’’ سپائی کرانیکلز ‘‘ نامی کتاب کا شور آج چاروں طرف برپا ہے۔بھارت کی سب سے بڑی جاسوسی ایجنسی’’ را‘‘جسے پاکستان اپنے ملک کے خلاف’’ خطرناک ‘‘ سازشوں میں ملوث قرار دے رہا ہے کے سابق سربراہ اے ایس دُلت اورپاکستان کی عالمی شہرت یافتہ جاسوسی ایجنسی آئی ایس آئی کے سابق سربراہ اسد دُرانی کی اس کتاب میں گوکہ کئی تہلکہ خیز انکشافات موجود ہیں، تاہم ا س کے ہر ورق میںاس خوف کی جھلک بھی ملتی ہے جو دونوں کے لاشعور کے کسی کونے میں موجود رہی ہوگی کہ کہیں ان کے منہ سے کوئی ایسی بات نہ نکل جائے کہ جو اپنے اپنے ملکوں میں انہیں غداروں کی صف میں لاکھڑا کردے ۔
تاہم تمام تر احتیاط اور پرہیز کے باوجود بھی دُلت اوردُرانی پر تنقیدوں کے تیر برس رہے ہیں ۔ پاکستان میں اسد دُرانی کو جی ایچ کیو میں جواب دہی کے لئے طلب کیا گیااوربعد میں ایک اعلیٰ فوجی افسر کو معاملے کی چھان بین کا ذمہ سونپ دیا گیا،غالب امکان ہے کہ اس کے بعد ان کا کورٹ مارشل ہوگا ۔ان پر الزام ہے کہ انہوں نے ملٹری کوڈ آف کنڈکٹ کی خلاف ورزی کی ہے جس کا اطلاق ریٹائر ہونے کے بعد بھی ہوتا ہے اور یہ جرم قابل سزا ہے ۔حالانکہ اس سے پہلے پاکستان کے سابق صدر جنرل مشرف نے بھی اپنی سوانح حیات میں ملک کو بیچ دینے کا سنسنی خیز انکشاف کیا تھا لیکن ان پر کوئی انگلی نہیں اٹھی ۔دُرانی صاحب نے ایک بڑا انکشاف یہ کیا ہے کہ اُسامہ بن لادن کے خلاف ایکشن پاکستان او ر امریکہ کے درمیان ایک معاہدے کے تحت ہوا تھا ۔حالانکہ انہوں نے یہ بات کسی اطلاع یا معلومات کے طور پر نہیں بلکہ اپنے اندازے کے طور پر کہی ہے ۔انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ کلبھوشن جادو ،جس پر بھارت کا جاسوس ہونے کا الزام ہے، کو پاکستان رہا کردے گا ۔
اِدھر’’ راء‘‘کے سابق سربراہ اے ایس دُلت نے یہ سنسنی خیز انکشاف کیا کہ ’’ را‘‘ نے پاکستان کے اُس وقت کے صدر جنرل پرویز مشرف کی جان بچائی جس پر آئی ایس آئی کے سربراہ نے را کا شکریہ ادا کیا ۔ ان کے مطابق ’’را‘‘ نے ہی پاکستان کو یہ اطلاع دی کہ جنرل مشرف پر لشکرطیبہ کی طرف سے حملہ کیا جانے والا ہے ۔چنانچہ جنرل مشرف کی جان بچانے کے اقدامات کئے گئے اور بعد میں اس شخص کو گرفتار کیا گیا جو مبینہ طورپر حملہ کرنے والا تھااور اسے پھانسی پر لٹکادیا گیا ۔دبئی ، استنبول اور کٹھمنڈو میں دونوں کی بات چیت اور آدتیہ سنہا کے دونوں سے مختلف موضوعات پر پوچھے گئے سوالات کے جوابوں پر مشتمل اس کتاب میں برصغیر میں تناؤ اور کشیدگی کے اس دور کا احاطہ کیا گیا ہے جس میں دونوں کی خفیہ ایجنسیاں ایک دوسرے کیخلاف سب سے زیادہ سرگرم رہیں۔
تاہم اس دوران معرکہ آرائی کے مرکزی سٹیج کشمیر میں جو کچھ ہوا اور جو کچھ کیا گیا اس پربہت کچھ کہنے کے باجود بھی اتنا کچھ نہیں کہا گیا ہے کہ جس سے واقعات اور حالات کے اندرونی عوامل کا پتہ چل سکتا ۔اسد دُرانی نے امان اللہ خان کو امان گلگتی کا نام دیتے ہوئے یہ کریڈٹ دیا ہے کہ انہوں نے کشمیر میں مسلح تحریک شروع کرنے اوراس کو آگے بڑھانے میں اہم کردار ادا کیا تاہم اس بات پر افسوس کا اظہار بھی کیا ہے کہ انہیں سنجیدگی سے نہیں لیا گیا ۔ اسد دُرانی کو ان کے خود مختار کشمیر کے نظرئیے سے بھی کوئی اختلاف نہیں اور وہ کہتے ہیں کہ نظر انداز کئے جانے کے باوجود وہ تن تنہا جس منظم طریقے سے ہر سال کنٹرول لائن کی طرف مارچ کی قیادت کرتے رہے وہ ان کی قائدانہ صلاحیتوں کا ثبوت فراہم کرنے کیلئے کافی تھا۔لیکن ایک اور شیخ محمدعبداللہ بننے کی خواہش کے ساتھ پاکستان آنے والا یہ شخص جب یہ دنیا چھوڑ گیا اس کے ہاتھ میں ناکامیوںاور نامرادیوں کے سوا کچھ نہیں تھا ۔درانی صاحب نے خود مختار کشمیر کی کھل کر حمایت کرتے ہوئے کہا ہے کہ انہیں اس بات پر حیرت ہے کہ اس بات کو پاکستان میں کیوں نہیں سمجھا گیا کہ خود مختار کشمیر کے قیام سے بھارت کا نقصان زیادہ تھا جبکہ یہ بات بھی نظر انداز کی گئی کہ کشمیریوں کے دلوں میں پاکستان بسا ہوا ہے ۔
انہوں نے اس بات پر افسوس ظاہر کیا ہے کہ جب انہوں نے امان اللہ خان اور ان کے نظرئیے کو سمجھاتو وقت ہاتھ سے نکل چکا تھا اور وہ ان کے لئے اس وقت کچھ نہیں کرسکتے تھے ۔درانی صاحب کا یہ انکشاف بھی اہمیت رکھتا ہے کہ کشمیر میں مسلح تحریک شروع ہونے کے وقت پاکستان کو اس بات کا کوئی اندازہ نہیں تھا کہ کشمیر میں اس تیزی کے ساتھ مسلح تحریک میں وسعت پیدا ہوگی اوراس کے برعکس کہ ایسی تحریکیں دیرپا نہیں ہوتی ہیں، اس نے ناقابل یقین حد تک طول پکڑ لیا ۔ انہوں نے اعتراف کیا کہ اس طوفان کو سنبھالنا اور قابو میں رکھنا ایک بہت بڑا مسئلہ تھا تاہم کافی مشکلوں کے باوجود اسے سنبھالا گیا ۔کتاب میں ان تمام اہم واقعات کا تذکرہ ہے جو گزشتہ کئی دہائیوں کے دوران رونما ہوئے ۔ اے ایس دُلت نے کشمیر یوں کے ساتھ زیادتیوں کا اعتراف کرنے میں کسی بخل سے کام نہیں لیا ہے ۔وہ کہتے ہیں کہ سب سے بڑی تباہی مرکز میں بی جے پی کے برسر اقتدار آنے اور ریاست جموں وکشمیر میں پی ڈی پی اوربی جے پی کی مخلوط حکومت کے قیام کے ساتھ ہی شروع ہوئی ۔مرحوم مفتی محمد سعید کے اندازے غلط ثابت ہوئے اور جب کشمیر کی سرزمین پر وزیر اعظم نے مذاکرات کی وکالت کا جواب انہیں یہ کہہ کر دیا کہ انہیں کسی کے مشورے کی ضرورت نہیں تب انہیں احساس ہوا کہ ان کا واسطہ کس سے پڑا ہے ۔مودی سرکار نے کشمیر کو کچھ نہیں دیا اور محبوبہ مفتی کی قیادت میں مخلوط حکومت نے کشمیریوں کی مایوسیوں میں بے پناہ اضافہ کیا جس کے نتیجے میں کشمیر کی نئی نسل اپنے آپ کو مجبور اوربے بس پارہی ہے ۔اس کے پاس بندوق اور پتھر اُٹھانے کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ کھلا نہیں چھوڑا گیا ہے ۔
حریت قیادت کے تقریباً ہر فرد کے تعلقات اے ایس دلت کے ساتھ بھی بہت گہرے رہے ہیں اور اسد درانی کے ساتھ بھی ۔جنگجو قیادت کے ساتھ بھی دونوں کے تعلقات رہے اور دانشور طبقے کے ساتھ ساتھ ہر اہم شخصیت کے ساتھ دونوںرابطے میں رہے ہیں اور ان میں اتنی صلاحیت بھی ہے کہ دونوں مل کر کشمیر کا مسئلہ حل کرنے میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں لیکن دونوں ملک انہیں اس نظرئیے سے دیکھنے کے بجائے کشمیر کے ساتھ ہمدردی کے الفاظ بولنے پر ان کیخلاف سیخ پا ہوچکے ہیں ۔ پاکستان میں اسد درانی جو کل تک ہیرو کا درجہ رکھتے تھے آج غداروں کی فہرست میں شامل ہورہے ہیں ۔ بھارت میں اے ایس دلت کیخلاف اگرچہ اتنا غصہ نہیں تاہم انہیں بھی ایک پاکستانی کے ساتھ کتاب لکھنے پر تنقید کے تیروں کا شکار ہونا پڑرہا ہے ۔اس سے ظاہر ہے کہ موجودہ حالات میں مسئلہ کشمیر کے حل کی بات تو دور ہے دونوں ملکوں کے درمیان امن اور مصالحت کے امکانات بھی نہ ہونے کے برابر ہیں ۔
( ماخذ: ہفت روزہ نوائے جہلم سری نگر)