ننھی سی ، پیاری سی اور ایک خُوبصورت گُڑیا سی ۔۔۔۔ دشا ، جو گھر میں دشابی کے نام سے پُکاری جاتی تھی ۔ پہروں اپنے معصوم اور گُلنار رخساروں کو اپنی ننھی اور ملائم ہتھیلیوں پر ٹکائے اپنے کچے اور چھوٹے سے گھر کی چھوٹی سی کھڑکی پر بیٹھی اُس کچے راستے پر اپنی نگاہیں گڑائے بیٹھی رہتی تھی ، جہاں سے کِشن گنج گاوں کے ڈاکیہ بابو کا گُزر ہوتا تھا ۔ لمبا سا ایک دُبلا پتلا آدمی تھا ۔ خاکی وردی پہنے ، مُخلص اور شریف سا ۔ نام جو بھی رہا ہو ، دشابی اسے چِٹھی بابو کے نام سے ہی پکارتی تھی ۔ وہ اکثر ایک گِھسی پٹی کھٹ کھٹ سائیکل پر سوار اُس کچے راستے پر سے نمودار ہوتا تھا جو دشابی کے کچے اور گھاس پھوس سے بنے چھوٹے سے گھر کی بغل سے گزرتا ہوا دُور آگے تک نکل کر جاتا تھا ۔ اس گِھسی پٹی سائیکل کی کھٹ کھٹ دُور سےسُنائی دیتی تھی ، جبھی بیچ بیچ میں اس کھٹ کھٹ سائیکل کی زنگ آلود گھنٹی بھی بجتی تھی ۔ لگتا تھا جیسے گھنٹی کا دمہ ہوگیا ہو ، گھنٹی بُری طرح سے کھانس رہی ہو اور اپنی آخری سانسیں گِن رہی ہو ۔ انگریز دور کی" ہرکیولس " برانڈ کی ایک پُرانی سائیکل تھی جو اب اپنی عُمر کے آخری پڑاو پر تھی مگر تھی کہ اب تک بھاگے جارہی تھی ۔ ٹرن ۔۔۔۔ ٹرررن ۔۔۔ ٹرررن ۔۔۔ کی آواز کے ساتھ جوں ہی یہ سائیکل دشابی کے گھر کے نُزدیک ٹیڑھی میڑھی کچی ڈگر پر سے گُزرتی تھی ، دشابی جھٹ سے کھڑی ہوکر اپنی جگہ چھوڑتی ہوئی اپنی ماتا شری کو زور زور سے پکارتی تھی ۔
" رادھیکے ماتے ۔۔۔۔ رادھیکے ماتے ۔۔۔۔ ذرا سنو تو۔ " وہ چیخنے چلانے لگتی تھی ۔
" کیا ہے۔ دشابی ۔۔۔۔۔۔ ۔؟" اچانک گھر کے کسی گوشے سے دشابی کی ماتا رادھیکا کی آواز اُبھرتی تھی ۔
" ماااااااں ۔۔۔۔۔۔ دیکھو تو ۔۔۔۔۔۔۔ چِٹھی بابو آئے ہیں ۔" وہ جیسے خوشی سے پھولے نہیں سماتی تھی اور اُچھلتی کودتی گھر سے باہر آکر ڈاکیہ بابو کے پیچھے پیچھے بھاگنے لگتی تھی ۔
" چٹھی بابو ۔۔۔۔ اے چِٹھی بابو ۔۔۔۔۔ سنو تو ۔۔۔۔۔۔۔" وہ ڈاکیہ بابو کو زور زور سے پُکارتی تھی ۔ " باپو کی چِٹھی آئی ہے کیا ۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔؟" وہ چِلا چِلا کر پوچھتی تھی ۔
" نہیں مُنیا ۔۔۔۔۔ نہیں آئی ہے ۔۔۔۔۔۔ ۔"
ڈاکیہ بابو سائیکل پر سوار ہانک لگاتا ہوا آگے نِکل کر جاتا تھا جبھی معصوم دِشابی مایوس ہوکر اپنا سر تھامتی ہوئی نیچے زمین پر بیٹھ جاتی تھی ، بے چین ، مغموم اور پریشان سی۔۔۔۔ وہ ڈاکیہ بابو کو جاتے ہوئے تب تک دیکھتی تھی کہ جب تک نہ وہ اور اس کی سائیکل نظروں سے اوجھل ہوجاتی ۔ دِشا کی ماتا رادھیکا گھر کے دروازے پر اِستادہ پریشان حال یہ سب دیکھتی تھی ، جبھی اس کی نگاہِ تر کے سامنے سے اپنے شوہر دھنپت لال کا دھندلا دھندلا سا چہرہ گھوم جاتا تھا ۔ وہ بڑی افسردہ ہوتی تھی ۔ اس کا کلیجہ منہ کو آتا تھا ۔ وہ تڑپتی ہوئی شکست حال سی ہوجاتی تھی اور اس کی آنکھوں سے آنسو کا تارِ باراں شروع ہوجاتا تھا ۔
فرہنگی دور تھا ، دوسری جنگ عظیم جاری تھی ، آتش و آہن کا کھیل شروع ہوچکا تھا۔ گولیوں کی گھن گرج سے ماحول پراگندہ تھا ۔ ہر دانگ توپیں آگ اُگل رہی تھیں ۔ آسمان میں اُڑتے بے شمار جنگی طیارے شعلے برسا رہے تھے ۔ فضا گہرے دھویں اور بارود کی بدبو سے آلودہ تھی ۔ دور دور تک پھیلا ہوا گہرا اور کثیف دھواں خلا کو داغدار کر رہا تھا ۔ لوگ مر رہے تھے ، لاشیں تھیں کہ ڈھیروں ہر سُو بکھری ہوئیں عفونت پھیلا رہی تھیں ۔ لاشیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہر طرح کی ، انسانوں کی، جانوروں کی ، پرندوں کی ، سب سے بڑھکر یہ کہ ، انسانیت کی ۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک روز انگریز فوج اور پولیس کی ایک ٹکڑی دندناتے ہوئے کِشن گڑھ گاوں میں داخل ہوگئی ۔ گاوں کے مکھیا کو طلب کیا اور پھر گاوں کے جوانوں کو جمع کرکے بیگار کےلئے اپنے ساتھ لے کر گئی ۔ ان دنوں بیگار عام تھی ۔ فرہنگی فوج اور پولیس ہندوستانی جوانوں کو زبردستی بیگار کےلئے لے کر جاتی تھی اور سات سمندر پار انہیں میدانِ جنگ کے محاذ پر بھیجتی تھی۔ ان سے بیگار کا کام لیتی تھی اور جبری محنت مشقت کرواتی تھی ۔ تھوڑا بہت معاوضہ بھی دیتی تھی ، مگر ان جوانوں کی جان کے لالے پڑ جاتے تھے ۔ عالمی جنگ چونکہ عروج پر تھی ، سو ان جوانوں کی صحیح سلامت گھر واپسی کا کوئی بھروسہ بھی نہیں تھا ۔ یہ صحیح سلامت واپسی کا لفظ ایک ایسا سوالیہ نشان تھا کہ جس کا کسی کے پاس کوئی جواب نہیں تھا ۔ بس دعائیں تھیں کہ دعاؤں پر ہی اکتفا ہوتا تھا ۔
اُس دن ننھی معصوم گڑیا دشابی ، میجر مائیکل کے پائوں پڑی تھی ۔ گڑگڑائی تھی ، زار و قطار روئی تھی اور اپنے پِتا دھنپت لال کی رہائی کی دہائی دینے لگی تھی ، جسے فرہنگی فوج گائوں کے دیگر بیس بائیس جوانوں کے ساتھ بیگار کےلئے لے کر جارہی تھی ۔
" میرے باپو کو چھوڑ دو ۔ پلیز میرے باپو کو چھوڑ دو ۔ " وہ اپنے ننھے سے ملائم خوبصورت ہاتھ جوڑے التجا کررہی تھی۔ جبھی میجر مائیکل ڈیسوزا تنگ آکر کرخت لہجے میں دہاڑا تھا۔ " ارے اس بچہ کو ہٹاو یہاں سے ۔" میجر مائیکل نے تحکمانہ لہجے میں گائوں کے ان پڑھ مُکھیا کالے رام کو مُخاطب کیا تھا ۔ " جی شرکا ااااار ۔۔. ۔" کالے رام نے نسوار کی ایک گندی سی پچکاری زمین پر مارتے ہوئے جواب دیا تھا اور دشابی کو پکڑنے کی کوشش کرتے ہوئے اسے پرے کرنے کی کوشش کی تھی ، جبھی دشابی اسے ج‘ل دے کر نکل بھاگتی ہوئی میجر مائیکل کی طرف بھاگی تھی اور اس کی ٹانگوں سے لپٹ پڑی تھی ۔
" میرے باپو کو چھوڑو شاب ۔۔ میرے باپو کو چھوڑدو۔ " دشابی گِڑگِڑانے لگی تھی۔
" اری جااااو ۔۔۔۔۔۔۔ ۔" مائیکل ڈیسوزا پھر دہاڑتا ہوا اپنی ٹانگیں چھڑانے کی کوشش کرنے لگا تھا ۔
" نہیں جاتی ۔۔۔۔۔ پہلے میرے باپو کو چھوڑ دو ۔" دشابی نے کہتے ہوئے میجر ڈیسوزا کی ٹانگوں کو اور زور سے کس کر پکڑ لیا تھا ۔
قریب ہی کھڑی ایک فوجی گاڑی میں سوار دشابی کا باپ دھنپت لال پھٹی پھٹی آنکھوں سے یہ سب دیکھ رہا تھا ۔ دشابی میجر مائیکل کی ٹانگیں پکڑے گِڑگِڑا رہی تھی ، منتیں کر رہی تھی ، آہ و زاری کررہی تھی ۔ قریب ہی اس کی ماں رادھیکا دیوی مبہوت سی کھڑی اپنے ہاتھ مل رہی تھی ۔ دھنپت لال گاڑی میں بیٹھا یہ دلسوز منظر دیکھ کر انگاروں پر لوٹ رہا تھا ، تڑپ رہا تھا اور بل کھا رہا تھا ، جبھی کرنل ڈیسوزا نے اپنی مضبوط ٹانگوں کو اس زور سے جھٹکا کہ ننھی دشابی دور جاکر گری۔
" پِتا جی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔" وہ اتنی زور سے چیخی کہ سارا قرب وجوار ہِل گیا ۔ بڑی دردناک آواز تھی جو طرفتُہ العین ہر دانگ پھیل گئی ۔ گاڑی میں بیٹھے دھنپت لال کی آنکھوں کے سامنے اندھیرا سا چھا گیا ۔ درد و کرب کی ایک شدید سی لہر اس کے پورے جسم میں دوڑ گئی ۔ اچانک وہ لال بھبوکا ہوگیا اور اس کی آنکھوں میں خون اُتر آیا ۔
" اے ۔۔۔ ے ۔۔۔۔۔۔۔۔ ے ۔۔۔ے۔۔ ۔" وہ ایک بپھرے ہوئے شیر کی طرح دہاڑا اور فوجی گاڑی سے کودتا ہوا بڑی تیزی سے دشابی کی طرف دوڑنے لگا ۔ دھنپت لال کی " اے ۔۔۔۔۔ ے ۔۔۔۔۔۔۔ے۔۔۔۔ ۔" کی یہ کربناک کریہہ الصوت آواز کافی دیر تک صدائے بازگشت بن کر پورے قرب و جوار میں گونجتی رہی ۔ پوری فضا جیسے لرز اُٹھی ۔ خود میجر مائیکل اور اس کے ساتھی بھی جیسے لرز گئے ۔ وہ سراسیمگی کے عالم میں دھنپت لال کو دیکھنے لگے۔ دھنپت نے دشابی کے قریب پہنچنے میں کوئی دیر نہیں لگائی ۔ اس نے قریب پہنچتے ہی دشابی کو اپنی مضبوط باہوں میں اُٹھا لیا اور دیوانہ وار اسے بوسے دینے لگا ۔ جبھی رادھیکا بھی اس کے قریب آگئی ۔
" میری بچی ۔۔۔۔۔ میری جان ۔۔۔۔۔ کیوں گھبراتی ہو۔۔۔۔ ۔" دھنپت اسے بوسے دیتا ہوا اس کے شانے تھپتھپانے لگا ۔
" پِتا جی ۔۔۔۔۔ ۔" دشابی بے بس اور خوفزدہ سی سسکتی ہوئی دھنپت لال کو اپنے ننھے لبوں سے چومنے لگی ۔
" اری پگلی ۔۔۔۔۔ میں بہت جلد لوٹ کر آؤں گا ۔" دلاسہ دیتے ہوئے دھنپت نے اسے ڈھیر سارا پیار دیا اور اسے پاس کھڑی رادھیکا کو سونپ دیا ۔
" رادھیکا کی آنکھوں میں آنسوؤں کا سیلاب دیکھ کر دھنپت نے مُسکرانے کی ایک ناکام سعی کی اور اسے تسلی و تشفی دینے لگا جبھی اس کی اپنی مغموم آنکھوں سے بھی دو گرم گرم آنسو اُمڈ پڑے ۔ " غلام ہیں ۔ کیا کریں ۔؟" وہ دھیرے سے بڑبرایا ، اور رادھیکا سے مخاطب ہوا ۔
" اپنا اور دشابی کا خیال رکھنا ۔" وہ ایک سرد آہ بھر کر بولا اور اپنے آنسو اور درد سمیٹتا ہوا واپس گاڑی کی طرف مُڑگیا۔ " چلئیے میجر صاحب ۔" وہ ایک ہارے ہوئے جواری کی طرح بولا اور میجر کو بڑی حقارت سے گھورتا ہوا تیز تیز قدم اُٹھاتا ہوا گاڑی کی طرف بڑھنے لگا ۔
مہینوں گزر گئے ، دھنپت کا کچھ پتہ نہیں چلا ۔ چٹھی نہ خبر ۔ کہاں گیا خدا معلوم ۔ پھر چار مہینے کےطویل انتظار کے بعد ہی دھنپت کی پہلی چِٹھی ملی ، پتہ چلا کہ انہیں گاوں کے چند دیگر ساتھیوں کے ہمراہ سات سمندر پار دوسری عالمی جنگ کے ایک محاذ پر بھیجا گیا ہے ۔ ایک مختصر سی چِٹھی تھی ۔ اچھے ہیں ، خیریت سے ہیں ، وغیرہ وغیرہ ۔۔۔۔۔ اس کے بعد چِٹھی ندارد ۔ کوئی خط نہیں، کوئی خبر نہیں ۔ اب تو چھٹا مہینہ تھا اور ہنوذ خط وخبر نیست ۔ رادھیکا اور دشابی کا کرب ، بیچینیاں اور اضطراب بڑھتا ہی چلا گیا ، کب دھنپت کی کوئی چِھٹی آئے اور اِن کی خیر و خبر کا کچھ پتہ چلے ، دونوں من ہی من کُڑھتی رہیں ۔ رادھیکا ، دشابی کو لے کر بہت پریشان تھی جو پیہم اور پہروں گم صم اپنی گھاس پھوس والی چھت کے کچے مکان کی چھوٹی سی کھڑکی پر اپنے معصوم اور خوبصورت رخسار کو اپنی نرم و ملائم ہتھیلیوں پر ٹکائے اس کچے راستے پر اپنی نگاہیں گڑائے بیٹھتی تھی جہاں سے اکثر و بیشتر چِٹھی بابو کا گزر ہوتا تھا ۔ اس اُمید کے ساتھ کہ کب چِٹھی بابو کے سائیکل کی گھنٹی کی ٹرن ۔۔۔۔۔۔ ٹرررن ۔۔۔۔۔۔۔ ٹرررن ۔۔۔۔۔۔۔ ہوجائے اور باپو کی کوئی چھٹی یا خبر آئے ۔
" باپو آپ چِٹھی کیوں نہیں بھیجتے ؟ دیکھو میں اور رادھیکے ماں کتنی پریشان ہیں ، چِٹھی بھیجو نا ۔ ہمیں اور کچھ نہیں چاہئے ، بس ایک چِٹھی ۔۔۔۔ ۔" وہ کھڑکی پر بیٹھی من ہی من بُڑبڑاتی ، جبھی اس کی چھوٹی چھوٹی آنکھیں ڈبڈبا تیں اور ٹپ ٹپ آنسو گرنا شروع ہوجاتے ۔
رادھیکا ٹوہ لگائے یہ سب دیکھتی ، تو انگاروں پر لوٹتی تھی ۔ وہ ایک ہوک سے ہمکنار ہوتی تھی ۔ اس کے پورے جسم میں درد و کرب کی ایک درد انگیز لہر سرائیت کر جاتی تھی ۔ وہ ماہی بے آب کی طرح تڑپتی تھی ۔ " ہے ۔۔۔۔۔ بھگوان۔۔۔۔ ۔" وہ ایک لمبی سی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سرد آہ کھینچتی ہوئی اپنے آنسو خشک کرتی تھی اور دشابی کے قریب جاکر اسے اپنی گود میں اُٹھاتی تھی ۔ ننھی سی دشابی کے لبوں پر بوسوں کی بارش کرتی اور اسے دیوانہ وار چومنے لگتی تھی ، جبھی صبر کا باندھ ٹوٹ جاتا تھا اور ماں بیٹی کی آنکھوں سے آنسووں کی رم جھم کا مینہہ برسنا شروع ہوجاتا تھا ۔
مطلع صُبح سے ابر آلود تھا ، آسمان گھنے ، گہرے اور سیاہ بادلوں سے ڈھکا ہوا تھا ۔ سیاہ بادلوں کے روئی جیسے بڑے بڑے بڑے وشال گالے ، کالے ناگوں کی طرح کنڈلی مار کر جیسے سورج کو اپنے حصار میں جکڑے ہوئے تھے ۔ سورج کو جیسے گرہن لگ چکا تھا ۔ کِشن گڑھ کی پوری بستی مانو سیاہ دُھند اور کُہرے میں ڈوبی ہوئی تھی ۔ ٹرن ۔۔۔۔۔۔۔ ٹرررن ۔۔۔۔۔۔۔۔ ٹرررن ۔۔۔۔۔۔ کی آواز کے ساتھ ہی کھڑکی پر بیٹھی دشابی اچانک چونک پڑی ۔ اس کے کان کھڑے ہوگئے اور وہ چوکنی ہوگئی ۔ ٹرن۔۔۔۔۔۔ ٹرررن ۔۔۔۔۔۔ ٹرررن ۔۔۔۔ کی یہ آواز دُور سے آرہی تھی مگر اب بتدریج نزدیک ہوتی جارہی تھی ۔ " چِٹھی بابو۔۔۔" وہ بڑبڑائی اور خوش ہوتی ہوئی آواز کی سمت دیکھتی رہی ۔ جبھی ڈاکیہ بابو کے کھٹ کھٹ سائیکل پر نظر پڑتے ہی وہ زور سے چلائی ۔
" رادھیکے ماں ۔۔۔۔۔۔ جلدی سے آجائو ۔۔۔۔۔ آجائو۔۔۔ ۔ " وہ پیہم ڈاکیہ بابو کی سائیکل پر نگاہیں گڑائے اپنی ماں کو پکارنے لگی ، ایسے جیسے نگاہ ہٹتے ہی کہیں ڈاکیہ بابو اور اس کی سائیکل غائب نہ ہوجائے ۔
" کیا ۔۔۔۔۔ ہے ۔۔۔ ؟" جبھی رسوئی گھر سے ماں کی ایک لمبی سی " کیا ہے ۔۔۔۔ ۔" کی ہانک سنائی دی ۔
" اری چِٹھی بابو ۔۔۔۔۔۔۔ ۔" دشابی پھر چیخی ، جبھی دشابی نے دیکھا ، ڈاکیہ بابو سائیکل پر سوار ٹرررن ۔۔۔ ٹرررن۔۔۔ ٹرررن کرتا ہوا ان کے گھر کی طرف ہی آرہا تھا۔
" اری وہ ادھر ہی آرہا ہے ۔" اچانک وہ فرطِ انبساط سے چیختی چلاتی ہوئی گھر سے باہر آنے لگی ۔ جبھی رادھیکا بھی اُفتاں و خیزاں اس کے پیچھے پیچھے بھاگتی ہوئی گھر کے آنگن میں چلی آئی ۔ اس دوران ڈاکیہ بابو بھی اپنی سائیکل لے کر گھر کےآنگن میں چلا آیا ۔
"رام رام رادھیکا بہن ۔" ڈاکیہ بابو نے سلام کیا ۔
" رام رام کاکا ۔۔۔۔۔ ۔" رادھیکا اپنی ساڑھی کا پلو درُست کرتی ہوئی جوابی ہوئی ۔
" چِٹھی آئی ہے نا کاکا ۔۔۔۔۔۔۔ ۔؟ " دشابی بیچ میں جلدی سے بولی ۔ وہ بڑی اُتاولی نظر آرہی تھی ۔ اُمید بھری نظروں سے ڈاکیہ بابو کی طرف دیکھ رہی تھی جو اپنے کندھے میں لٹکے ہوے بیگ سے چھٹیوں کا ایک پلندہ نکال رہا تھا اور اب اس میں کچھ کھوج رہا تھا ۔
" چِٹھی آئی ہے نا کاکا ۔۔۔۔۔ ۔؟" اس بار پریشان حال رادھیکا اُس سے مخاطب ہوئی ۔
" چِٹھی نہیں ، تار آیا ہے رادھیکا بہن ۔" ڈاکیہ بابو ڈاک کے پلندے سے ایک تار نکالتا ہوا اور اسے رادھیکا کو تھماتے ہوئے بولا ۔ " سرکاری تار ہے رادھیکا بہن۔"
" تاااااااار ۔" بیچ میں ننھی دشابی بولی " یہ تار کیا ہوتا ہے؟" وہ سوال کر بیٹھی اور پریشان سی کچھ سوچنے لگی ۔
" ٹیلیگرام بیٹی ۔۔۔۔۔ ۔" ڈاکیہ بابو نے دشابی کے سر پر اپنا ہاتھ پھیرتے ہوئے جواب دیا ۔
" اووو ۔۔۔۔۔ ٹیلیگرام ۔۔۔۔۔۔ ۔" رادھیکا ٹیلیگرام کو اُلٹ پلٹ کر دیکھنے لگی ، پھر پریشان ہوتی ہوئی ، اسے ڈاکیہ بابو کی طرف بڑھاتی ہوئی بولی ۔ " کاکا پڑھ کر سُناو ۔"
کاکا نے ٹیلیگرام لیتے ہوئے اسے کھول کر ایک نگاہ دیکھا ، جبھی اچانک اس کے چہرے کا رنگ فق ہوگیا ۔ اس کے ہاتھ کانپنے لگے ۔ اس نے دونوں ماں بیٹی کو ایک نگاہ دیکھا۔ کیا بولے ۔ وہ خاصا گھبرا گیا اور مخمصے میں پڑ گیا ۔ کاکا کی اچانک یہ حالت دیکھ کر رادھیکا بھانپ گئی کہ خبر اچھی نہیں ہے ۔ اچانک اس کی سانسیں اٹک گئیں ۔ پیروں تلے کی زمین جیسے سرک گئی ۔ چہرے پر ہوائیاں اُڑنے لگیں ۔ وہ مری مری اور پھنسی پھنسی سی آواز میں بولی " کاکا کیا لکھا ہے ۔؟
" رادھیکا بہن ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔" ڈاکیہ بابو نے کچھ کہنا چاہا جبھی اُس کی زبان لڑکھڑائی ۔ اُس نے گھبرائی ہوئی نگاہ سے ننھی معصوم دشابی کی طرف دیکھا جو گم صم اِستفہامیہ انداز میں باری باری رادھیکا اور ڈاکیہ بابو کے چہرے تک رہی تھی ، ایسے ، جیسے کچھ پڑھنے کی کوشش کر رہی ہو ۔
" رادھیکے مااااااا ۔۔۔۔۔۔ ں ۔۔۔۔۔ ۔" اچانک وہ اس زور سے چیخی کہ سارا قرب و جوار ہل گیا ۔ کربناک چیخ تھی ، جس نے ہر دانگ ایک ارتعاش پیدا کیا اور پورے ماحول کو پراگندہ کردیا ۔ تبھی تھر تھر کانپتی ہوئی رادھیکا نے " میری بچی ۔۔۔۔۔ ۔" کہتے ہوئے اسے اپنے سینے سے لگایا اور اسے بڑی مضبوطی سے اپنے سینے سے پیوست کردیا ۔ جبھی چیخ و پکار اور آہ و فغاں کا وہ سلسلہ شروع ہوگیا کہ زمین تھرا گئی اور آسمان ہل گیا ۔ دونوں ماں بیٹی نے آسمان سر پر اُٹھایا ۔ وہ بلک بلک کر رونے لگیں ۔ پاس کھڑے ڈاکیہ بابو نے ماں بیٹی کی حالت کو دیکھا تو تڑپ اُٹھا ۔ ایک لمبی آہ کھینچتے ہوئے اس نے آسمان کی طرف دیکھا ، آسماں جیسے اشکبار تھا اور خون کے آنسو رو رہا تھا ۔ خود اس کی آنکھوں سے بھی آنسوؤں کا ایک سیلاب سا رواں تھا جو اس کے خشک اور کھُردرے رخساروں کو تر کرتا ہوا اب اس کے دامن تک آرہا تھا ۔
���
فرینڈس اینکلیو نیو ائیر پورٹ
سری نگر کشمیر ،موبائل نمبر؛9622900678