میر شوکت
12جون 2025کی صبح، جون کی تیز دھوپ نے حیدرآباد کی فضاؤں کو اپنی زرد کرنوں سے بھر دیا تھا۔ راجیو گاندھی بین الاقوامی ائیرپورٹ کی شیشے کی دیواریں سورج کی روشنی سے چمک رہی تھیں۔ روشنی چھن کر اندر آتی اور مسافروں کے چہروں پر رقص کرتی، جیسے ہر ایک کو اپنی منزل کی کہانی سنا رہی ہو۔ ائیر انڈیا کی پرواز AI171، ایک بوئنگ 787-8ڈریم لائنر، جو لندن کے گیٹوک ائیرپورٹ کے لیے روانہ ہونے والی تھی، رن وے پر تیار کھڑی تھی۔ اس کے اندر 230مسافر اور 12عملے کے ارکان—کل 242 افراد—اپنی اپنی دنیاؤں میں مگن تھے۔ ان میں 169بھارتی، 53برطانوی، 7پرتگالی، اور 1کینیڈین شہری شامل تھے۔ کوئی استاد اپنے لیکچر کے نوٹس پلٹ رہا تھا، کوئی طالب علم ایئر فونز میں گانوں کے سروں میں کھویا تھا، کوئی تاجر فون پر آخری ڈیل طے کر رہا تھا، اور کوئی ماں اپنے بچے کی پیشانی پر ہاتھ پھیرتی، جیسے اسے دنیا کی ہر آفت سے بچانا چاہتی ہو۔ ہر چہرے پر ایک کہانی تھی،امید کی چمک، سفر کی بے فکری، اور خوابوں کی ہلکی سی سرگوشی۔ائیرپورٹ کے ہال میں ہلکی سی گہما گہمی تھی۔ چائے کی پیالیوں سے اٹھتی بھاپ، بچوں کی شرارتیں، اور سامان کے ٹرالیوں کی آوازیں،سب کچھ ایک روزمرہ کی سادگی کا حصہ تھا۔ باہر رن وے پر جہاز تیار کھڑا تھا، جیسے ایک پرندہ جو آسمان کی وسعتوں کو چھونے کو بے تاب ہو۔ مسافر بورڈنگ گیٹ کی طرف بڑھ رہے تھے، ہر ایک اپنے ٹکٹ پر لکھی سیٹ نمبر کو ذہن میں دہراتا ہوا۔ کھڑکی والی سیٹ پانے والوں کی آنکھوں میں ایک خاص چمک تھی، جیسے وہ بادلوں کے پار اپنی منزل کو دیکھ سکتے ہوں۔جہاز کے اندر داخل ہوتے ہی ایک عجیب سا سکون تھا۔ سیٹوں پر بیٹھے مسافر اپنی اپنی کائنات سمیٹے ہوئے تھے۔ ایک بوڑھی ماں اپنی تسبیح کے دانوں کو چلاتی، دھیمی آواز میں ذکر کر رہی تھی۔ ایک نوجوان لڑکی کھڑکی سے باہر دیکھتی، جیسے آسمان اسے کوئی راز بتانے والا ہو۔ ایک باپ اپنے بچے کو گود میں لے کر کہانی سنا رہا تھا، اور ایک لڑکا اپنے لیپ ٹاپ پر آخری ای میل ٹائپ کر رہا تھا۔ ائیر ہوسٹس کی مسکراہٹ اور ہدایات کی آواز فضا میں گونج رہی تھیں۔ انجنوں کی ہلکی سی گونج نے جہاز کو جیسے زندہ کر دیا، اور دوپہر 1:38بجے، بھارتی معیاری وقت، وہ رن وے سے اڑان بھرنے لگا۔بادل جہاز کے پروں سے لپٹتے، جیسے اسے گلے لگا رہے ہوں۔ نیچے دھرتی دھندلی ہوتی جا رہی تھی، اور مسافروں کی آنکھوں میں وہ سکون تھا جو بلند پروازی کے ساتھ آتا ہے۔ جہاز نے چند لمحوں میں 625فٹ کی بلندی حاصل کر لی، لیکن پھر کچھ غلط ہو گیا۔ پائلٹ نے فوری طور پر مے ڈے کال کی، جو ایک ہنگامی حالات کی علامت تھی۔ لینڈنگ گیئر، جو اس مرحلے پر عام طور پر بند ہو جانا چاہیے تھا، ابھی تک کھلا تھا،ایک خطرناک علامت۔ کچھ لوگ نیند کے حصار میں چلے گئے تھے، کچھ کتابوں میں گم ہوئے، اور کچھ خاموشی سے اپنی منزل کے خواب بُنتے رہے۔ فضا میں ایک متوازن شور تھا،انجنوں کی گونج، بچوں کی ہلکی ہنسی، اور ائیر ہوسٹس کے ٹرے سے چھوٹی چھوٹی آوازیں۔ سب کچھ معمول کے مطابق لگ رہا تھا، جیسے وقت نے اپنی روانی کو ایک لے میں باندھ رکھا ہو۔پھر… ایک لمحہ آیا۔ نہیں، لمحہ نہیں،جیسے وقت کا ایک تیز دھار والا خنجر، جو ہر شے کو چیرتا چلا گیا۔ دوپہر 1:43 بجے، بھارتی معیاری وقت، ایک زور دار جھٹکا، جیسے زمین نے آسمان کو تھپڑ مار دیا ہو۔ پھر ایک دھماکہ، اتنا شدید کہ کانوں نے سننا چھوڑ دیا۔ جہاز، جو ابھی آسمان کا شہزادہ تھا، اب ایک جلتا ہوا ملبہ بن چکا تھا۔ یہ تباہی ائیرپورٹ سے صرف 5کلومیٹر دور، میگھانی نگر کے ایک گنجان آباد علاقے میں ہوئی، جہاں جہاز کا ملبہ بی جے میڈیکل کالج کے ہاسٹل کی چھت پر جا گرا۔ جہاز میں سوار 242 افراد میں سے صرف ایک، وشواش کمار رمیش، سیٹ 11A پر بیٹھا ایک برطانوی نژاد بھارتی شہری، زندہ بچا۔ باقی 241مسافر اور عملہ شعلوں کی نذر ہو گئے۔
یہ تباہی صرف آسمان تک محدود نہ رہی۔ جہاز، جو تقریباً 125,000لیٹر ایندھن سے بھرا تھا، ایک آگ کے گولے کی طرح ہاسٹل کے کھانے کے ہال پر گرا، جہاں اس وقت 100سے زائد میڈیکل طلبہ دوپہر کا کھانا کھا رہے تھے۔ وہ ہاسٹل، جہاں مستقبل کے ڈاکٹر رات بھر پڑھائی کے بعد صبح کی نیند میں ڈوبے ہوتے تھے یا اپنی کتابوں کے درمیان خواب بُنتے تھے، اب شعلوں کی لپیٹ میں تھا۔ وہ کمرے، جہاں کتابوں کے ڈھیر، چائے کے کپ، اور خوابوں سے بھری ڈائریاں بکھری پڑی تھیں، اب راکھ کے ڈھیر بن چکے تھے۔ کم از کم 5میڈیکل طلبہ—جن میں 4انڈرگریجویٹ اور 1پوسٹ گریجویٹ رہائشی شامل تھے،بھی اس حادثے میں ہلاک ہوئے، جبکہ 50 سے 60طلبہ زخمی ہوئے، جن میں سے 2یا 3کی حالت نازک تھی۔ ایک لڑکی، جس کی میز پر اس کے والد کا خط پڑا تھا، آخری لمحے تک اسے تھامے رہی، جیسے وہ خط اسے موت سے بچا لے گا۔ ایک لڑکا، جو اپنی ماں کے لیے سرپرائز تحفہ لینے کا سوچ رہا تھا، دروازے تک پہنچا، لیکن دھوئیں نے اس کی سانس چھین لی۔ ان کی چیخیں، ان کی آخری سانسوں کی ہلکی سی سرگوشی، اس ہاسٹل کی دیواروں میں ہمیشہ کے لیے سانس لیتی رہ گئیں۔ زمین پر کل 24افراد ہلاک ہوئے، جن میں ہاسٹل کے طلبہ اور مقامی رہائشی شامل تھے، جبکہ مجموعی طور پر 265 لاشیں احمد آباد کے سول ہسپتال لائی گئیں۔زمین اور آسمان کے بیچ جو کچھ تھا، وہ اب کچھ بھی نہیں تھا۔ جہاز کے ملبے سے جلتی ہوئی سیٹوں سے دھواں اٹھ رہا تھا، پگھلتی ہوئی کھڑکیوں سے آگ کی لپٹیں باہر جھانک رہی تھیں، اور بے جان جسم ایک دوسرے سے لپٹے ہوئے تھے، جیسے آخری لمحے میں بھی ایک دوسرے کو تھامنا چاہتے ہوں۔ ہاسٹل کی چھتیں گر چکی تھیں، دیواریں سیاہ ہو چکی تھیں، اور وہ کمرے، جہاں کل تک ہنسی اور بحثوں کی آوازیں گونجتی تھیں، اب خاموشی کی قبر بن چکے تھے۔ پلاسٹک کی بدبو، خون کی لہروں سے اٹھتی سڑاند، اور ادھ جلے موبائل فونز کی چھوٹی چھوٹی روشنیاں بھی یہ سب کچھ اس دھرتی پر گرا، جو اس تباہی کے لیے تیار نہ تھی۔ آس پاس صرف آگ تھی، اور آگ کے بیچ وہ چیخیں جو اب خاموشی کی طرف لپک رہی تھیں۔
رابطہ۔پونچھ، حال گاندھی نگر جموں