ارے واہ کیا بات ہے! اپنے قلم دوات والے پہلے نئے نئے فتویٰ جاری کرنے کے لئے اس کا استعمال کرتے تھے ،کبھی سیلف رُول کی گردان کرتے ، کبھی مسلہ کشمیر کے حل کا فرمان جاری کرتے ، کبھی مفتی مفتی، سختی سختی کا وظیفہ پڑھاتے، کبھی قطبین کے ملاپ کا جوڑ سمجھاتے ، کبھی گولی نہیں بولی کا عنوان گھماتے، کبھی باجپائی کی انسانیت، جمہوریت اور کشمیریت کی گنتی یاد دلاتے۔ پر اب کی بار جو لولی لنگڑی سرکار گئی تو قلم کو بندوق کے نام پر استعمال کیا اور دوات کو آر ڈی ایکس کے طور ۔سنا ہے آنکھوں سے آنسوں لڑی جاری ہے اور بند کمروں میں مودی شاہ جوڑی کو یاد کرکے گنگناتے ہیں ؎
تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
وہ جو ہم میں تم میں قرار تھا
وہ جو الائینس کا ایجنڈا تھا
ہ جو سکورٹی کا ڈنڈا تھا
وہ جو کرسیوں کی بھرمار تھی
وہ جو اپنی مخلوط سرکار تھی
تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
وہ جو ہم میں تم میں قرار تھا
وہ جو قلم تھا دوات تھی
وہ جو راز راز کی بات تھی
وہ جو کنولوں کی حیات تھی
وہ جو دن تھے کیا رات تھی
تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
وہ جو ہم میں تم میں قرار تھا
کچھ نہ بن پایا تو نیا نعرہ مستانہ اتنی زور سے لگایا کہ سونمرگ سے سورسیار تک لوگوں کی گد گدی ہوئی اور وہ کھی کھی کرتے رہے۔نعرہ تھا دلی والو ہوشیار ہم قلمی فوج ہے تیار۔کنول والو خبر دار ہم بیج بہاڑہ کے تبر دار۔مانا کہ ہم ہیں بے یارو مدد گار بلکہ اب تو سیاسی نادار کہ ہماری پارٹی ہوگئی ناپائیدار۔ اس کی بنیادوں میں سے باندھ کے رکھنے والا سیاسی سیمنٹ کھرچتا جا رہا ہے آہستہ آہستہ۔اور جو سرکار کا جوڑ تھا وہ بس ٹوٹتا ہی جا رہا ہے لیکن اگر یہ ٹوٹ کر ہماری سیاست کو بکھیر گیا تو ساری ذمہ داری دلی دربار پر عائد ہوگی ، اور ناگپوری زعفران براہ راست ملوث سمجھا جائے گا یعنی ادھر جو قلم دوات پارٹی کا قلم ناڑا ڈالنے لائق ہی رہ گیا اور دوات کسی بھی صورت اُلٹی ادھر صلاح الدین ، یاسین ملک، ایریا کمانڈر ، ڈویژنل کمانڈر پیدا ہوں گے اور وہ کسی بھی صورت قلم دوات کا بکھرائو برداشت نہیں کر پائیں گے،یعنی پھر نہ کہنا ہمیں خبر نہ ہوئی۔خبر نہیں تو تو اریخ کا مطالعہ کرو ۔زیادہ دور بھی جانے کی ضرورت نہیں بس اسی کی دہائی میں چلے جائو جب ہم نے ہل والی نیشنل کا+ نفر+ نس لیا تھے اور گلہ شاہ کو ملک کشمیر کا پادشاہ بنا دیا۔اتنا ہی نہیں اسے چھوٹ دی کہ جتنا چاہے اپنے اہل کشمیر کی چھاتی پر مونگ دلو بلکہ اس کے لئے مدھیہ بھارت سے کوٹنے والی پولیس کا انتظام کیا ۔وہ بھی مائی کا لال نکلا ہم نے بادشاہ بنا یا ہ گلہ کرفیو بن بیٹھا کہ ہل برداروں کا ہوا پانی بند کردیا ۔ اس سے جی نہ بھرا کہ نام نہاد پادشاہ سچ مچ کا بادشاہ بن بیٹھا یعنی ہماری بلی ہم سے میائوں کرنے لگی ، اور پھر ہمیں انہی لوگوں کے ساتھ دھکم پیل کرنا پڑا جو عرصہ دراز سے ہمارے حامی بنے تھے۔گلہ کرفیو کو چلتا کیا تو نیشنل کے ساتھ ہاتھ ملائے اور ایسی ویسی الیکشن لڑی کہ ملک کشمیر کو تاراج کردیا ۔کسی کو تھانے میں پٹوایا کسی کو بندوق کے بٹوں سے مارا اور پھر وہی ہوا جس کی آج ہم دھمکی دیتے ہیں۔ اس لئے ہم ببانگ دہل اعلان کردیتے ہیں کہ ہم نے جو نعرہ لگایا تھا گولی سے نہیں بولی سے وہ بدل کر بس گولی گولی بن جائے گا ۔پھر بندوق کندھے پر سنبھالے چیف کمانڈر بانوئے کشمیر ہوگی، پیکا گن لئے ڈویژنل کمانڈرینگ مفتی ہوگا ، واکی ٹاکی پر بات کرتا اور ہدایتیں دیتا ایریا کمانڈر ماما جانی ہوگا، ضلع کمانڈر ماسا پیارا ہوگا ،یعنی جہاں کچن کیبنٹ بنی تھی وہاں’’ مفتی صابُن فوج ہَے آ ؤ‘‘ ہوگا۔مطلب سامان حرب و ضرب بھی اپنا، فوج کے سالار بھی اپنے ۔ اور بیچارے کنول بردار وں کے قدم ہی ڈگمگائے۔ڈرے ڈرے سہمے سہمے اعلان کردیا کہ ہم ایک صلاح الدین سے مقابلے کے لئے دس دس بھگت سنگھ بھیجیں گے۔بیچارے اپنے لیڈر کی مانند اَن پڑھ لوگ بھگت سنگھ کو بھکت سمجھ بیٹھے۔انہیں کیا پتہ بھگت سنگھ بائیں بازو کے خیالات کا آدمی تھا اور اسے بھکتوں کی فرقہ وارانہ اور کرسی پرستانہ سیاست سے نفرت تھی۔ اگر وہ آج زندہ ہوتا تو سب سے بڑا سنگھ پریوار کا دشمن ہوتا ، راہل گاندھی جیسا ویر سینانانی نہیں کہ ایک سانس اندر لیتے ہوئے مودی مہارا ج کی بھرپور خبر لے ،دوسری سانس چھوڑنے سے پیش تر ہی اپنی دو بٹا دو انچ چھاتی چھپن انچ چھاتی والے مودی سے ملائے اپنے بھاشن کا سارا مزا بگاڑے جیسے کسی نے مرچوں میں شہد ملائے۔ خیراِدھر دختر مفتی نے کنول برداروں کو خالی خولی دھمکی دی اُدھر اپنے ایم ایل سیوں پر غصہ اتارا۔کسی کو عہدے سے ہٹایا ،کسی کو چیتائونی دی کہ ہوش میں آئو قلم دوات آگے بڑھائو ؎
میرے ممبرو زراء یاد کر
پھر ایک بار زندہ باد کر
چلے آئو پھر بجبہاڑہ میں
پھر سے من میرا شاد کر
تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
وہ جو ہم میں تم میں قرار تھا
جب ایم ایل اے حضرات کی باری آئی تو قلم والے ہتھیار کمزور پڑ گئے کیونکہ ایم ایل ایز تو تینتیس ہزار وولٹ کے ساتھ گھومتے ہیں ، ہاتھ لگائو تو زور کا جھٹکا زور سے ہی لگے گا جب کہ ایم ایل سی حضرات تو کمزور سی بیٹری ہے، آج نہیں تو کل ڈسچارج ہوکر منہ آسمان کی طرف کرکے پانی مانگے ۔
یہ ایک دو ہفتے تو ملک کشمیر میں زور کے جھٹکوں کے ہفتے رہے۔پہلی بار کنول برداروں کو سیکر ٹریٹ میں داخلہ ملا تھا ،رد ہو گیا ، قلم والے بھی پیٹھ میں ترشول محسوس کر گئے اور اوہ آہ کرتے رہ گئے۔کرسی کی آس میں بغاوت کرنے والے توکچھ لے کچھ دے کی سانس میں دھک دھک کر تے رہے۔ دروازے پر کسی بھکاری نے دستک دی تو امت شاہ اینڈ کمپنی کا بلاوا سمجھ کر اٹھ بیٹھے ، آنکھیں ملیں لیکن سامنے کچھ نہ دکھا ۔دھیرے سے چادر پھر اوڑھ لی کہ چلو سپنے ہی میں دیدار یا ر و اقتدار کرلیں۔ ایسا ہی ایک جھٹکا ہل والے قائد ثانی پر بھی لگا ۔وہ جو مل جل کر ایک سو تیرہ کروڑ ڈکارنے کا الزام تھا اس میں جان سی آئی۔سی بی آئی نے پیسے پیسے کا حساب جوڑا جیسے گواسکر، میانداد ، پرویز رسول نے ایک ایک کرکے رن جوڑے تھے مگر قائد ثانی نے رن بنانے والوں کو پس پشت ڈال کر اپنی ہی رنگین دنیا بسائی تھی کہ عیش کرو خرچ کرو ۔ تم بھی کیا یاد کرو گے کس رئیس سے پالا پڑا تھا۔کھیل کود میں وقت کیا برباد کرنا میری طرح ہر کسی مسئلے کا حل گولف کورس میں تلاش کرو۔بی سی سی آئی کے مال سے مالا مال ہوجائو ؎
کرکٹر کھیل گئے اب ہماری باری ہے
وہ تو رن لے چکے اب اپنی تیاری ہے
ہائے جیل اور سی بی آئی کے بیچ
رو چکے ہیں سب اب ہماری باری ہے
اور اس کے چلتے ہل والے قائد ثانی کو یاد آیا کہ بھارت میں مسلم اقلیت عتاب کا شکار ہے۔یہ وہ والا بھارت نہیں رہا جس کی کلپنا ہل برداروں نے اس وقت کی تھی جب وہ حملہ آور خبر دار کا نعرہ لگاتے لکڑی کی بندوقیں کندھوں پر اُٹھائے بچہ نغمہ گاتے پھرتے تھے۔
اہل کشمیر تو کہتے ہیں گلہ وانَس گُر حوالہ(چور کے ہی ہاتھ میں گھوڑے کی لگام تھامنا)۔ہم تو سنتے آئے تھے پر سمجھ نہیں پاتے کہ ایسا کیوں اور کیسے ہو؟بھلا ہو اپنے یہاں گورنر راج کا کہ اس کا مطلب سیدھے سادھے الفاظ میں سمجھا دیا ۔ جب بڑی کرسی پر کوئی تجربہ کار بندہ بیٹھا ہو اور اوپر سے پیٹھ پر تھپکی بھی ملتی رہے کہ جیسے کہا جائے ویسے ناک کی سیدھ میں چلتے رہو۔مانا کہ آصفہ کا کیس عدالت میں زیر سماعت ہے ،مگر بیٹی مروائو بیٹی پٹائو کا نعرہ بھی جو دلوں میں گونج رہا ہے ،اس کا کچھ تو خیال کرنا ہی ہے۔لال سنگھ کو میدان میں اتارا کہ سانجھی رام اینڈ کمپنی کے بچائو میں لڑ مرو عاشقو ۔پر دفتروں میں بیٹھ کر بھی کام تو کرنا ہی ہے کہ بھکت جنوں کی مضبوط دیوار بنی رہے ۔اسی لئے تو ایف ایس ایل رپورٹ کے لفافے نے لیٹر بم کا کام کیا اور اس میں موجود رپورٹ اُڑن چھو ہو گئی۔اب کی بار تو آصفہ کا گھوڑا ہی وکیل ِبے دلیل، حامی ٔذلت و تذلیل ساہنی گلہ وان کے حوالے کردیا کہ کل تک عدالت میں کیس لڑتے تھے اب اپنے دفتر سے کام کرکے اسے داخل دفتر کرنے میں قدم بڑھائو۔یعنی کچھ بھی ہو بیٹی نہ پڑھے بیٹی نہ بچے !! .
سب کا ساتھ سب کا وکاس والا مودی نعرے بازی میں گرتا ہی جا رہا ہے کہ وکاس ہوا تو بھکتوں کا ۔ ایک بھکت نرو مودی ، دوسرا جے امت شاہ ، تیسرے لہو کے پیاسے بھکت جن ۔ان کے وکاس لسٹ میں روزبروز معصوموں کا لہو گرتا جا رہا ہے اور مرنے والوں کی فہرست میں وکاس جاری ہے۔اخلاق سے شروع ہوکر اب بتیس کا آنکڑہ پار ہوا ۔ کچھ ہاتھ نہ لگا توزعفرانی خرقہ پوش سوامی اگنوش کو ہی جا لیا ، دھما دھکا ، تھما تھپڑ لگا مکا کہہ کر سوامی کی دستار ہی گرا دی ،یعنی دلت اور مسلم تو اصل زر میں حاصل کئے سوامی کو بونس میں ہتھیا لیا۔ادھر خود مودی کو بھی وکاس کہیں نظر نہیں آتا تو لگے ہاتھوں ۲۰۱۴ کا مودی مودی نعرہ بھلا دیا اور ۲۰۱۹ ء الیکشن کے لئے مسلم مسلم مسلم کی رَٹ شروع کردی، اب کی بار مودی مہاراج کسی کام کے نہیں رہے جبھی تو یہ دلچسپ خبر عام ہو گئی کہ کرناٹک کے کسان اب مودی شاہ کٹ آئوٹ اپنے کھیتوں میں چیتھڑے پہنا کر scarecrow (کشمیری اسے کھوکہ برونٹھ کہتے ہیں)بنا کر کھڑا کرتے ہیں تاکہ پرندے ان کی فصلوں کو نقصان نہ پہنچا دیں ۔ارے واہ کیا بات ! کہ ابھی تک تو مودی شاہ کے بھکت انسانوں کو ڈرانے کا کام کرتے تھے لیکن خود اب مودی شاہ پرندے ڈرانے کے لئے استعمال ہوتے ہیں۔چلو کسانوں کی آمدنی بھلے ہی بھاجپا سرکار میں نہ بڑھی لیکن کنول بردار تو کسی نہ کسی کام آ ہی گئے۔
…………………..
(رابط[email protected]/9419009169 )