نئی دہلی// مرکزی مذاکرات کار دنیشور شرما نے مشن کشمیر سے متعلق پہلے مرحلے کی رپورٹ مرکزی وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ کو سونپ دی ہے۔ رپورٹ اپنے 6 روزدورہ ریاست کے دوران قریب80سیاسی وغیر سیاسی وفود سے ملاقات اور تبادلہ خیال پر مبنی ہے ۔باور کیا جارہا ہے کہ دنیشور شرما کا دوسرا دورہ نومبر کے اواخر یا دسمبر کے پہلے ہفتے سے شروع ہوگا۔بدھ کو نئی دہلی میں حکومتی کور گروپ میٹنگ منعقد ہوئی جس کی صدارت وزیر داخلہ راجناتھ سنگھ نے کی۔یہ کور گروپ میٹنگ دنیشور شرما کیساتھ تبادلہ خیال کرنے کیلئے بلائی گئی تھی تاکہ انکی ریاست کا دورہ کرنے کے بارے میں تیار کی گئی پہلی رپورٹ پر تبادلہ خیال کیا جائے۔اس میٹنگ میںوزیر دفاع نرملا سیتا رمن ، قومی حفاظتی مشیر اجیت دئول ، خارجہ سکریٹری راجیو گوبا،دفاعی سکریٹری سنجے مترا ، خفیہ بیورو،قومی جانچ ایجنسی اورسکیورٹی فورسز کے سینئر افسر موجو د تھے۔ میٹنگ میں مرکزی مذاکرات کار نے جموں کشمیر میں سیاسی گروپوں،طلباء یونین ، سماجی و مذہبی گروپوں ،چیمبرآف کامرس اینڈ انڈسٹریز،جموں بار اسوسی ایشن ،مغربی پاکستان کے پناہ گزینوں کے نمائندوں سمیت سماج کے مختلف محکمے کے لوگوں کے ساتھ میٹنگ میں ملے رد عمل کے بارے میں بتایا۔دنیشورشرما نے اس دورے کے دوران ریاست میں لوگوں کی طرف سے ظاہر کئے گئے تحفظات اور دیگر عوامل کی طرف بھی شرکا کی توجہ مبذول کرائی۔شرما نے میٹنگ کے دوران کشمیر سے متعلق میڈیا کے رول کے اثر کو اجاگر کیا تاہم میٹنگ ختم ہونے کے بعدانہوں نے میڈیا کے سوالوں کا جواب نہیں دیا۔تاہم مشن کشمیر کو آگے بڑھانے کا عزم کرتے ہوئے ا نہوں نے کہاکہ مسئلہ کشمیر کے پائیدار حل اور ریاست میں قیام ِ امن کے حوالے سے وہ ہر ایک کے ساتھ بات چیت کا سلسلہ جاری رکھیں گے ۔انہوں نے کہا کہ مزید مذاکراتی عمل جاری رکھنے کیلئے وہ جلد ہی دوبارہ کشمیر جائیں گے۔خیال رہے دنیشورشرمانے 6نومبرسے لگ بھگ ایک ہفتے تک ریاست کادورہ کیا،اوراس دوران انہوں نے سری نگراورجموں میں سیاسی اورغیرسیاسی وفودکیساتھ کے علاوہ ریاستی گورنراین این ووہرا،وزیراعلیٰ محبوبہ مفتی اوراعلیٰ سیکورٹی حکام کیساتھ ملاقاتیں اورتبادلہ خیال کیا۔دنیشورشرمانے مذاکرات کار کے طور پرریاست کے پہلے دورے کے دوران سابق وزیر اعلیٰ اور نیشنل کانفرنس کے کار گزار صدرعمر عبداللہ کے علاوہ لانگریس کے ریاستی صدر غلام احمد میر ،پروفیسر سیف الدین سوز،محمد یوسف تاریگامی ،غلام حسن میر اور حکیم محمد یاسین سے بھی ملاقات کی۔تاہم مشترکہ مزاحمتی لیڈرشپ کی عدم دلچسپی یاسردمہری کے باعث مزاحمتی خیمے میں شامل جماعتوں اورلیڈروں نے مذاکرات کارکابائیکاٹ کیا۔