گول//گول سے سنگلدان تقریباً 20کلو میٹر لمبی سڑک کی حالت بہت ہی زیادہ ابتر ہے ۔ اس سڑک پر سالہا سال سے کچھوے کی رفتار سے گریف کام کر رہی ہے لیکن ابھی تک اس کی حالت جوں کی توں ہے ۔ اس پر چلنے سے ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ یہ سڑک کئی صدیوں سے بے یارو مدد گاروں پڑی ہوئی ہے اور اس لا وارث سڑک پر ابھی تک گریف حکام نے کروڑوں روپے نکال کر ڈکار لئے ہیں ۔ اس سڑک کی حالت دیکھ کر گول میں آنے والا ہر وزیر اس کی بہتری کی یقین دہانی کراتا ہے لیکن جب واپس جاتا ہے تو اس سڑک کو بھول جاتے ہیں ۔ یہاں پر الیکشنوں کے دوران زیادہ تر بڑے بڑے رہنمائوں کی آمد لگی رہتی ہے ۔گزشتہ اسمبلی الیکشن کے دوران خود مرحوم وزیر اعلیٰ مفتی محمد سعید اور اُس کی صاحب زادی موجودہ وزیر اعلیٰ کئی بار گول اسی سڑک سے آئے لیکن انہوں نے یہی یقین دہانی دی کہ جلد ا س سڑک کی حالت بہتر ہو گی ۔ وہیں نیشنل کانفرنس کے صدر اور سابق وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے بھی گول میں سڑک پر تقریباً دس منٹ بھاشن دیا لیکن اُس کی بھاشن کا بھی کوئی اثر دکھائی نہیں دیا ۔ عمر عبداللہ نے سڑک کو ترقی کا ضامن قرار دیا تھا ۔ 1962ء میں تعمیر ہوئی گول رام بن سڑک کی حالت اگر چہ رام بن سے سنگلدان تک کچھ قدرے بہتر ہے لیکن سنگلدان سے گول اس کی حالت نا گفتہ بہہ ہے ۔ یہاں اس سڑک پرسے اُٹھنے والی دھول نہ صرف لوگوں کے لئے دشمن بن کر رہ گئی بلکہ سڑک کے کناروں پر پیڑ پودے اور گھاس ، رہائشی مکانات بھی اس دھول کی لپیٹ میں آئے ہیں اور دھول کی وجہ سے سڑک کے کنارے بسنے والے لوگوں کے ساتھ ساتھ اس سڑک پر سفر کرنے والے بھی شدید پریشان ہیں ۔ جہاں ایک طرف سے گریف حکام کی لا پروائی کی وجہ سے اس سڑک کی حالت ابتر ہے وہیں اس سڑک پر کیبل تار بچھانے والوں نے بھی اس کو اپنی ملکیت سمجھ کر اس کی کھدائی بڑی بڑی مشینوں سے کی اور ساری مٹی بیچ سڑک پھینک کر غائب ہو گئے ۔ سنگلدان سے مہور تک سڑ ک کی حالت ابتر ہو گئی ہے کیبل تار بچھانے کے ۔ اگر چہ ان کیبل تار بچھانے والوں کو مشینیں لگانی منع کی تھیں لیکن اس کے با وجود انہوں نے حکام کی ایک نا سنی اور اس وقت سڑک کی حالت خود ہی سڑک بیان کرتی ہے اور ہر ایک مسافر اس سڑک پر چلنے سے دو ہی بھاگتا ہے ۔