدارس اسلامیہ کی دین ہیں ، بنیادی دینی تعلیم جس کا حصول ہر مسلمان پر فرض ہے ، اس کی تکمیل ان اداروں کے ذریعہ ہی ہوتی ہے ۔یہی وجہ ہے کہ ہر دور میں اکابر علماء نے اس کی ضرورت و اہمیت بیان کرکے لوگوں کی توجہ اس طرف مبذول کر ائی ہے۔ موالانااشرف علی تھانوی ؒ فرماتے ہیں :اس میں ذرا شبہ نہیں کہ اس وقت مدارس علوم دینیہ کا وجود مسلمانوں کے لئے بڑی نعمت ہے۔ دنیا میں اگر اسلام کے بقاء کی کوئی صورت ہے تو یہ مدارس ہیں ۔‘‘ مولانا مناظر حسن گیلانیؒ کی رائے ہے کہ ’’ یہی کہفی مدارس تھے ،جنہوں نے مسلمانوں کے ایک طبقہ کو خواہ ان کی تعداد جتنی بھی کم ہے، اعتقادی اور اخلاقی گندگیوں سے پاک رکھنے کی کامیاب کوشش کی ہے ، ‘‘علامہ سید سلیمان ندویؒ فرماتے ہیں : ’’ یہ مدارس جہاں بھی ہوں جیسے بھی ہوں ،ان کا سنبھالنا اور چلانا مسلمانوں کا سب سے بڑا فریضہ ہے۔ اگر ان عربی مدرسوں کا کوئی فائدہ نہیں تو یہی کیا کم ہے کہ یہ غریب طبقوں میں مفت تعلیم کا ذریعہ ہیں اور ان سے فائدہ اٹھا کر ہمارا غریب طبقہ کچھ اور اونچا ہوتا اور اس کی اگلی نسل کچھ اور اونچی ہوتی ہے اور یہی سلسلہ جاری رہتا ہے ، غور کی نظر اس نکتہ کو پوری طرح کھول دے گی‘‘مولانا ابوالحسن علی ندوی ؒ نے فرمایا :’’ مدرسہ سب سے بڑی کار گاہ ہے ، جہاں آدم گری اور مردم سازی کا کام ہوتا ہے ، جہاں دین کے داعی اور اسلام کے سپاہی تیار ہوتے ہیں ،مدرسہ عالم اسلام کا وہ بجلی گھر(پاورہاؤس )ہے جہاں سے اسلامی آبادی بلکہ انسانی آبادی میں بجلی تقسیم ہوتی ہے ، مدرسہ وہ کارخانہ ہے ، جہاں قلب و نگاہ اور ذہن و دماغ ڈھلتے ہیں ،مدرسہ وہ مقام ہے جہاں سے پوری کائنات کا احتساب ہوتا ہے اور پوری انسانی زندگی کی نگرانی کی جاتی ہے۔ ‘‘ مولانا محمد ولی رحمانی کا ارشاد ہے:’’ مدرسہ آپ کے دین و ایمان کی جگہ ہے ،یہ آپ کی دنیا و آخرت ہے ، مدارس اسلامیہ کو تقویت پہونچائی جائے ،دین اسلام کی بقاء انہیں مدارس اسلامیہ کے استحکام سے ہے ۔ ہماری ذمہ داری ہے کہ ان اداروں کی فکر کریں اور موجودہ پریشان کن حالات سے نکالنے میں ان کی مدد کریں ۔اہل خیر حضرات کو عطیات کی رقم سے اپنے اپنے علاقوں میں علماء ، ائمہ مساجد، مؤذنین اور مدارس کے اساتذہ کے لئے بھی دست تعاون دراز کرنا چاہیے، البتہ اس کا خیال رکھنا چاہئے کہ ان کی
عزت نفس کو ٹھیس نہ پہونچے ، یہ بدگمانی بالکل نہ پھیلائی جائے کہ مہتمم صاحبان رکھ لیں گے اور ان کے اندر ایمانداری کی کمی ہے۔بعض سر پھرے سوشل میڈیا پر اس قسم کے بیانات دیتے رہتے ہیں ،اس سے بدگمانی کا دروازہ کھلتا ہے ، حا لاں کہ عمومی احوال ایسے نہیں ہیں ، ہماری کمزوری یہ ہے کہ ہم اِکادُکا واقعات کو کلیہ بنا کر پیش کرتے ہیں ،علمی اصطلاح میں کہیں تو کہا جاسکتا ہے کہ قیاس استثنائی کو قیاس استقرائی کا درجہ دینا ہماری فطرت بن گئی ہے۔ یہ ٹھیک ہے کہ پوری دیگ کے چاول کے پکنے کا اندازہ دوچار دانوں کو مسل کر لگایا جاسکتا ہے،لیکن روٹی میں یہ فارمولہ نہیں چلے گا،تمام روٹی کے کچی اور پکی ہونے کی بات ایک روٹی کو دیکھ کر نہیں کہی جاسکتی ۔
[email protected]