میم دانش۔سرینگر
جموں و کشمیرمیں دل کے دوروں اور خودکشی کے واقعات میں خطرناک حد تک اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔ حالیہ برسوں میں دل کے دوروں اور خودکشی کے بڑھتے ہوئے پریشان کن واقعات کا نہ تھمنے والا یہ سلسلہ تشویشناک صورتحال اختیار کر چکا ہے۔ اس کا رجحان خاص طور پر نوجوانوں، بے روزگار افراد اور یہاں تک کہ شادی شدہ لوگوں میں تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ اس کے پیچھے کئی وجوہات ہوسکتی ہیں، جن میں معاشی دباؤ، سماجی مسائل، بے روزگاری، ذہنی دباؤ اور طرز زندگی میں ہونے والی تبدیلیاں شامل ہیں۔ اگرچہ بے روزگاری، ذہنی دباؤ اور دیگر سماجی مسائل اس بحران میں اہم کردار ادا کرتے ہیں، لیکن دوائیوں کے معیار، خوراک اور انسانی روئیے کے اثرات کو بھی نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ ناقص معیار کی دوائیاں، غیر صحت بخش خوراک اور طرز زندگی میں منفی تبدیلیاں انسانی جسمانی و ذہنی صحت کو نقصان پہنچا رہی ہیں، جس کے نتیجے میں یہ مسائل مزید شدت اختیار کر رہے ہیں۔
چند دہائیاں قبل دل کے دورے زیادہ تربزرگوں میں دیکھے جاتے تھے، لیکن آج کے دور میں نوجوان بھی بڑی تعداد میں اس کا شکار ہو رہے ہیں۔ غیر صحت بخش طرز زندگی، فاسٹ فوڈ کا زیادہ استعمال، جسمانی سرگرمیوں کی کمی، تمباکو نوشی اور مسلسل ذہنی دباؤ اس مسئلے کی بنیادی وجوہات میں شامل ہیں۔ اس کے علاوہ، خراب معاشی حالات اور روزگار کی غیر یقینی صورتحال کی وجہ سے نوجوانوں میں بے چینی اور دباؤ بڑھ رہا ہے، جو ان کی قلبی صحت کے لئے خطرہ بن رہا ہے۔
جموں و کشمیر میں نوجوانوں کے لئے سب سے بڑا چیلنج بے روزگاری ہے۔ بے روزگاری کی بلند شرح مایوسی، ذہنی دباؤ اور خودکشی کے رجحان کو بڑھا رہی ہے۔ روزگار کے مواقع نہ ملنے، خوابوں کی تکمیل میں ناکامی اور معاشی دباؤ کی وجہ سے نوجوان خود کو بے بس محسوس کر رہے ہیں، جس کے نتیجے میں بعض افراد انتہائی اقدام اٹھانے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔نوجوانوں اور بے روزگار افراد کے ساتھ ساتھ شادی شدہ افراد بھی شدید مسائل کا سامنا کر رہے ہیں۔ مالی دباؤ، سماجی توقعات اور گھریلو اختلافات کی وجہ سے ذہنی دباؤ میں اضافہ ہو رہا ہے۔ کئی شادیاں مالی مسائل اور باہمی عدم تفہیم کے باعث کشیدگی کا شکار ہو رہی ہیں اور کچھ شادی شدہ افراد مایوسی اور ذہنی دباؤ کے باعث خودکشی جیسا سنگین قدم اٹھانے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔اس سلسلے میں ہندوستان کے مختلف علاقوں میں پیش آنے والے حالیہ واقعات کو مدنظر رکھا جا سکتا ہے۔خراب معاشی اور سماجی حالات نے عوام میں بے چینی اور پریشانی کو بڑھا دیا ہے۔مشاورت اور ذہنی صحت کے مراکز کی عدم دستیابی لوگوں کو مزید مشکلات میں ڈال رہی ہے۔معاشرتی توقعات، دوسروں سے موازنہ اور زیادہ سے زیادہ پیسہ کمانے کے دباؤ نے نوجوانوں کی پریشانیوں میں اضافہ کر دیا ہے۔بے شمار نوجوان اس احساس کمتری کا شکار ہو چکے ہیں کہ ان کا کوئی مستقبل نہیں، جو مایوسی اور ناامیدی کو مزید تقویت فراہم کرتی ہے۔
ایک اور سنگین مسئلہ غیر معیاری یا جعلی دوائیوں کا استعمال ہے، جو دل کی بیماریوں اور ذہنی صحت کے مسائل کے علاج پر منفی اثر ڈال سکتا ہے۔ کئی دوائیاں جو بلڈ پریشر کو کنٹرول کرنے یا دل کی بیماریوں کے علاج کے لئے تجویز کی جاتی ہیں، معیاری نہیں ہوتیں اورکبھی کھبار مؤثر بھی ثابت نہیں ہوتیں۔ بہت سے لوگ بغیر کسی طبی مشورے کے سکون آور اور ڈپریشن کے مخلف دوائیوں کا استعمال کرتے ہیں، جو جسمانی اور ذہنی طور پر خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔ دوائیوں کے معیار پر سخت کنٹرول نہ ہونے کی وجہ سے بعض غیر معیاری اور خطرناک دوائیاں آسانی سے فروخت ہو رہی ہیں، جس کے نتیجے میں لوگ غلط علاج کا شکار ہو رہے ہیں۔
دوسری طرف غیر متوازن اور غیر صحت بخش خوراک دل کے امراض اور ذہنی صحت کے مسائل کا ایک اوربڑا اسبب بنتا جارہا ہے۔ فاسٹ فوڈ اور پراسیس شدہ کھانوں میں مضر چکنائیاں، نمک اور کیمیکل شامل ہوتے ہیں، جو بلڈ پریشر، کولیسٹرول اور دل کے امراض کا باعث بنتے ہیں۔ پھل، سبزیاں، اناج اور تازہ کھانوں کی کمی کی وجہ سے جسم کو ضروری وٹامنز اور منرلز نہیں ملتے، جو دل اور دماغ کی صحت کے لئے ضروری ہوتے ہیں۔کیمیکلز اور زہریلے مادوں سے آلودہ خوراک عام لوگوں کی صحت کو بری طرح متاثر کر رہی ہے، جس سے نہ صرف جسمانی بیماریاں بلکہ ذہنی مسائل بھی پیدا ہو رہے ہیں۔
انسانی روئیے اور طرز زندگی میں آنے والی تبدیلیاں بھی دل کے دوروں اور خودکشی کے بڑھتے ہوئے رجحان میں اہم کردار ادا کر رہی ہیں۔ زندگی کی بے ترتیبی اور روزمرہ کے دباؤ لوگوں میں بے چینی اور ڈپریشن بڑھا رہی ہے، جو دل کے مسائل اور خودکشی کے رجحان میں اضافے کا ایک اور سبب بن رہا ہے۔جدید طرز زندگی اور ٹیکنالوجی کے حد سے زیادہ استعمال نے لوگوں کو ایک دوسرے سے دور کر دیا ہے، جس کی وجہ سے تنہائی اور ذہنی دباؤ بڑھ گیا ہے۔تمباکو نوشی، شراب نوشی اور منشیات کے استعمال میں اضافہ بھی نوجوانوں اور دیگر افراد میں دل اور ذہنی صحت کے مسائل کو مزید بڑھا رہا ہے۔
ایسے واقعات اور حالات کو قابو میں رکھنے کے لئے معاشرتی سطح پر شعور اجاگر کیا جانا چاہئے تاکہ لوگ ذہنی صحت کے مسائل کو سنجیدگی سے لیں ۔حکومت اور نجی شعبوں کو چاہیے کہ وہ نئے اور مستحکم روزگار کے مواقع پیدا کریں تاکہ نوجوان مایوسی اور ڈپریشن سے بچ سکیں۔ ورزش، متوازن غذا اور تمباکو اور شراب کے استعمال میں کمی سے دل کے دورے کے خطرات کم کئے جا سکتے ہیں۔ گھریلو مسائل کو کم کرنے اور تعلقات کو بہتر بنانے کے لئے مشاورتی مراکز کا قیام ضروری ہے۔حکومت کو چاہیے کہ وہ ذہنی صحت کی سہولیات کو عام کرے تاکہ لوگ کسی خوف کے بغیر مدد حاصل کر سکیں۔
جیسے اوپر ذکر کیا گیا ہے کہ جموں و کشمیر میں ایسے حالات کی روک تھام کے لئے معیاری دوائیوں، خوراک اور طرز زندگی پرخصوصی توجہ دینا ضروری ہے۔ حکومت اور متعلقہ اداروں کو چاہیے کہ وہ دوائیوں کے معیار کو بہتر بنانے کے لئے سخت اقدامات کریں اور جعلی دوائیوں کی فروخت کو روکا جائے۔ لوگوں میں صحت بخش خوراک کے بارے میں شعور اجاگر کیا جائے اور خوراک کے معیارات کو یقینی بنایا جائے۔لوگوں کو ذہنی صحت کے مسائل کے بارے میں آگاہ کیا جائے تاکہ وہ اپنی روزمرہ کی عادات میں مثبت تبدیلیاں لا سکیں۔ورزش، ذہنی دباؤ کو کنٹرول کرنے کی تکنیکیں اور مثبت سماجی تعلقات کو فروغ دینا ضروری ہے۔ ذہنی صحت کے مسائل سے نمٹنے کے لئے مشاورتی مراکز اور ماہرین نفسیات کی مدد کو عام کیا جائے۔ بہتر طبی سہولیات، متوازن خوراک اور مثبت طرز زندگی کو فروغ دے کر ان مسائل کو کم کیا جا سکتا ہے۔ اگر ان عوامل پر توجہ دی جائے تو یہ معاشرے کے لئے ایک صحت مند اور خوشحال مستقبل کی راہ ہموار کر سکتا ہے۔
[email protected]