مودی حقیر سیاست سے مذہبی بنیادوں پر ملک کو تقسیم نہ کریں :ڈاکٹر فاروق
جموں//نیشنل کانفرنس صدر ڈاکٹر فاروق عبداللہ نے کہا ہے کہ ہندوستان کواس وقت فرقہ پرستی کی شدید ترین لہر کا سامنا ہے اور اگر مودی راج قائم رہا تو ملک کے نہ معلوم کتنے ٹکڑے ہوجائیں گے۔
ملک کے ٹکڑے ہونگے
ڈاکٹر بھیم رائو امبیدکر کی برسی پر منعقدہ پروگرام سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’امبیدکر کا ہندوستان سبھی کا تھاکیوں کہ آئین میں ہر شخص کو بلا لحاظ مذہب و ملت یکساں مواقع حاصل تھے لیکن آئین کے معمار کو فرقہ پرستوں کی وجہ سے اپنا مذہب تبدیل کر کے بد ھ مت اپنانے پر مجبور ہونا پڑ اتھا اور آج 70برس کے بعد بھی حالات میں کوئی زیادہ تبدیلی نہیں آئی ہے‘۔ انہوں نے کہا درج فہرست ذاتوں اور قبائل کو آج بھی آئے دن نشانہ بنایا جا رہا ہے ، دہلی کی حکومت آئین کے سیکولر اقدار کو مٹانے پر تلی ہے لیکن ہمیں ان مذموم عزائم کو ناکام بنانے اور بالخصوص جموں کشمیر کی سیکولر شبہہ کو بنائے رکھنے کے لئے متحد ہو کر جد و جہد کرنا ہوگی‘۔ انہوں نے کہا ’’ ملک کے پہلے وزیر اعظم جواہر لال نہرو نے لال قلعہ سے پہلی بار ترنگا لہراتے ہوئے کب سوچا ہوگا کہ ملک میں ایسے ارباب اقتدا ر بھی ہوں گے، جو ملک کے ٹکڑے کردیں گے‘‘۔ ڈاکٹر عبداللہ نے کہا کہ انگریز ملک پر 200سال تک حکومت کرنے کے بعد ہندوستان کو دو قومی نظریہ کی بنیاد پر تقسیم کرنے میں کامیاب ہو گئے اور اب مودی سرکار اس ملک کو مذہب کی بنیاد پر تقسیم کرنے کیلئے کوئی بھی دقیقہ فروگزاشت نہیں کر رہی ہے ، اور کوئی نہیں جانتا کہ بی جے پی حکومت ملک کو کتنے حصوں میں بانٹ دے گی۔ڈاکٹر فاروق نے وزیر اعظم نریندر مودی کو صلاح دی کہ وہ اپنے عہدہ کا تقدس بحال رکھتے ہوئے حقیر سیاست نہ کریں ، انہیں اپنے پیشروئوں کے نقش قدم پر چلنا چاہئے ۔ ’انہیں واجپائی سے سیکھنے کی ضرورت ہے جو بس میں بیٹھ کر پاکستان گئے اور اس سے قبل دورہ چین سے قبل بھی میرے ساتھ مشورہ کیا۔عمران خان کی کرتار پور راہداری کھولنے کیلئے ستائش کرتے ہوئے ڈاکٹر عبداللہ نے کہا کہ پاکستانی وزیر اعظم مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے مخلص ہیں۔
رام کے نام پر ووٹ
انہوں نے کہا کہ ملک میں نفرت کا ماحول کس قدر خطرناک رخ اختیار کر گیا ہے کہ گزشتہ روز اتر پردیش کے بلند شہر میں مبینہ گئو کشی معاملہ پر مشتعل بھیڑ نے ایک پولیس افسر کو گولی مار کر ہلاک کر دیا لیکن ریاست کے وزیر اعلیٰ کبڈی کھیلنے میں مشغول تھے اور رام کے نام پر ووٹ مانگ رہے تھے،ایسے میں ہمیں یہ سوچنا ہوگا کہ ہم اپنے ملک کو کہا ں لے جا رہے ہیں۔ انہوں نے بی جے پی کو مشورہ دیا کہ وہ انتخابی مہم میں اللہ اور رام کے نام کو استعمال نہ کریں۔ ڈاکٹر فاروق نے کہا کہ اللہ اور رام کو ہمارے ووٹ نہیں چاہئیں، ہمیں رائے دہندگان کو اپنے پروگرام اور پالیسیوں سے مطمئن کرنا چاہئے ۔ لیکن بی جے پی اپنے انتخابی وعدوں کو پورا کرنے میں ناکام رہنے کے بعد مذہب کے نام پر سیاست کر رہی ہے ۔ ’وہ لوگوں کے کھاتہ میں 15لاکھ نہیں ڈال پائے، 2کروڑ نوکریاں مہیا کرنا تو درکنار جی ایس ٹی اور نوٹ بندی سے معیشت کی کمر توڑ کر رکھ دی ۔ یہاں تک ہماری ریاست میں چھوٹے پیمانہ پر ہونے والی تجارت بھی تباہی کے دہانہ پر پہنچ گئی ہے ، کارخانوں اور فیکٹریوں سے ورکر بے روزگار ہو گئے ، بی جے پی کے پاس اپنے ساڑھے چار برس کی کارکردگی کے طور پر کچھ نہیں ہے، ہندو اور مسلمان کے نام پر لوگوں کو تقسیم کیا جارہا ہے اور اس سے ملک کمزور ہو رہا ہے ۔ این سی صدر نے تمام اہم عہدوں پر آر ایس ایس ورکروں کو تعینات کرنے کیلئے بی جے پی کو ہدف تنقید بناتے ہوئے کہا کہ تعلیمی اداروں کی باگ ڈور بھی نااہل آر ایس ایس لیڈروں کے ہاتھ دے دی گئی ہے۔کانگریس قائدین کی کردار کشی کیلئے بی جے پی کی نکتہ چینی کرتے ہوئے ڈاکٹر عبداللہ نے کہا کہ ’میرے والد نے زندگی کا بیشتر حصہ نہرو کی وجہ سے جیل میں کاٹا لیکن میں نے کبھی جواہر لال نہرو پر چھینٹا کشی نہیں کی کیوں میں وطن کے تئیں ان کی خدمات کو فراموش نہیں کر سکتا‘۔
گورنر قابل ستائش
بی جے پی کو ڈاکو نمبر ایک بتاتے ہوئے ڈاکٹر عبداللہ نے کہا کہ بی جے پی کو انتخابات میں ہار کاخوف دامن گیر تھا اسلئے انہوں نے کشمیر سے کسی کو وزیر اعلیٰ کا مہرہ بنانے کیلئے پانچ ماہ ہر ممکن کوشش کی لیکن ناکام رہے جس کے بعد اسمبلی تحلیل کرنا پڑی۔ ’وہ ریاست کو مزید تین سال تک لوٹنا چاہتے تھے جیسے پہلے تین سال تک پی ڈی پی کے ساتھ رہ کر انہوں نے لوٹا تھا، لیکن وہ ناکام ہو گئے ، میں گورنر صاحب کا مشکور ہوں کہ انہوں نے اسمبلی کو تحلیل کر دیا۔
میں مکمل ہندوستانی
نیشنل کانفرنس کے لئے ووٹ دینے کی اپیل کرتے ہوئے فاروق عبداللہ نے کہا کہ ’آپ سمجھتے ہیں کہ این سی لیڈر پاکستانی ہیں، میں ہزار بار کہہ چکا ہوں کہ میرے دل کے چاروں خانوں میں صرف ہندوستان ہی بستا ہے ‘۔انہوں نے کہاکہ 1996میں ریاست میں کچھ نہ تھا ، میں نے اسکول، ڈاکٹر، ہسپتال، سڑکیں اور عمارتوں کے علاوہ 1.5لاکھ نوکریاں دیں لیکن 2008میں 28ایم ایل اے ہونے کے باوجود اپوزیشن میں بیٹھنے کو ترجیح دی کیوں کہ میں آیا رام گیا رام کی سیاست میں یقین نہیں رکھتا۔میں بیساکھیوں پر انحصار نہیں رکھنا چاہتا اگر آپ ترقی چاہتے ہیں تو نیشنل کانفرنس کو واضح اکثریت دیں۔