ڈاکٹر ریاض احمد
تیزی سے معلومات کے پھیلاؤ کے اس دور میں، وہ سچائیاں جو ہمارے عقائد کو چیلنج کرتی ہیں یا سماجی استحکام کو خطرے میں ڈالتی ہیں، اکثر نظرانداز یا مٹائی جاتی ہیں بجائے اس کے کہ ان کا سامنا کیا جائے۔ اس حقیقت سے گریز کی روش سیاست، تاریخ، سماجی مسائل اور حتیٰ کہ ذاتی تعلقات میں بھی دیکھی جا سکتی ہے۔ اس سے عوامی گفتگو میں بگاڑ پیدا ہوتا ہے اور اہم عالمی مسائل کو حل کرنے میں ناکامی کا سامنا ہوتا ہے۔
تاریخی تحریف:۔
ناخوشگوار سچائیوں کو مٹانے کی ایک نمایاں مثال تاریخی تحریف ہے۔ کئی حکومتیں اور ادارے تاریخ کو دوبارہ لکھنے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ ایک زیادہ خوشگوار بیانیہ پیش کیا جا سکے۔ مثال کے طور پر جاپان میں دوسری جنگ عظیم کے دوران ہونے والے مظالم، خاص طور پر ’’کمفرٹ ویمن‘‘ کے معاملے پر اختلافات پائے جاتے ہیں۔ کچھ درسی کتب جاپان کی جنگی جارحیت کو کمزور کرکے یا نظرانداز کرکے پیش کرتی ہیں، جس سے نوجوان نسلیں اپنی تاریخ کے مکمل دائرے کا سامنا کرنے سے محروم رہتی ہیں۔اسی طرح، امریکہ میں نظامی نسل پرستی پر ہونے والی گفتگو بعض ریاستوں میں غلامی اور نسل پرستی سے متعلق تعلیم کو محدود کرنے یا تبدیل کرنے کی کوششوں کا باعث بنی ہے۔ تاریخی ناانصافیوں کا اعتراف کرنے سے جڑے عدم اطمینان کے باعث تعلیمی نصاب میں ترمیم کی جا رہی ہے۔بھارت میں بھی تاریخ کو سیاسی بیانیے کے مطابق ڈھالنے کی کوششیں کی گئی ہیں۔ مغلیہ دور جو ہندوستانی تاریخ کا ایک اہم حصہ ہے، کو بعض نصابوں میں محدود یا منفی انداز میں پیش کیا جاتا ہے۔اسی طرح بعض فسادات اور ایمرجنسی کے دور جیسے متنازعہ واقعات کو سیاسی نقطہ نظر کے مطابق پیش کیا جاتا ہے، جس سے شہری ایک متوازن تاریخی شعور حاصل کرنے سے قاصر رہتے ہیں۔
سیاسی سنسرشپ:۔
دنیا بھر میں حکومتیں ایسی سچائیوں کو مٹانے کے لیے سنسرشپ کا سہارا لیتی ہیں جو ان کے اقتدار کے لیے چیلنج بن سکتی ہیں۔ چین میں 1989 کے تیانانمن اسکوائر قتل عام کا ذکر نصابی کتب اور آن لائن میڈیا میں سختی سے سنسر کیا جاتا ہے تاکہ عوام اس پر اجتماعی طور پر غور و فکر نہ کر سکے۔روس میں یوکرین جنگ سے متعلق بیانیہ کو سختی سے کنٹرول کیا جاتا ہے۔ جو آزاد میڈیا متبادل نقطہ نظر پیش کرتے ہیں انہیں دبا دیا جاتا ہے، جس سے عوام کو صرف حکومتی بیانیہ سننے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ہمارے ملک میں ایسی کتابیں، فلمیں اور صحافتی رپورٹس جو حکومتی پالیسیوں یا تاریخی بیانیے پر تنقید کرتی ہیں، ان پر پابندی لگائی جاتی ہے یا انہیں قانونی کارروائی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ مذہبی فسادات، بدعنوانی اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر تحقیقی رپورٹس اکثر دبائی جاتی ہیں، جس سے عوام کو اہم مسائل کے بارے میں آگاہی حاصل کرنے میں مشکلات پیش آتی ہیں۔
سوشل میڈیا اور بازگشت کے دائرے :حکومتی اقدامات کے علاوہ، سوشل میڈیا بھی ناخوشگوار سچائیوں کو مٹانے میں اہم کردار ادا کر رہا ہے۔ فیس بک اور ٹوئٹر جیسے پلیٹ فارمز کے الگورتھمز صارفین کو وہی مواد دکھاتے ہیں جو ان کے نظریات سے میل کھاتا ہے، جبکہ متضاد آراء کو فلٹر کر دیا جاتا ہے۔ سوشل میڈیا غلط معلومات کے پھیلاؤ کا اہم ذریعہ بن چکا ہے۔ سیاسی جماعتیں اور مفاداتی گروہ اپنے بیانیے کو فروغ دینے اور اختلافی آوازوں کو دبانے کے لیے آن لائن مہم چلاتے ہیں۔ مذہبی عدم برداشت، ذات پات پر مبنی تفریق اور اقتصادی عدم مساوات جیسے اہم مسائل اکثر دوسرے مصنوعی مباحثوں میں دب کر رہ جاتے ہیں۔
کارپوریٹ دنیا میں حقیقت کو چھپانا :۔
بہت سی کمپنیاں اپنے غیر اخلاقی اقدامات کو چھپانے کے لیے پبلک ریلیشنز مہموں کا سہارا لیتی ہیں۔ بڑی تیل کمپنیوں نے ماحولیاتی تبدیلی میں اپنے کردار کو کمزور کرنے کے لیے غلط معلومات پھیلائیں۔ اسی طرح، فاسٹ فیشن برانڈز اپنے مزدوروں کے استحصالی حالات کو نظرانداز کرتے ہوئے اپنی پائیداری کی مہم پر زور دیتے ہیں۔ 1984کا بھوپال گیس سانحہ، جو یونین کاربائیڈ کی لاپرواہی کی وجہ سے پیش آیا، ابھی تک صنعتی غفلت کی ایک بڑی مثال ہے۔ سالوں بعد بھی متاثرین کو مکمل انصاف نہیں ملا۔ اسی طرح بڑی صنعتوں کے ماحولیاتی قوانین کی خلاف ورزیاں اکثر معاشی ترقی کے نام پر نظرانداز کر دی جاتی ہیں۔
ذاتی سطح پر سچائیوں سے فرار :۔
فرد کی سطح پر بھی لوگ اکثر ناخوشگوار سچائیوں کو نظرانداز کرتے ہیں۔ زہریلے تعلقات میں انتباہی نشانات کو نظرانداز کرنا، مالی مسائل پر کھل کر بات نہ کرنا یا اپنی تعصبات کو قبول نہ کرنا، سبھی ’’ادراکی تضاد‘‘ (cognitive dissonance) کی نفسیاتی روش کا حصہ ہیں۔ ایسی صورتحال میں لوگ ایسی حقیقتوں کو قبول کرنے سے کتراتے ہیں جو ان کی خودی کے تصور یا عقائد کے خلاف جاتی ہیں۔
گریز کی قیمت :۔
ناخوشگوار سچائیوں سے گریز کے سنگین نتائج ہوتے ہیں۔ وہ معاشرے جو اپنی تاریخی ناانصافیوں کا سامنا نہیں کرتے، وہ انہیں دہراتے ہیں۔ حکومتیں جو اختلافی آوازوں کو دباتی ہیں، وہاں عدم استحکام اور بے چینی بڑھتی ہے۔ افراد جو ذاتی سچائیوں سے آنکھیں چراتے ہیں وہ داخلی مسائل کا شکار ہو سکتے ہیں۔ ہر ملک کو ان چیلنجز کا سامنا کرنے کی ضرورت ہے۔ ذات پات پر مبنی تفریق، مذہبی انتہا پسندی، اقتصادی ناہمواری اور سیاسی سنسرشپ جیسے مسائل کا سامنا کیے بغیر حقیقی جمہوری ترقی ممکن نہیں۔تاریخ اور حال کے مسائل کو تسلیم کرنا ہی ایک منصفانہ اور مساوی معاشرے کی جانب پہلا قدم ہے۔سچائی کا سامنا کرنا مشکل ضرور ہوتا ہے، لیکن یہ ترقی کے لیے لازمی ہے۔ چاہے تاریخ ہو، سیاست، سماجی مسائل یا ذاتی زندگی، حقیقت کو تسلیم کرنا اور اس سے نمٹنا ہی حقیقی تبدیلی لانے کا واحد راستہ ہے۔ جو قومیں اپنے ماضی کے سچائیوں کو مسلسل مٹاتی ہیں، وہ اپنی غلطیوں کو دہرانے پر مجبور ہوتی ہیں جبکہ جو ان کا سامنا کرتی ہیں وہ ایک روشن اور مضبوط مستقبل کی راہ ہموار کرتی ہیں۔
[email protected]