میں اپنی سابق گزارشات کے ساتھ سلسلہ جوڑتے ہوئے عرض کرنا چاہوں گا کہ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ دنیا کے لگ بھگ تمام غیر مسلموں کو مسلمانوں کے ساتھ ہی یہ بغُض و عناد اور شدید عداوت و نفرت کیوں ہے ،جس کے باعث انہوں نے مسلمانوں کے ساتھ باقاعدہ اور کھلم کھلا جنگ چھیڑ رکھی ہے ؟؟؟اس کی صرف دو وجوہات سمجھ میں آتی ہیں ۔ایک وجہ وہ قدرتی وسائل ہیں جن میں سے بیشتر اور اہم افادیت کے حامل معدنیات مسلمان ممالک کے پاس ہیں، جن پر وہ بلا شرکت غیرے یا بہ الفاظ دیگر غاصبانہ قبضہ کرکے مسلمانوں کو تہی دست اور اپنے آپ کو مضبوط اور خود کفیل بنانا چاہتے ہیں۔حالانکہ اُس کی شروعات بہت پہلے سے ہوچکی ہے ۔ موجودہ وقتوں میں عراقؔاور قطرؔ سے ورلڈ پولیس مین مفت میں ہی ان ممالک کی دولت بہ شکل تیل اور گیس وغیرہ دو دو ہاتھوں سے لوٹ رہا ہے اور کچھ عرصہ قبل عراقؔ پر ظلم و زبردستی کا ہل چلاکر نہ صرف ملک کو کھنڈرات میں تبدیل کیا بلکہ تیل کے ذخائر پر اپنی اجارہ داری قائم کی ،ساتھ ہی اُن عجائب گھروں کو بھی ورلڈ پولیس مین کی فوج نے لوٹا جن میں تہذیبی وراثت محفوظ تھی بلکہ دنیا کے اولین رسم الخط پر مبنی وہ تختیاں (Tablets)بھی تھیں جو انسان کا دنیا میںپہلی تحریر ات کی نمونہ مانی جاتی تھیں ۔
دوسری وجہ اس کدورت ،جس میں ڈر اور تشویش بھی شامل ہے ،کی وہ عالمی برادری ہے جس میں شاہ و گدا ،عربی وعجمی ،ہندی و چینی ،غلام و آقا اور گورے کالے کی تمیز مٹ جاتی ہے اور سب ایک ہی صف میں کھڑے ہوجاتے ہیں ،نہ کوئی غلام ہی رہتا ہے نہ مالک،امیر نہ غریب ،کوئی بندہ رہتا ہے اور نہ کوئی بندہ نواز،سب ذاتِ واحد جلہ شانہ کے سامنے ادنیٰ بندے بن کر اپنا سر اُسی کے حضور میں جھکاتے ہیں۔دین اسلام کی اسی روا داری اور سادگی سے متاثر ہوکر سارے یورپ میں جو غیر مسلم موجودہ وقتوں میں مشرف بہ اسلام ہورہے ہیں ،وہ بات فری میسن نظریے کے لوگ کیسے گوارہ کرسکتے ہیں ؟اسی لئے اسلام کی یہ اجتماعیت اور اُخوت اغیار کے لئے سوہانِ روح بنی ہوئی ہے کیونکہ خود اُن کے ہاں بشری حقوق کی علم براداری کا دعویٰ ہے مگر دنیا میں سب سے زیادہ خون خرابہ اور وہ بھی خصوصاًمسلمانوں کا، وہی کرتے پھرتے ہیں اور کراتے بھی ہیں ۔اُن کے ہاں گوروں اور کالوں کے چرچ الگ الگ ہیں ۔نسلی امتیاز وتفریق سے اجتناب گرچہ اُن کا دعویٰ ہے مگر اکثر دیکھا گیا ہے کہ ایک کمزور یا اقلیتی فرقہ اُن سے بلا شبہ دستِ تطاول کا شکار بن جاتا ہے ۔خالی امریکہ میں بوئیر وار کتنے عرصے تک چلتی رہی ۔جو امریکہ کے اصلی باشندے تھے جن کو پہلی بار کسی غیر ملکی نے سن 1492میں یعنی کولمبس نے دیکھ کر ہندوستانی سمجھ کر ریڈ انڈین کہا تھا، اُن کوامریکہ کی سرزمین پر ناجائز قبضہ کرنے والے سرغنوں ،ڈاکوئوں اور مفرور قاتلوں نے چُن چُن کر کھدیڑ ڈالا ۔زیادہ عرصہ نہیں گذرا یہی یورپ کے لوگ ’’غلاموں کے سوداگر ‘‘کے نام سے بھی مشہور تھے۔وہ براعظم افریقہ کے مختلف علاقوں سے غریب ،پس ماندہ اور غیر متمدن لوگوں کو بحری جہازوں میں بھر بھر کر لاتے ۔اُن پر بے انتہا ظلم و بربریت اور غیر انسانی سلوک کرتے ،ڈنگروں سے بھی بدتر حالت میں لاکر غلاموں کی منڈیوں میں بیچا کرتے تھے ۔یہ مفت کا منافع بخش کاروبار قصۂ پارینہ نہیں بلکہ ماضیٔ قریب کی بات ہے۔
بھارت میں جو دلت برادری کا حال ہے اور اُن کے ساتھ آئے دن جو غیرانسانی سلوک ہوتا رہتا ہے وہ عام طور پر مشاہدے میں تو آتا ہی رہتا ہے اور ماضی میں بھی وہ کس کرب و بلا سے گذر کر آج تک زندہ رہے ہیں،وہ بھی اظہر من الشمس ہے ۔ کنویں یا نل پر پانی بھر نے،راہ چلنے ،باہمی اختلاط ،سماجی حیثیت کے علاوہ اُس کے لئے ہندوئوں کی مذہبی کتابیں ویدا کا مطالعہ خواب و خیال والی باتیں ہیں۔اُس کو وید کے شبد و شلوک سننے کی اجازت نہیں ہے ،رٹنے کی تو بات ہی نہیں ۔زیادہ عرصہ نہیں گزرا جب اُن دلتوں کے کانوں میں پگھلا ہوا سیسہ ڈالا گیا جنہوں نے مندروں کے باہر سے وید کے الفاظ سن لئے تھے اور ایسی زبانوں کی قاشیں (Sliced)کی گئیں ،جنہوں نے وید کے الفاظ کسی بھی صورت میں رٹ لئے تھے ۔پیشوائوں کے راج میں سارے مہاراشٹر میں ان دلتوں کی حالت حد سے زیادہ تکلیف دہ اور شرمناک بنی ہوئی تھی،سرکاری حکم کے مطابق ایک دلت اگر اپنے گھر سے باہر نکلتا تو اُس کے جسم کے ساتھ پیچھے کی طرف سے ایک جھاڑو بندھا ہوتا تھا جو آگے چلنے والے کے پیچھے سے اُس کے نقش پا کو مٹاتا جاتا تھا جو چلنے والے نے ڈالے ہوتے اور اُن کی گردن میں مٹی کا ایک کوزہ یا برتن لٹکا رہتا تھا تاکہ اگر وہ تھوکے تو اُسی برتن میں تھوکے کیونکہ برہمن واد کے مطابق دلتوں کے چلنے اور تھوکنے سے پاک دھرتی ماتا اَپوتر (گندی)ہوجاتی ہے ۔واہ کیا بات ہے گویا ’’یہ صدیوں کا قصہ ہے دو چار برس کی بات نہیں‘‘۔
مسلمانوں کی حالت تو اور بھی زیادہ ناگفتہ بہ ہے ۔اُسے پائوں جمانے کی کسی بھی صورت میں اجازت نہیں ہے ۔اُس کا کاروبار جمتا ہے تو آگ لگواکر اُسے پھر زیر و لیول پر لایا جاتا ہے ۔جو آگے ہی جما ہوا تھا اُس کو مسلمانوں کے ہاتھ میں رہنے نہیں دیا گیا اور منتقلی یا چھیننے کے لئے بھی شیطانی ہتھکنڈے اپنائے گئے۔معمولی باتوں پر یا بغیر کسی اشتعال کے ،بغیرکسی قصور کے بھی اُسے دن دھاڑے قتل کیا جاتا ہے ،زندہ جلایا جاتا ہے ،بستیوں پر یلغار کرکے اُسے خاک کے ڈھیر میں تبدیل کیا جاتا ہے اور مستورات کی بے حرمتی کی جاتی ہے ۔سب سے بڑی ٹریجڈی تو یہ ہے کہ اُسے حملہ آور اورغیر ملکی کہہ کر اُس کی وفاداری پر ہر وقت حرف لایا جاتا ہے ۔مشہور فلمی اداکار یوسف خان المعروف دلیپ کمار نے ایک بار لکھا تھا کہ اُس کے گھر کے شیشے تقریباًہر سال چکنا چور کئے جاتے ہیں کیونکہ اُسے ہر بار بلکہ بار بار اپنی وفاداری کی تجدید کرانا پڑتی ہے ۔اس سلسلہ میں جب انہوں نے سابقہ پرائم منسٹر باجپائی سے بذات ِخود دہلی آکر شکایت کی تو انہوں نے کوئی توجہ نہ کی۔اُن کی بات کو ایک کان سے سن کر دوسرے کان سے نکال دیا ۔اس لئے شکایت کنندہ کو بہت مایوس ہوکر واپس ممبئی لوٹنا پڑا ۔برہمن واد نے ہندوستانی مسلمانوں کو دوسرے تیسرے درجے کا نہیں بلکہ ایک گھٹیا ترین درجے کا ناگرک بناکر چھوڑا ہے ۔مشہور شاعر اخلاق ؔسہسوانی سچ فرماگئے ہیں ؎
شہر میں اخلاق اب یہ کوئی کہہ سکتا نہیں
آگ کے شعلوں کی زد سے میرا گھر محفوظ ہے
نوٹ : بقیہ اگلے ہفتہ ملاخطہ کریں ۔ان شا ء اللہ
………………………………..
رابطہ:- پوسٹ باکس :691جی پی او سرینگر-190001،کشمیر،
موبائل نمبر:-9419475995