"شاہینہ او شاہینہ۔۔۔۔"
" ہاں آئی"
"ارے بھائی میرا جُراب اور جوتا کدھر ہے۔۔۔۔؟ "
"وہیں ہونگے۔ دیکھ لو۔۔"
" ارے بابا دیکھ لیا نہیں ہے۔۔۔۔۔ تم ہی آ کر دیکھ لو نا !"
"ٹھیک ہے آ رہی ہوں۔۔۔"
شاہینہ اپنا کام کاج چھوڑ کر حسین کا جُراب اور جوتا ڈھونڈنے لگی۔
"یہ لیجئے آپ کا جُراب اور جوتا۔۔۔"
حسین نے جوتا پہنا اور اپنے بیٹے محمود ، جو پڑھائی کی غرض سے شہر گیا ہوا تھا، کو دیکھنے کے لیے روانہ ہو گیا۔
حسین دن کے ایک بجے وہاں پہنچا۔ ڈیرے پر پہنچ کر دیکھا کہ دروازے پر تالا لگا ہے۔ حسین سمجھ گیا کہ وہ ٹیوشن کے لئے گیا ہوگا تو اس نے اس کی پڑھائی کا معائنہ کرنے کا یہ اچھا موقع سمجھ کر اس کے ٹیوشن سنٹر پر جانے کا فیصلہ کرلیا۔ ٹیوشن سینٹر پر کوآرڈینیٹر کے ساتھ بات چیت کے دوران اس کو معلوم ہوا کہ اس کا بیٹا پچھلے ایک مہینے سے اس کی آنکھوں میں دھول جھونک رہا ہے ۔ ٹیوشن کا بہانہ بنا کر وہ شہر کے گلی کوچوں میں آوارہ کتوں کی طرح اپنے دوستوں کے ساتھ گھومتا پھرتا رہتا ہے ۔ اپنے بیٹے کے بارے میں اس دھوکہ دہی پر وہ یقین نہ کر سکا اور ٹیوشن والوں کو برا بھلا کہہ کر چلا گیا۔
آٹو کو آواز دی اور شہر کے مرکز کی طرف نکل پڑا ۔ چہرے پر گلوبند اُوڑھے وہ آنکھوں کی نمی، کے جھٹکوں کو وہ بنا ظاہر کئے زہر کی طرح پئے جا رہا تھا کہ راستے میں اچانک آٹو رک گیا۔
"کیوں بھائی صاحب کیا ہوا۔۔۔۔۔؟"، حسین نے اپنے آپ کو کسی طرح سنبھالتے ہوئے آٹو والے سے پوچھا۔
"بھائی صاحب لگتا ہے کہ ٹائر پنکچر ہو گیا اسی تبدیل کرنا پڑے گا۔"
"کتنا وقت لگے گا۔۔؟"
"قریب بیس منٹ۔۔۔"
"اوکے ۔۔۔تب تک میں ٹہل کر آتا ہوں۔"
چند قدم چلنے کے بعد اسے دو لونڈے محمود کی عمر کے نظر آ گئے،جو راہ چلتی لڑکیوں کو چھیڑ رہے تھے۔ وہ ان کے پاس چلا گیا لیکن دونوں نقاب پوش تھے۔ ان کو نصیحت کرنے لگے تو انہوں نے بے ادب انداز میں کہا،" انکل ہمیں نصیحت کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے! ۔۔۔۔ہم کو پتہ ہے کہ ہم کیا کر رہے ہیں۔۔۔۔ "
" بیٹا میں وہ ۔۔۔وہ ۔۔۔"
" کیا وہ۔۔۔وہ ؟ ایک بار بات سمجھ نہیں آتی کیا۔۔۔؟"
ان دونوں کی بے ادبی کو دیکھ کر حسین نے ان میں سے ایک کو کھینچ کر تھپڑ مارا اور اُسکا نقاب کر گیا۔
نقاب کے ساتھ حسین کے تمام خوابوں نے وہیں پر دم توڑ دیا۔وہ اپنی آنکھوں پر بھروسہ نہ کر سکا اور لڑکھڑاتی آواز میں کہنے لگا،" م۔۔۔م۔۔۔ محمود ۔۔۔۔ ت۔۔۔ ت۔۔۔ تم"
لوہند شوپیان،طالب علم ,موبائل نمبر؛9697402129