فکرو ادراک
بلال احمد پرے
گزشتہ مضمون میں بچوں کے خاطر دینی تعلیم و تربیت کی اشاعت کے لئے درسگاہ کی اہمیت، افادیت اور ضرورت پر روشنی ڈالی گئی تھی ۔ اب اس مضمون میں دینی تعلیم و تربیت کے انتظام اور اس کی ذمہ داری پر روشنی ڈالی جائے گی ۔ دینی تعلیم و تربیت کے انتظام کی زمہ داری سماج کے ہر طبقے سے وابستہ افراد پر ہیں ۔
سماج کے جن اشخاص پر براہِ راست اس کے انتظام کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے، ان میں سے والدین سب سے سر فہرست اعلیٰ ہے ۔ اس کے بعد مساجد کمیٹی کے ممبران کا کردار اور امام مساجد و خطیب حضرات کی زمہ داری بنتی ہے کہ وہ سب مل کر اپنے اپنے محلوں میں دینی تعلیم و تربیت کی ترویج و اشاعت اور اس کے عملانے کا انتظام کریں ۔ تاکہ بچوں کو ابتدائی مراحل سے ہی صحیح ڈھنگ سے دینی ماحول میں نشو و نما کیں جائے ۔
۱۔ والدین کا کردار :سب سے پہلی ذمہ داری والدین پر عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنے بچوں کی دینی تعلیم و تربیت کا خاص اہتمام کریں ۔ جن پر بچوں کی تربیت کرنا واجب ٹھرایا گیا ہے ۔ اور یہ بنیادی حقوق انہیں دین اسلام میں نبی آخرالزماں حضرت محمد مصطفیٰ ؐنے دیا ہے ۔ انہیں چاہئے کہ وہ اپنے بچوں کے خاطر قربانی دینے کے لئے تیار ہو جائے ۔ بچوں کو لاڈپیار کرنے کے باوجود بھی انہیں ایسے ماحول میں ابتدائی عمر سے ہی بیجھنے کی ضرورت ہے جہاں ان کے ذہن کو صحیح عقائد، صحیح دینی علم و فہم پیدا کر کے صحیح ذہن سازی کی جائے ۔ والدین کو چاہیے کہ وہ اپنے بچوں کے خاطر دینی تعلیم و تربیت کے لیے ایسی جگہ کا انتظام کریں جہاں ان کی عزت، عفت و عصمت محفوظ ہو اور بچے کو ذرا بھی الگ تھلگ ماحول میں رہنے کا احساس ہونے نہ دیں ۔ یہ جگہ مسجد کے اندر یا اس کے ساتھ منسلک ہو، تو سب سے بہتر ہوگا ۔ اگر محلے میں کہیں پر بھی اس طرح کا انتظام میسر نہ ہو، تو نجی طور پر آپسی مشاورت کے ساتھ کسی بھی فرد کے گھر میں اس طرح کا انتظام ضروری کرنا چاہئے ۔جگہ کا انتخاب کرنے کے بعد بلا تاخیر ایک باصلاحیت، پیشہ ورانہ، فارغ التحصیل معلم کا انتخاب کر کے دینی تعلیم و تربیت کو شروع کرنا چاہئے ۔ لیکن اس بات کا خیال ضرور رکھیں کہ وہ معلم مخلص، متقی اور پرہیزگار ہو ۔ اس سے بچوں کی تعلیم و تربیت کا ہنر بہ آسانی آتا ہو ۔ اور وہ مختلف بچوں کے نفس کو اچھی طرح جاننے کا ہنر رکھتا ہو ۔ اور اس کے اندر سماج کی اصلاح کرنے کا درد موجود ہو ۔
۲۔ مساجد کمیٹی کے ممبران کا کردار :والدین کے بعد مساجد کی کمیٹی کے ممبران کے اوپر زمہ داری عائد ہوتی ہے ۔ یہ ذمہ داری انہیں دین اسلام نے ڈالی ہے ۔ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ؐ نے فرمایا،’’ تم میں سے ہر آدمی ذمہ دار ہے اور ہر آدمی اپنے ماتحتوں کے بارے میں جواب دہ ہے۔‘‘ (صحیح البخاری)۔کمیٹی ممبران کو چاہئے کہ وہ اپنے اپنے محلوں میں دینی تعلیم و تربیت کی خاطر صحیح جگہ کا انتخاب کریں اور والدین کے ساتھ مشورہ کر کے بچوں اور بچیوں کے لیے الگ الگ جگہ کا تعین مع بہترین معلم و معلمہ کا انتخاب کریں ۔ باصلاحیت، پیشہ ورانہ معلم اور معلمہ کو اس کام کے لیے ماہانہ طور پر معقول معاوضہ بھی مقرر کر دیں ۔مزید انہیں چاہئے کہ دین دار باصلاحیت دلچسپی رکھنے والے نوجوانوں پر ایک ذیلی کمیٹی تشکیل دی جائے، جو دینی تعلیم و تربیت کے خاطر اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لا سکیں ۔ اس ذیلی کمیٹی پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ بچوں اور بچیوں کے نظم و ضبط کا خاص خیال رکھا کریں ۔ معلم یا معلمہ کو پڑھانے کے دوران باقی بچوں اور بچیوں کو صحیح ڈھنگ سے صحیح جگہ پر بٹھائے رکھیں ۔ نیز ان کی حاضری بھی مستقل طور پر کیا کریں ۔ بچوں کے ماہانہ مقرر شدہ فیس کو بر وقت وصول کر کے اکاؤنٹ رجسٹر میں ریکارڈ کر کے رکھیں ۔
اس ذیلی کمیٹی کی ذمہ داری یہ بھی بنتی ہے کہ وہ معلم یا معلمہ کی نہ صرف ماہانہ معاوضہ کا خیال رکھیں بلکہ ان کی دیگر ضروریات اور مکتب میں ضروری چیزوں کے ہونے کے لیے تمام وسائل پیدا کریں ۔ ہر ماہ کے آخر پر حاضری کے اعتبار سے بہترین طلباء و طالبات کا فہرست واٹساپ گروپ کے اندر مشتہر کریں تاکہ غیر حاضر یا عدم دلچسپی لینے والے بچے مع ان کے والدین بھی بہ آسانی دینی تعلیم و تربیت کی طرف متوجہ ہو سکیں ۔ حاضری کے اعتبار سے بہترین طلباء و طالبات کو سالانہ مجلس کے دوران انعامات سے بھی نوازیں ۔
ذیلی کمیٹی، معلم یا معلمہ کو ششماہی و سالانہ امتحانات منعقد کرنے میں اپنا بھر پور تعاون پیش کریں ۔ اپنے اپنے علاقے کے معتبر عالم دین یا دینی اداروں کے ساتھ مضبوط روابط بنائے رکھیں تاکہ انہیں کے ذریعے بچوں یا بچیوں کا امتحان لیا جائے اور عین وقت پر ان طلباء و طالبات کے ساتھ ساتھ معلم یا معلمہ کی کارکردگی کو بھی جانچا جائے ۔ سالانہ امتحانات کے نتائج پر دینی و اصلاحی مجلس کا انعقاد بھی کریں ۔ جس میں کسی مستند عالم دین کو دعوت دے کر عوام الناس تک بھی اس کا فائدہ پہنچانے کی کوشش کریں ۔ سالانہ امتحان میں بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والے بچوں کو انعام سے نوازیں ۔ اس طرح یہ مکاتب کامیاب و کامرانی کی طرف رواں دواں رہیں گے ۔
۳۔ معلمین کی ذمہ داری :والدین اور مساجد کمیٹیوں کے بعد معلمین پر زمہ داری عائد ہوتی ہے ۔ جو اس ڈھانچہ کو صحیح ڈھنگ سے چلانے کے لیے ریڑھ کی ہڈی کے مانند ہیں ۔ معلمین کو یہ زمہ داری پیغمبر اسلام خیر الانام سرور کونینؐ کے اس حدیث مبارک سے ملی ہیں جس میں واضح فرمایا گیا ہے کہ “انما بعثت معلما” یعنی مجھے معلم بنا کر مبعوث کیا گیا ۔(ابن ماجہ)۔اس سے معلمین کو اپنی اپنی زمہ داری کا احساس بہ خوبی ہونا چاہئے ۔ جو انبیاء کے وارث بھی قرار دئے گئے ہیں ۔ چونکہ والدین اور مساجد کمیٹیوں کی کوشش کو یہی معلمین حقیقت کا لباس اوڑھ لیتے ہیں ۔ اور اس کوشش کو انہی کے زریعے بالآخر عملایا جاتا ہے ۔
معلمین کو چاہئے کہ وہ اپنی پیشہ ورانہ صلاحیتوں کو عوام الناس کی خدمت کرنے کے لیے بروئے کار لائیں اور ہر وقت بچوں کی خاطر دینی تعلیم و تربیت کرنے کے لیے تیار رہیں ۔ چہ جائیکہ انہیں اس مقدس اور نیک کام کے لیے تسلی بخش ماہانہ معاوضہ ملتا نہ ہو، یہ کام ان کے لیے امر بالمعروف ونہی عن المنکر کے اندر بھی کرنی ضروری ہے ۔
معلمین کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ سبھی بچوں کے نفس کا خیال رکھیں اور ان کے اندر دینی تعلیم و تربیت حاصل کرنے کی طرف دلچسپی پیدا کریں ۔ معلم دینی تعلیم و تربیت کے لیے بچوں کو مارنے سے پرہیز کریں ۔ اس کے بدلے بچوں کو اخلاقی طور پر محبت و شفقت، ہمدردی اور وعظ و نصیحت سے اصلاح کیا کریں ۔
معلم کو چاہئے کہ سبھی بچوں کو بہتر القاب سے پکارا کریں ۔ بچوں کی ذہنی صلاحیت اور فہم کے مطابق درجہ بندی کریں تاکہ انفرادی طور پر پڑھانے کے بجائے انہیں اجتماعی طور پر زیادہ سے زیادہ اوقات کے لیے مستفید کیا جائے ۔ انفرادی طور پر پانچ منٹ پڑھانے کے بعد بچے کا تقریباً پچپن منٹ ضائع ہو جاتے ہیں جس کے دوران بچے بھی نظم و ضبط کا خیال نہیں رکھ پاتے ہیں اور اس طرح سے آئے روز کوئی مؤثر نتائج اخذ نہیں ہو پاتے ہیں ۔ معلم کو باضابطہ طور پر پورے سال کے لیے ایک ہدف کے تحت سلیبس کا تعین بھی کرنا چاہئے ۔ تجوید اور تلفظ قرآن کے علاوہ کتب سیرت، احادیث، عقائد، مسائل، نماز، دعائیں جیسی کتابوں کو بھی پڑھانا چاہئے ۔ سب سے اہم بات یہی ہے کہ وہ صحیح پڑھانے کے ساتھ ساتھ بچوں سے صحیح طور پر بھی سنا کریں ۔
خلاصہ کلام یہی ہے کہ جہاں پر اس مقدس اور نیک کام کو انجام دیا جا رہا ہے وہ قابل تعریف ہیں اور جہاں اس کی ابھی تک پہل نہیں ہوئی، وہاں والدین، مساجد کمیٹی کے ممبران
اور معلمین کو مل کر مشورہ کرنا چاہئے ۔ اپنے اپنے محلوں میں سبھی بچوں کی دینی تعلیم و تربیت کے لیے ٹھوس اقدام اٹھا کر بچوں کو نیک سیرت اور بااخلاق بنانے کی پہل کرنی چاہئے تاکہ ہر اعتبار سے اخلاقی افراد کی شخصیت سازی سے خوبصورت سماج تعمیر کیا جائے ۔
رابطہ ۔ 9858109109