Facebook Twitter Youtube
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
Kashmir Uzma
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے

Kashmir Uzma

Latest Kashmir News | Kashmir Urdu News | Politics, India, International, Opinion

Font ResizerAa
Search
Follow US
مضامین

دُکھی دنیا دُکھی لوگ

Kashmir Uzma News Desk
Last updated: July 6, 2017 2:00 am
Kashmir Uzma News Desk
Share
30 Min Read
SHARE
اللہ نے انسانوں کی خلقت سے پہلے ان کی ہدایت کا انتظام کیا اور اتنا پختہ کہ اعلان کردیاـ: دین میں کوئی زبردستی نہیں، ہدایت ضلالت سے روشن ہوچکی ہے (۵۶ ۲:۲)اب یہ انسان پر منحصر ہے کہ وہ ہدایت کو قبول کرکے مشکور رہے یا ہدایت کی روشنی کو ٹھکرا کر کافر بنے۔سورج کی روشنی راستہ خود دکھا دیتی ہے بشرطیکہ آنکھیں نہ بند کرلی جائیں ،سچے دین تک ہر دور میں کچھ لوگ پہنچتے رہے ہیں اور راہ حق پر آنے والوں کو ہر دور میں کچھ لوگ روکتے رہے ہیں اور اپنی حق پسندی کی سزا دیتے رہے ہیں۔
موجودہ زمانہ ترقیاتی و تحقیقاتی زمانہ ہے، اس دور میں کسی حقیقت تک رسائی اتنا مشکل نہیں جتنا گزشتہ چند صدیوں قبل تھا، اگر کوئی شخص کسی مذہب(یا) فرقہ کے عقائد و افکار  و نظریات کو جاننا چاہتاہے تو عظیم کتاب خانے یا وہی کتب کم حجم والی’’سی ڈیوں ‘‘میں موجود ہیں، لیکن اگر تحقیق و تفحص کا در چھوڑ کر صرف اندھی تقلید کی جائے اور صرف وہی راگ الاپے جائیں، جن کوکچھ لوگ صرف عناد و عصبیت کی بنا پر لوگوں کے درمیان پھیلا گئے تو قطعاً معقول و منطقی نہیں ہوگا۔زمانہ کی مادّی ترقی اتنی تیز ہے کہ آنکھ والا درکنار نابینا بھی اسے محسوس کئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ 
زمین پر قدم قدم چلنے والا انسان راکٹ کے ذریعہ چاند تک پہنچ رہاہے۔ ساحل کے کنارے محفوظ ہوکر بھی سمندر کی موجوں سے سہم جانے والا انسان آج سمندر کے سینے کو چیر کر اپنی مرضی کے مطابق سطح اور سمندر کی تہوں میں سرگرم سفر ہے۔کائنات کی ہر چیز پر قابو پانے کے لئے کوشاں انسان نے قدرت کے بہت سارے عطیات کو نہ صرف تابع کرلئے ہیں بلکہ ان کو اپنی مرضی کا پابند بناتا جارہا ہے۔آج ہوا، پانی، آگ، موسم، بلندی، پستی غرض کہ کائنات کی ہر چیز سے لڑنے اور ان کو زیر کرنے کی خواہش میں انسانی قدم بہت کچھ آگے بڑھ چکے ہیں اور بڑھ رہے ہیں مگر ترقی کا مور اپنے پیروں پر جب نظر ڈالتا ہے تو ضرور شرمندہ ہوکر بے حوصلہ ہونے لگتا ہے۔ترقی کے بال و پر یقینا بہت خوبصورت ہیں لیکن انسانی زندگی یعنی ترقی کے پیر روز بروز اتنے مکروہ اوربھیانک ہوتے جارہے ہیں کہ مسّرت کے بجائے انسان رنج، خوف ، غم، فکر میں ڈوبتا جارہا ہے۔ترقی پسند انسان تہذیب و تمدن میں ترقی کے بجائے جاہلیت وجنگلی تمدن کی طرف واپس آرہا ہے۔ چلنا بڑھنے کا نام نہیں ہے کولہو کا بیل بھی چلتا ہے مگر بڑھتا نہیں۔ اگلے تمدن اور موجودہ تمدن کے نتائج ملا لیجئے تو اندازہ ہوگا کہ ہم بھی صرف چکر میں رہے ہیں۔ جہاں سے چلے تھے آج بھی وہیں کھڑے ہیں۔ کل انسان جاہل، جنگلی،ظالم ،غیر مہذب، نا آشنائے تمدن، تہذیب، علم ودانش کے نام پر وہی کچھ کررہے ہیں۔
جنگلی انسان برہنہ تھا، مجبوریوں کا عذر بھی اس کے پاس تھا۔ چنانچہ اس نے تہذیب  کی روشنی میںمیں قدم رکھے تو درختوں کے چھال اور پتے اس کا لباس بن کر اس کی بے سرو سامانی کا اعلان کررہے تھے مگر آج کا انسان لباس کی بہتات کے باوجود فطری آزادی کے نام پر برہنہ رہنے کا مطالبہ کررہا ہے اور تہذیب جدید اس کے مطالبہ کو خلاف تہذیب قرار دے کر رد نہیں کررہی ہے ،البتہ ننگوں کی اقلیت کو لباس پہننے والوں کی اکثریت کے باعث برہنہ رہنے کی فی الحال کھلی چھوٹ نہیں دے رہی ہے لیکن خالی جزیرے’’ فطری آزادی ‘‘کے لئے وقف کئے جارہے ہیں۔ کون جانے ننگوں کی اقلیت کب اکثریت میں بدل جائے اور لباس کے حامی کب غیر آباد جزیروں میں محبوس کردیے جائیں۔دیکھنے کی بات یہ ہے کہ جہالت نے ہم کو برہنہ رکھا تھا آج کا علم و تہذیب ہم کو پھر برہنہ کررہا ہے۔انسانی ترقی نے ایک چکر پورا کرلیا ہے کہ اب اخلاق و عقل کو چکر آرہے ہیں جس کی تیمار داری کرنے والا کوئی نہیں۔ اگر کچھ ہمدرد اُٹھے بھی تو ان کو  ہسٹریا کا مریض قرار دیا جائے گا۔ماضی میں عرب کا جاہل باپ بے رزقی کے خوف سے اولاد کو قتل کررہا تھا۔ باپ ہوکر بیٹی کا گلا دبا رہا تھا ،آج ہم ان واقعات کو سن کر بے چین ہوئے جاتے ہیںلیکن عصر حاضر کی عقل وعلم و تہذیب نے ہم کوپھر اس جگہ لا کھڑا کیا ہے کل ہم جہاں سے چلے تھے۔ غور کیجئے:
غلہ کی کمی کا’’فیملی پلاننگ‘‘ سے علاج ہورہا ہے اور اس علاج کا مخالف، جاہل اور دقیانوسی قرار پارہا ہے۔ کیا ساری زمین قابل کاشت بنا لی گئی ہے یا جو قابل کاشت تھی ان پر زراعت ہورہی ہے؟زراعت کا ماحصل غلہ بازار میں آرہا ہے یا ذخیرہ اندوزوں کے گوداموں میں جارہا ہے؟ کاش ماں کے ’رحم‘ میں فیملی پلاننگ کی جھاڑو سے پہلے ’بے رحم‘ ذخیرہ اندوزوں کے گوداموں میں جھاڑو دے لی جاتی۔فیملی پلاننگ اقرار و اعلان ہے کہ ہم نسل کشی کرسکتے ہیں لیکن اپنی ہوس کو نہیں قتل کرسکتے!فیملی پلاننگ نے غذائی مسئلہ کتنا حل کیا ابھی تک اس کی کوئی فرضی داستان بھی سننے میںنہیں آئی۔ البتہ کچھ گھر بے چراغ ہوگئے کیونکہ موجودہ بچوں کو موت لے گئی۔ پیدا ہونے والوں کو ہم نے معدوم کردیا اورزندگیاں ایسی کالی رات بن گئیں جن کو امید سحر بھی نہیں ،دوسری طرف حمل کا خوف اگر بدکاریوں کی راہ میں رکاوٹ تھا تو اب فیملی پلاننگ کے سایہ میں سہولتوں میں اضافہ ہوگیا ہے۔مانع حمل دوائیں اور تدبیریں بھی ابھی تک ایٹمی توانائی کی طرح صرفِ تعمیر تو نہیں ہوسکی ہیں،البتہ تہذیب وشرافت کے کئی ہیرو شیما اور ناگا ساکی تباہ کرچکی ہیں۔ آگے آگے دیکھئے………
کل کی تہذیب و تمدن سے خالی دنیا کا مذموم ترین فعل صنف نازک (عورت) کے ساتھ بد سلوکی تھا ہم نے اس معاشرہ پر اتنی سخت تنقید کی کہ عورت کے زیورات کو اس کی اسیری وکنیزی کی زندگی کی علامت قرار دیا۔ کنگن کو ہتھکڑی، ہار کوطوق، پازیب کو بیڑی اور کمر کی زنجیر کو لنگر بتایا۔ پچھلی زندگی کی اتنی مہیب جراحی کی کہ آج عورت زیور درکنار چوڑی سے بھی نفرت کررہی ہے۔ ناک کی کیل سے سہاگ کی نشانی تھی مگر ہماری ریسرچ میں وہ عورت کی تذلیل کانشان قرار پائی۔ ہم نے اعلان کیا اب عورت کو اس کا اصل اور بلند مقام و رتبہ حاصل ہوگیا مگر اسے کیا کروں کہ میری آنکھ کل سے زیادہ عورت کو آج اسیر دیکھ رہی ہے، جس ہتھکڑی، بیڑی ، طوق اور شنکجہ میں اسیر ہے وہ نظر نہیں آتے کیونکہ یہ آرٹ اورکلچر کے کارخانے کے پروڈکٹ مانے جاتے ہیں، لوہے یا چاندی سونے جیسے دھاتوںکے نہیں ہیں۔کل عورت جانوروں کی طر ح خریدی بیچی جاتی تھی مگر آج ایسا ناکارہ مال قرار پائی ہے جس کے دیکھنے چھونے اور ہوس بھر چکھنے والے تو بہت ہیں مگر خریدنے اور گھر لے جانے اور رکھنے والے بہت کم ہیں۔  اسے عزت و رتبہ دینے والے ہیں کہاں؟
آج ہر عورت کے دل ودماغ میںجب وہ ایک ناتجربہ کار نوخیز لڑکی کا دل و دماغ ہوتاہے ،تہذیب وتمدن کے نام پر آزری سینما، اخلاق سوز ناول، افسانے، آزاد شاعری، ریڈیو کلچر پروگرام، ڈانس، مشترک تعلیم اور اَن گنت چیزوں کے ذریعہ یہ بات ذہن نشین کردی جاتی ہے کہ کامیاب زندگی بسر کرنے کا واحد ذریعہ یہی ہے کہ لڑکی عورت بننے سے پہلے ہر مرد کے لئے زیادہ سے زیادہ پُر کشش بن جائے۔ بے حیا ماں باپ لڑکی لڑکوں کے ملاپ کی انجان بن کر کوشش کرتے رہتے ہیں تاکہ دیکھ سکیں کہ نور چشمی کو گھائل کرنے کتنی مہارت ہے۔ ہوس کا کوئی اندھا اگر مل جاتا ہے تو پھولے نہیں سماتے اور یہ نہیں سوچتے کہ جس نے آج دوسروں کی طرف سے آنکھ بند کرلی ہے وہ کب تمہاری نور نظر سے آنکھ نہ پھیر لے گا۔جنسی جوش زندگی کو بہاتو سکتے ہیںمگر سفینۂ حیات کے ساحل نہیں بن سکتے۔
پُر کشش بننے کی اندھا دھند تبلیغ نے آج عورت کے قلب و دماغ کو مرد کی نظر کا اسیر کچھ اس طرح کیا ہے کہ مرد سوٹ پہننے جارہا ہے اور اس کے ساتھ اس کی بیوی یا بہن یالڑکی یا ماں ہے جس کی ٹانگیں رانوں تک کھلی ہیں ،سردی میں سر کے محافظ بال ہیں جو تراشے جاچکے ہیں ، سینہ کھلا ہے، پیٹ بے نقاب ہے ،جذامی تمدن کا زہریلا پیپ ہر عریاں حصۂ بدن کے ذریعے انسانی تہذیب و اخلاق کے پیکر میں جذب ہورہا ہے جسے عقل کے کوڑھی شہ رگ میں دوڑنے والا زندہ اور تازہ خون سمجھ رہے ہیں۔ گھریلو زندگی دراز میںپڑچکی ہیں۔ خاندان کی عمارت میں شگاف پڑگئے ہیں۔ کل نالائق اولاد ماں باپ سے عاجز تھی آج ماں باپ اولاد کے تصور سے گھبرا رہے ہیں۔ سینما دیکھنے کے لئے کمسن اور شیر خوار بچے اکیلے کمروں میں مقفل پڑے محلہ والوں کی نیند خراب کر رہے ہیں۔ ماں باپ افسانوی عشق ومحبت سے ذکی الحس جنسیت کی خارش کو کھجلا کر اپنے ہی کو نوچ رہے ہیں اور وقتی لذتِ خارش میں محو ہیں، ہوش جب آتا ہے جب زندگی اپنے ہاتھوں لہولہان ہوچکی ہوتی ہے اور سوسائٹی خارشی کتّا قرار دے کر اپنے قریب پھٹکنے نہیں دیتی۔ اپنی آگ میں جلنے والے اخلاقی آتشک کے مریض سلگتی زندگی بسر کررہے ہیں جو جل کر ختم بھی نہیں ہوتی اور دھواں اتنا ہے کہ ایک سانس بھی اچھی نہیں لے سکتے کرداری آتشک کے مریض ماں باپ اخلاقی مبروص اولاد کو جنم دے کر انسانیت کو داغدار کررہے ہیں دور اور بہت دور موجود ہ ترقی کے آسمان سے شیطان انسان کی حالت دیکھ کر قہقہ لگا رہاہے۔ گھروں کی حالت بیان ہوئی، پڑوسی جھگڑا کرکے پڑوس کا حق ادا کررہے ہیں،طبقاتی جنگ درندوں سے زیادہ بھیانک انداز پر لڑی جارہی ہے۔ فرقہ واریت کا اژدھا سب کو نگلتا چلا جارہا ہے۔
پیاسی زمین انسانی لہو پی رہی ہے، بھائی بھائی کا گلا اس مسرت سے کاٹ رہا ہے جیسے کسان کھیتی کاٹتا ہے۔ اندرون ملک وہ خلفشار ہے کہ حکومتیں چوندھیائی جارہی ہیں۔ بڑی قومیں اسے سینکڑوں بم لئے وقت کی تاک اور گھات میں بیٹھی ہیں جن میںسے ایک بم بھی ساری نسل انسانی کو چشم زوں میں نیست و نابود کرسکتا ہے۔ خوف کا دور دورہ ہے۔ دہشت کا سکہ چل رہا ہے۔ خون چوسا جارہا ہے۔ خون برسایا جارہا ہے۔دولت کے قصر میں خون کا گارا ہے۔ سیاست کی کشتی خون میں چل رہی ہے۔ وہ خون جو دل کا سرمایہ تھا انسانیت کا دل خون ہوچکا ہے۔ آدمیت سسک رہی ہے۔اس کی پشیانی پر موت کا پسینہ ابھر رہا ہے اخلاق کی نبض ڈوب رہی ہے۔ تہذیب کی آنکھیں پتھرا گئی ہیں۔ شرافت کی سانس اکھڑ چکی ہے۔ مادیت انسانیت کی قبر کھودے روحانیت کی لاش دفنانے کے لئے ہاتھ پھیلائے ہوئی ہے ،سائنسی ترقی آدمیت کی قبر پر محیّر العقول مقبرہ کی تعمیر کے انتظام میں بڑی مسرت کے ساتھ منہمک ہے۔ یہ ہے اس وقت کی دُکھی دنیا کا ہلکا سا نقشہ………
آج بھی اور کل بھی مذہب ریاضی کے واضح حساب کی طرح انسان کو اس کی غلط روش اور خطا کی نشاندہی کررہا ہے مگر مسیحا کو ملک الموت کہہ کر لوگوں کو اس سے ڈرایا اور دور رکھا جارہا ہے۔انسان جاہل، غیر متمدن، غیر مہذب تھا۔ تو انسان خونخوار تھا۔ بے چین تھا۔ آج ہم نے علم پھیلایا، تمدن بنایا، تہذیب قائم کی تو انسان میں بے چینی نہ ہونا چاہیے تھی۔ آج انسان ظالم اور خونخوار نہ ہوتا مگر ہم دیکھ رہے ہیں کل کاجاہل غیر متمدن غیر مہذب انسان جتنا ظالم، خونخوار اور بے چین تھا آج کا عالم ، متمدن مہذب انسان کچھ کل سے زیادہ بے چین ہے۔ظلم اور خونخواری میں اضافہ ہوگیا ہے، تو ہم کو سوچنا پڑتا ہے کہ علم، تہذیب، تمدن کے باوجود ہم سے کوئی چیز چھوٹ جانے والی چیز کو نہ معلوم کرلیں گے، اسے نہ حاصل کرلیں گے تب تک ترقی کے باوجود بھی ہم پر سکون و مطمئن نہ ہوں گے۔ آج سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ ہماری موجودہ نسلیں مذہبی معلومات، اسلامی شخصیات، صحابہؓ، اہل بیتؓ، اولیاؒ، اصفیا اور ائمہ وغیرہ ہم کی حیات و خدمات تو دور، ان کے نام نامی اسم گرامی تک سے واقفیت نہیں رکھتیں الا ماشا ء اللہ ۔ تو ایسی صورت میں نئی نسل کو اپنے اسلاف کے کارناموں سے واقف کرانا بے حد ضروری ہے۔ لہٰذا ہم سب اپنی اپنی سطح پر کوشش کریں کہ صورت حال کسی طرح سے تبدیل ہو اور مذہب  وکردارسازی کے تئیں دلچسپی لینے کا سلسلہ مضبوط سے مضبوط تر ہو۔
ہم نے سائنس کے ذریعہ کائنات کی قوتیں معلوم کرلی ہیں۔ کا ئنات کے خزانوں پر قبضہ بھی کرلیا ہے مگر ہم یہ نہ معلوم کرسکے کہ ہماری زندگی کا مقصد کیا ہونا چاہیے۔ ان قوتوں کا مصرف کیا ہونا چاہیے۔ دوسرے لفظوں میں یوں سمجھئے کہ ہم نے دوسروں پر قابو پالیا ہے چاہے وہ سمندر ہو یا پہاڑ، فضاہو یا زمین کی تہیں، موسم ہو بارش غرضکہ انسان کا قبضہ بڑھتا جارہاہے مگر ہم نے اپنے آپ پر قابو نہیںپایا ہے جس کا نتیجہ ہے کہ سائنس کا استعمال تعمیر کے بجائے تخریب میںہورہا ہے۔ ہم اپنے پر کیسے قابو پائیں یہ ہماری سب سے بڑی بے بسی ہے۔ یہ کام سائنس سے نہیں ہوسکتا یہ کام صرف مذہب کا ہے۔مذہب کا مٹنا لا مذہبیت کا رواج انسانی معاشرہ کو سائنسی ترقی کے دور میں زیادہ تیزی سے تباہ کررہے ہیں اس دُکھی دنیا کا علاج صرف مذہب ہے اور سچا مذہب۔ صرف مرض کی شہرت سے مریض اچھا نہیں ہوتا بلکہ اسباب کے ماتحت علاج و پرہیز ذریعہ شفا بنتا ہے۔
انسان افضل ترین مخلوق اپنی فطرت اور حقیقی وجود سے انحراف کرتا ہے جس سے دنیائے انسانیت کا نظام درہم برہم ہوجاتاہے۔ حق ناحق، حلال و حرام اور سچ و جھوٹ میں تمیز کرنا انسانی وجود کا اہم ترین جز ہے اور یہی اوصاف و صفات انسان کو حیوانوں سے منفرد اور ممتاز حیثیت عطا کرتا ہے، لیکن جب انسان اپنی ان فطری اوصاف سے ہٹتا ہے تو اس میں حیوانی خصائل پیدا ہوتے ہیں اور وہ متضاد اور مترادف میں تمیز کرنے سے قاصر رہتا ہے اور کبھی جان کر بھی ایسے کرتوت کر بیٹھتا ہے جو انسانی خصائل و عادات کے منافی ہوتے ہیں۔ ہمارے بازاروں اور دفتروں میںجاکر ان تمام انسانی فطری اصولوں کی پامالی کی پوری عکاسی ہوجاتی ہے۔ بازاروں میں اعتدال اور معیار کی کوئی چیز ہی باقی نہیں رہی ہے۔ حلال وحرام اور حق و ناحق میں تمیز کرنا دقیانوسی کہانیاں تصور کی جاتی ہیں۔ جس کے ہاتھ جتنے لمبے ہوں وہ اتنے احاطے پر قبضہ جماکر لوٹ کھسوٹ کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑتے ہیں۔ ہر قسم اور ہر رنگ کی ہر شئے کی قیمتوں میں غیر معمولی اضافہ کرکے غریب عوام کی کمر توڑتے ہیں۔ اس کے لئے جدید ترین تکنیک یعنی جھوٹ کے نام پر ایسا لوٹ مچاتے ہیں کہ عوام کے لئے میٹھا زہر ثابت ہورہا ہے۔ خریدار خصوصی رعایات کی بنیاد پر خریداری کرنے میں اپنی عافیت سمجھتے ہیں لیکن گھر جاکر پچھتاوے کے بغیر کچھ حاصل نہیں ہوتا ہے۔ کیونکہ ان اشیاء کی رعایتیDiscount Percentage چھوٹ کے نام پر پہلے ہڑپ کی ہوتی ہے کیونکہ ان کی اصل اور حقیقی قیمتوں کا جب ان کو اپنے ہی گھر میں پتہ چلتا ہے تو وہ خریدار جنہوں نے اپنے اہل خانہ کو اپنی چالاکی سے متاثر کرنے کے لئے خصوصی رعایت پر خریداری کی ہوتی ہے کو شرمندگی اُٹھانے کے سوا کچھ ملتا ہے۔اس کمر توڑ مہنگائی کے لئے اگر چہ روایتی چیکنگ اسکارڈ تشکیل دئے جاتے ہیں لیکن چیکنگ سکارڈ میں کون سے دیانتدار اور مخلص افسران و ملازمین شامل ہوتے ہیں کیونکہ انہوں نے اپنے اپنے دفاتر میں رشوت ستانی کابازار گرم کرکے غریب عوام کا گلا گھونٹ کر خون چوسنے میں کوئی عار محسوس نہیں کیا ہوتا ہے۔ بھلا وہ کیسے اس میں اعتدالی اور گراںبازاری پر روک تھام کرسکیں۔
گراں بازاری صارفین کو اقتصادی بد حالی کی طرف دھکیل دیتی ہے لیکن اس سے بھی زیادہ دکانداروں اور کاروباری افراد نے خطرناک پالیسی اپنا رکھی ہے جو جان لیوا ثابت ہورہی ہے کہ غیر معیاری اور زائد المعیاد اشیاء صارفین کو فروخت کرتے ہیں۔ اس فریب کاری اور دھوکہ دہی پر صارفین اگر چہ بر وقت کوئی انکشاف نہیں کرسکتے لیکن صحت کی خرابی کے بعد خون و پیشاب کے مختلف ٹیسٹ یا ایکسرے و الٹرا ساونڈ کرکے ان غیر معیاری اور زائد المیعاد اشیاء کے استعمال سے ہوئی خرابی کا پتہ چلتاہے۔ بے حس اور بے بس دُکھی لوگ اس فریب کاری پر دھیان دینے سے قاصر رہتے ہیں اور تعلیم یافتہ ہوتے ہوئے بھی بر وقت اشیائے ضروریہ کی غیر معیاری اور ملاوٹی اثر کو محسوس نہیں کرسکتے ہیں اور نہ ہی پہچان سکتے ہیں۔ یہاں یہ بات قابل غور ہے کہ ریاست جموں و کشمیر بالخصوص وادی کشمیر میں مسلمانوں کی اکثریت میںموجوجود ہے لیکن اس کے باوجود بھی مسلمانانہ لباس پہن کربھی خرید و فروخت میں بے ہنگم اور بے لگام ناجائز منافع خوری کرکے غریب عوام او ر دُکھی لوگوں کو پریشانی میں دھکیل دیتے ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ دکانوں کے باہر سائن بورڈ پر رعایت کے سلوگنز (Slogan) ہوتے ہیں لیکن زمینی سطح پر خریداروں کو پھنسانے کے لئے ہوتے ہیں۔
چاہے اصول کتنے ہی اچھے ہوں مگر بے کار ہیں جب تک ان کا نفاذ نہ ہو۔ نفاذ کے لئے ضرورت ہوتی ہے کسی نافذ کرنے والے کی چنانچہ اس حیران و پریشان دُکھی دنیا کے لوگوں کو سکون و راحت بخشنے کے لئے آج سے چودہ سو سال قبل آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور انہوں نے اسلام کے عملی نقشہ کو دنیا کے سامنے کیا۔حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’میں تمہارے درمیان دو گراں قدر چیزیں چھوڑے جاتا ہوں:ایک کتاب ِخدا اور (دوسری) میری سنت ۔،اگرانہیں اختیار کئے رہو تو کبھی گمراہ نہ ہوگے، نہ دونوں کبھی جدا ہوں گے یہاں تک کہ حوض کوثر پر میرے پاس پہنچو۔دنیا نے دیکھا خونخوار درندہ صفت عرب اسلام سے قبل دولت بدکاری ، ظلم اور قتل عام کا حریص تھا۔ باپ دولت بچانے کے لئے ا پنے ہاتھوں بیٹی کا گلا دبا کر فخر سے گردن اٹھاتا تھا۔ ایک قبیلہ کا اونٹ دوسرے قبیلہ کے سردار کے حوض میں اگر ایک گھونٹ پانی پی لیتا تھا تو چالیس سال تک انسانی خون کی ندیاں بہہ جاتیں مگر تشفی نہ ہوتی، اورقتل پر بھی بس نہ ہوتا تھابلکہ قاتل مقتول کا خون پیتا تھا۔ سینہ چاک کرکے دل کچا چباجاتا تھا۔ آنکھ، ناک، کان، ہاتھ، پیر کاٹ کر ہار بنا کر پہنتا تھا اور خوش ہوتا تھا دیکھنے والے اس کی مدح اور تعظیم کرتے تھے لیکن یہی عرب مسلمان ہوکر انسان بن جاتا ہے۔ اسلام کا نبی صلی اللہ علیہ وسلم اُجڑے مہاجر کو مدینہ کے بسے ہوئے انصاری کا بھائی بناتے ہیں تو دولت کا پجاری عرب جو دولت کے لئے بیٹی کو زندہ دفن کرتا تھا آج اتنا بدلا ہوا نظر آتا ہے کہ مالدار انصاری لئے ہوئے مہاجر کو اپنی آدھی جائداد کی پیش کش کرتا ہے۔ ذراسوچئے ! اسلام کتنابڑا انقلاب لایا تھا۔ اسلام نے حکومت کے بجائے انسانی کردار کی تعمیر کی تھی اسلام کا طریقہ کار برائی مٹانے میں ، برے کو مٹانا نہ تھا بلک برے کو اچھا بناکر برائی مٹائی جارہی تھی لہٰذا تلوار کی ضرورت نہ تھی سیرت کی ضرورت تھی اور اسلام یوں انقلاب لارہا تھا کہ دماغ وہی تھے مگر انداز فکر بدل گیا تھا۔ آنکھیں وہی تھیں مگر انداز نظر بدل گیا تھا زبان وہی تھی مگر گفتار بدل گئی تھی۔ قدم وہی تھے مگر رفتار بدل گئی تھی۔ دل وہی تھے مگر جذبات ومحبت و نفرت کے سوتے اور دھارے بدل  گئے تھے۔ رشتے اپنی اہمیت کھو چکے ہیں۔ روا داری بے معنی ہوگئی ہے اس ترقیاتی تبدیلی نے انسان کو چاند پر تو پہنچادیا ہے لیکن انسانیت کو زمین دوز کردیا ہے۔ رشتے ضرورت اور تجارت کے رہ گئے ہیں ۔محبت اور وفاداری کی رسمیں ختم ہوگئی ہیں۔ کسی کو مسکرا کر دیکھنے میں بھی کوئی نہ کوئی فائدہ تلاش کیا جاتا ہے۔ ہر چیز کی اہمیت اور وقعت اعتبار پیسے اور ضرورت کے حساب سے ہونے لگی ہے۔ رشتے بھی ا سی بنیاد پر بنتے اور بگڑتے ہیں۔ اسی لئے شاید انسان تو خوب ترقی کررہا ہے لیکن انسانیت دم توڑ رہی ہے۔ یہ د نیا مطلب کی اور لوگ دنیا دار مطلبی ہوتے جارہے ہیں۔
آج انسان نے برسوں کے کام دنوں اور گھنٹوں میں تبدیل کردیا ہے۔ موبائل ، ٹی وی، انٹر نیٹ اور کمپیوٹر جیسی ایجادات نے انسانی ترقی میں ایک بڑی اونچی چھلانگ لگائی ہے۔ شہر سے لے کر گاؤں تک لوگ موبائل فون کے ذریعہ ایک دوسرے سے مربوط اور جڑے ہوئے ہیں۔ اب کسی سے کچھ ڈھکا چھپا نہ رہا۔ سرکاری عملہ بھی اس ترقیاتی ایجادات کا استعمال کرکے عوام سے جڑگیا ہے۔ ایک منٹ میں افسر کو واردات کی اطلاع مل جاتی ہے۔ایجادات کے فائدے اور نقصان دونوں ہیں فائدہ اور نقصان ان ایجادات کے استعمال طے کرتے ہیں۔ صحیح ہاتھوں میں ہونے اور غلط ہاتھوں میں ہونے سے ان کا رخ طے ہوتا ہے لیکن اسی کے غلط استعمال نے پوری دنیا کو خطرے میں بھی ڈال دیا ہے۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے حکومت کی باگ ڈور جب نااہلوں کے ہاتھ میں آجائے تو ملک کو برباد ہونے سے کوئی روک سکتا ہے۔
میں یہ عرض کروں گا کہ انسان کو اپنی ذات سے جس قدر دلچسپی اس زمانہ میںہے، ایسی دلچسپی کسی زمانہ میں نہیں رہی، انسان پچھلے دور میں گویا سویا ہوا تھا، اب جاگا ہے ، زندگی کی جیسا پر تکلف اور راحت آشنا بنا دیا گیا ہے، انسان کو اپنی ذات سے اس وقت ہمیشہ سے زیادہ دلچسپی ہے، انسان اپنی ذات کے لئے جو ذہانتیں دکھا رہا ہے ، اور جو قوتیں استعمال کر رہا ہے، ایسا تاریخ میں کبھی نہیں ہوا، اور اب بظاہر انسان کو اپنی ذات سے بے انتہا شیفتگی ہے، لباس نئے نئے، کھانے عجیب وغریب اور راحت و سہولت کے کتنے ذرائع نکل آئے ہیں۔ دور جدید کے انسان پر خود فراموشی کاطاری ہونا ایک خطرناک بیماری ہے، کہ وہ یہ بھلا دے کہ وہ کس مقام پر رکھا گیا تھا،اور اس کی کیا حیثیت اور ذمہ داری ہے، اسے کون سا پارٹ ادا کرنا ہے، اور اس کا اس عالم سے کیا تعلق ہے۔انسان نے اپنی ذات، اپنی آدمیت، اپنے جوہر، اپنے اصل ذائقہ اوراپنی حقیقی لذت کو جس قدر اس زمانہ میں بھلایا ہے، ایسا کبھی نہیں بھلایا تھا، انسان اس وقت سب سے کم اپنی ذات اور اپنے ذاتی مسائل پر غور کرتا ہے ، اور جو چیزیں اس کے لیے پیدا کی گئی تھیں، ان پر اپنی زندگی کو قربان کررہا ہے، ظاہری چیزیں ، جھوٹے تقاضے اور بیرونی لذتیں اس پر ایسی حاوی ہوچکی ہیں کہ وہ اپنے باطن اور اپنی حقیقت کوبالکل فراموش کر چکا ہے۔ یہ دور در اصل دو متضاد پہلو رکھتاہے، ایک ظاہر اور دوسرا باطن، اگر پرکھ کر دیکھا جائے تو معلوم ہو کہ اس مادی ترقی کے دور میں انسان نے اپنے روحانی جوہر اور حقیقی مقصد اور زندگی کی اصل لذت کو بالکل بھلا دیا ہے، جس کی مثال تاریخ میں نہیں ملتی اور لطف یہ کہ اپنے فرض کو نہیں پہچانتا، اپنی بیماری کو سنجیدگی سے نہیں سوچتا، اس کے ذرائع مقاصد بن گئے ہیں، انسان ان چیزوں پر کیسے مررہا ہے، جو اسی کے لیے ہیں، ذرا غور کیجئے:کیا انسان اپنی ذات سے واقف ہے؟ اپنی زندگی کا جائزہ لیجئے،
کیا انسان اپنی حقیقی راحتوں کو یاد کرتا ہے؟ہر گز نہیں ،بلکہ انسان پر ایک جنوں طاری ہے، اور وہ ایک عجیب کھیل کھیل رہا ہے، صبح سے شام تک ایک چکر میں رہتا ہے، جانوروں سے زیادہ محنت کرتا ہے، بہت سے انسان ایسے ہیں، جنہوں نے اپنے آپ کو روپیہ ڈھالنے کی مشین سمجھ رکھا ہے۔
یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ کشمیر جس کو پہلے پہل’’پیر وأر‘‘ کے نام سے پکارا جاتاتھا کیونکہ یہاں پر دیانتداری اور حق پرستی کا بول بالا تھا اور لوگ خدا کے خوف کو مد نظر رکھتے ہوئے خرید و فروخت کرتے تھے۔
بابا پورہ حبہ کدل سرینگر کشمیر 
9858083333
 
 
Share This Article
Facebook Twitter Whatsapp Whatsapp Copy Link Print
Leave a Comment

Leave a Reply Cancel reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

لورن میں آسمانی بجلی گرنے سے 10بھیڑیں ہلاک
پیر پنچال
بغیر اجازت انشورنس کٹوتی و صارفین کیساتھ مبینہ غیر اخلاقی رویہ بدھل میں جموں و کشمیر بینک برانچ ہیڈ کے خلاف لوگوں کاشدیداحتجاج
پیر پنچال
انڈر 17کھیل مقابلوں میں شاندار کارکردگی | ہائرسیکنڈری اسکول منڈی نے کامیاب کھلاڑیوں کی حوصلہ افزائی کی
پیر پنچال
نوشہرہ سب ڈویژن میں پانی کی شدید قلت،لوگ محکمہ کیخلاف سراپا احتجاج شیر مکڑی کے لوگوں نے ایگزیکٹیو انجینئر کے سامنے شکایت درج کروائی
پیر پنچال

Related

کالممضامین

سیدالسّادات حضرت میرسید علی ہمدانی ؒ ولی اللہ

June 2, 2025
کالممضامین

شاہ ہمدان رحمۃ اللہ علیہ کا عرسِ مبارک | الہامی نگرانی اور احتساب کی ایک روحانی یاد دہانی عرس امیر کبیرؒ

June 2, 2025
کالممضامین

شام میں ایک نئی صبح ندائے حق

June 1, 2025
کالممضامین

تمباکو نوشی مضرِ صحت ،آگہی کے ساتھ قانونی کاروائی کی ضرورت سالانہ ایک کروڑافراد لقمۂ اجل اوربے شمار مہلک بیماریوں کا شکار ہوجاتے ہیں

June 1, 2025

ملک و جہان کی خبروں سے رہیں اپڈیٹ

نیوز لیڑ ای میل پر پائیں

پالیسی

  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط
  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط

سیکشن.

  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت
  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت

مزید جانیں

  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
Facebook

Facebook

Twitter

Twitter

Youtube

YouTube

Instagram

Instagram

روزنامہ کشمیر عظمیٰ کی  ویب سائٹ  خبروں اور حالات حاضرہ کے حوالے سے جموں وکشمیر کی  اردو زبان کی سب سے بڑی نیوز ویب سائٹ ہے۔ .. مزید جانیں

© GK Communications Pvt. Ltd.. All Rights Reserved.
Welcome Back!

Sign in to your account

Username or Email Address
Password

Lost your password?