ابھی سگریٹ کے دو ایک کش ہی لیے تھے کہ کھڑکی سے نظریں اس چنار پہ تھم گئیں جس کے ساتھ بشیر میاں ٹیک لگائے تھکا ماندہ اور افسردہ بیٹھا تھا۔ اس کی مایوس نظریں سامنے جھونپڑی پر ٹکی ہوئی تھیں۔ اس جھونپڑی سے اس کو بہت محبت اورعقیدت تھی لیکن چند ہی پل میں سگریٹ کے دھویں کی طرح اس نے اس کی ایک قیمتی چیز ہوا میں اڑا دی جو کبھی بھی قید نہیں ہوسکتی۔ جھونپڑی سے کوئی آواز بھی نہیں آ رہی تھی۔ وہاں سکوت چھایا ہوا تھا۔ ایسا بھی محسوس نہیں ہوتا تھا کہ اس میں کوئی ہے بھی یا نہیں۔ صرف اگر بتیوں کا دھواں ٹوٹے ہوئے دروازے سے باہر آ رہا تھا ،جس نے آس پڑوس کو معطر کیا تھا۔بشیر میاں کو صرف دھواں محسوس ہو رہا تھا جو اس کے جلتے ہوئے دل سے بھی اٹھ رہا تھا۔
بشیر میاں گاؤں کا ایک شریف ترین مزدور تھا۔ لوگ اُسے بڑی عزت کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ اس کی بیوی بہت پہلے انتقال کر چکی تھی مگر ایک بیٹی پیچھے چھوڑگئی تھی۔ بشیر میاں کی بس ایک پریشانی تھی وہ اس کی اکلوتی اور جوان بیٹی نیلوفر۔ دن رات اسی کے متعلق سوچتا رہتا۔ کوئی اس کے در پہ دستک بھی نہیں دیتا۔ دو ایک تو آئے تھے لیکن فرمائشوں کا پہاڑ بشیر میاں پر تھوپ کر چلے گئے۔اس کی پریشانیاں بڑھتی ہی جا رہی تھیں۔
اب اسے ایک ہی راستہ نظر آ رہا تھا وہ ہے حبہ بب۔ بب ایک چھوٹی سی جھونپڑی میں رہتا تھا ، جہاں حاجت مند جا کر اپنی مرادیں پا لیتے۔ گاؤں کے کچھ لڑکے لڑکیوں کو اس کی دعائوں اور تبرکات کے سہارے اچھے اچھے رشتے ملے تھے۔ بشیر میاں بھی اپنی درخواست لے کر اس کے پاس چلا گیا۔ حبہ بب نے بیٹی کو ساتھ لے آنے کو کہا۔
کچھ دنوں بعد بشیر میاں اپنی بیٹی کو لے کر اس جھونپڑی میں گیا۔سلام دعا کے بعد بشیر میاں دوزانوں بیٹھ کر حبہ بب کے پیر دبانے لگا۔ وہ منہ میں حقے کی نے لیئے دہکتی انگیٹھی میں اسپند کے دانے ڈالنے میں مصروف تھا۔ کچھ مدت تک وہ دونوں باپ بیٹی وہیں رہے۔ حبہ بب نےکچھ تبرکات دے کر رخصت کیا۔ رخصت کرتے ہوئے اس کی نظریں نیلوفر کے شباب کا جائزہ لینے لگیں۔ جب تک وہ جھونپڑی سے باہر نکل آئے وہ صرف اسی کو دیکھتا رہا اور اس کے جانے کے بعد بھی اس کے ذہن میں وہ پیکر بار بار آ رہا تھا۔
نیلوفر دن دو دن بعد حاضری دیتی رہی۔ کبھی اپنے باپ کے ہمراہ تو کبھی اسے کہہ کر اکیلے آتی۔ گھر سے کبھی بغیر کہے غائب نہیں ہوئی تھی۔ لیکن آج بشیر میاں کو بھی معلوم نہیں کہ وہ کہاں گئی ہے۔ وہ ڈرے سہمے اس کو ڈھونڈتا رہا مگر وہ کہیں ملی نہیں۔ اس کی آخری نظر حبہ بب کی جھونپڑی پر تھی۔ وہ تھکا ہارا جھونپڑی کے پاس پہنچا۔ اس کی سانسیں تیز ہو رہیں تھیں۔ تکان اتارنے کے لئے چنار کے تنے سے ٹیک لگا کر بیٹھ گیا۔
کچھ ہی پل رک کر بشیر میاں کے اندر کی بے چینی نے انگڑائی لی اور اپنے نحیف گھٹنوں پر ہاتھ ٹیک کر اٹھ کھڑا ہوا اور جھونپڑی کی طرف لڑکھڑاتے ہوئے قدموں چل پڑا۔ چنار کے گرے ہوئے پتوں پر پاؤں رکھتے ہوئے ایک عجیب سی آواز آ رہی تھی، جس سے روح کانپ رہی تھی۔ جھونپڑی میں قدم رکھتے ہی اس کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں۔ سب کچھ وہیں تھا۔ اگر دان میں اگر بتیاں جل رہی تھیں، انگیٹھی بھی دہک رہی تھی لیکن حبہ بب ندارد۔ بشیر میاں کو صرف دھواں نظر آرہا تھا۔
رابطہ:بدورہ اچھ بل اننت ناگ
موبائل نمبر؛8491871106
ای میل:[email protected]