وزیر اعلیٰ کافلاحی کاموں کیلئے کارپوریٹ سیکٹر سے مدد طلب
سرینگر//وزیراعلیٰ عمر عبداللہ نے اِس بات کا اعادہ کیا کہ حکومت کی تمام طبقات کی فلاح و بہبود کے لئے پختہ عزم کو ایک فلاحی کام کے بجائے اَپنی بنیادی ذمہ داری سمجھتی ہے۔شیرِ کشمیر اِنٹرنیشنل کنونشن سینٹر میں محکمہ سماجی بہبود جموں و کشمیر کے زیرِ اہتمام منعقدہ ’’ کمیونٹیوں کا بااِختیار بنانا ۔سب کے لئے فلاح ‘‘کے عنوان سے ایک روزہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعلیٰ نے جامع ترقی کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ حکومت کی پالیسیوں کا مقصد کمیونٹیوں کو بااِختیار بنانا اور مساوی ترقی کو یقینی بنانا ہے۔اُنہوں نے کہا،’’ایسے اَفراد کو سکیمیں فراہم کرنا جن کے پاس پہلے ہی وسائل، تعلیم اور اچھی صحت موجود ہو، نسبتاً آسان ہوتا ہے۔ اصل امتحان تو تب ہے جب ہم اُن لوگوں تک پہنچیں جو غریب، کمزور اور دُور دراز دیہی علاقوں میں رہتے ہیں۔‘‘وزیر اعلیٰ نے مزید کہا،’’سماجی بہبود کی سکیمیں کوئی احسان یا سخاوت نہیں بلکہ اُن شہریوں کا حق ہیں جو دوسروں کے مقابلے میں زیادہ مشکلات کا سامنا کرتے ہیں۔ جو حکومت ان کی نظراندازی کرے یا صرف خوشحال طبقوں پر توجہ دے، وہ اَپنی ذمہ داری نبھانے میں ناکام ہوتی ہے۔‘‘ اُنہوں نے کہا،’’ہم جانتے تھے کہ ہم سب کچھ راتوں رات نہیں بدل سکتے۔ لیکن جیسا کہ کہا جاتا ہے، قطرہ قطرہ دریا بنتا ہے۔ ہماری کوشش ہمیشہ وہاں سے شروع کرنے کی رہی ہے جہاں سب سے زیادہ ضرورت ہے۔‘اُنہوں نے اپنی حکومت کی کئی نمایاں سکیموں کا ذکر کیا جن میں معاشی طور پر کمزور طبقوں سے تعلق رکھنے والی لڑکیوں کے لئے شادی امداد میں اضافہ، 10 لاکھ سے زائد مستحقین کے لئے پنشن میں اضافہ اور خواتین کی آواجاہی اور حفاظت کو فروغ دینے کے لئے مفت عوامی ٹرانسپورٹ کی سہولیت شامل ہے۔اُنہوں نے یہ بھی بتایا کہ 500 آنگن واڑی مراکز کو ’’سکشم مراکز ‘‘ اور ’’بال ودھیالیہ‘‘ میں اَپ گریڈ کیا گیا ہے تاکہ بچوں کی نشوونما، تعلیم اور غذائیت کی سہولیات فراہم کی جا سکیں۔ اِس کے علاوہ ’’شکتی سدن‘‘ اور ’’وتسلیہ سدن‘‘جیسے نئے مراکز قائم کئے گئے ہیں تاکہ خواتین اور بچوں کو ادارہ جاتی تحفظ دیا جا سکے۔وزیرا علیٰ عمر عبداللہ نے فلاحی کوششوں میں کارپوریٹ سیکٹر کی شمولیت پر زور دیا۔ اُنہوں نے کہا کہ مالی محدودیت کے باعث بعض سکیموں کے فوائد میں تاخیر ہو سکتی ہے لیکن بڑے کاروباری اداروں کی ’’کارپوریٹ سوشل ریسپانسبلٹی (سی ایس آر)‘‘ فنڈز حکومت کی کوششوں میں مددگار ثابت ہو سکتے ہیں۔اُنہوں نے مزید کہا کہ ایک اور بڑا چیلنج یہ ہے کہ دُور دراز علاقوں میں حکومت کی سکیموں کے بارے میں بیداری کا فقدان ہے۔ اُنہوں نے زور دے کر کہا،’’یہ نااِنصافی ہو گی اگر ایک ضلع کے لوگ سکیموں سے فائدہ اٹھائیں جبکہ دوسرے ضلع کے لوگ محروم رہیں۔ حکومت جموں و کشمیر کے تمام اضلاع اور تمام کمیونٹیوںکی ہے۔ فلاحی فوائد ریاست کے ہر کونے تک پہنچنے چاہئیں۔‘‘وزیراعلیٰ نے تعلیمی قرضوں اور وظائف کی کامیاب مثالیں بھی پیش کیں جن کی بدولت کئی طلبأ اعلیٰ تعلیم حاصل کر سکے یہاں تک کہ کچھ ڈاکٹر بھی بنے۔ اُنہوں نے کہا، ’’ہمیں اسی مقصد کے لئے سکیموں کے ذریعے عام لوگوں کی روزمرہ زندگی بہتر بنانے کے لئے کوشش کرنی چاہیے ۔یہی کسی بھی حکومت کی سب سے بڑی ذمہ داری ہے۔‘‘اِس موقعہ پر اُنہوںنے ایک نمائش کا اِفتتاح کیا جس میں سماجی بہبود کی سکیموں اور اَقدامات کو اُجاگر کیا گیا۔ وزیراعلیٰ نے موٹرائزڈ سائیکلوں کی چابیاں، منظوری نامے اور تعریفی شیلڈز بھی مستحقین اور نمایاں کارکردگی دکھانے والوں میں تقسیم کیں۔اِس موقعہ پر وزیربرائے سماجی بہبود سکینہ ایتو نے خواتین کے لئے شروع کی گئی سکیموں کا بھی ذکر کیا جنہوں نے انہیں خود کفیل بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔