عمر فاروق
دعا کیا ہے ؟ دعا دل سے نکلنے والی اُس آہ کا نام ہے جو پَر نہیں مگر طاقتِ پرواز رکھتی ہے۔یہ عموماً زبان سے ادا ہونے والے چند الفاظ کا مجموعہ ہوتی ہے یا شدّتِ جذباتِ محبت و خشیّت سے مغلوب ہوکر آنسوؤں کے ذریعے انسان کے وجدان سے نکل آتی ہے۔
دعا خُدا سے اپنے تعلق کا اظہار ہے،دعا خدا کے تقرب کا ذریعہ ہے ،یہ خدا کے غنی اور خود کے فقیر ہونے کا اعلان ہے،یہ انسان کے تکبّر کا توڑ ہے،یہ ہزاروں غموں کا مداوا ہے،یہ ہر درد کا درماں ہے،یہ بے سہاروں کا سہارا ہے،یہ نا اُمیدوں کی اُمید ہے،یہ ڈوبتے ہوؤں کے لیے کنارے تک پہنچنے کا وسیلہ ہے،یہ گناہوں کو بخشوانے کی سبیل ہے۔
دعا خدا کی رحمت کو متوجہ کرتی ہے،دل کو سکون و طمانیت کی بہاروں سے آباد کرتی ہے،اللہ پہ توکّل کو بڑھاتی ہے،سخت سے سخت حالات میں بندۂ مؤمن کیلئے ’’عُروۃُ الوثقیٰ ‘‘ کا کام دیتی ہے۔
دعا کو عبادت کا مغز اور اللہ کی محبوب ترین شے قرار دیا گیا ہے۔مگر ہماری حِرماں نصیبی کہ ہم دعا کرتے ہی نہیں یا اگر بالفرض کبھی کرتے بھی ہیں، دل کو حاضر رکھ کر نہیں کرتے۔ہمیں یہ جان لینا چاہیے کہ بس وہی ایک ہے جو ہماری پکار کو سنتا ہے اور اسے قبول بھی کرتا ہے،اگرچہ کبھی کبھار اس کا نتیجہ ہمیں فوراً نظر نہیں آتا۔
ہمیں اللہ نے جو بھی چیزیں عطا کی ہیں، بِن مانگے عطا کی ہیں،چاہے صحت ہو،دولت ہو ،حسن و جمال ہو ،عزت ہو یا علم و حکمت وغیرہ ۔ذرا اندازہ کریں کہ جب ہم اس سے مانگیں گے اور بار بار مانگیں گے، وہ ہماری جولیاں بھر بھر کے ہم کو اپنی نعمتوں سے کس قدر نوازے گا۔مگر ہم اس ایک دَر کے بھکاری بننے کے لیے تیار ہی نہیں ، جس کی وجہ سے ہمیں جگہ جگہ کسی نہ کسی صورت میں بار بار جَبہ سائی کرنی پڑتی ہے۔
ہم تو مائل بہ کرم ہیں، کوئی سائل ہی نہیںراہ دکھلائیں کسے ،رہروِ منزل ہی نہیں
(اقبال )
دعا کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ قرآن کا آغاز دعا سے ہوا ہے اور اختتام بھی ۔قرآن میں اللہ تعالی نے جگہ جگہ انبیاء کرام ؑ کی دعائیں نقل کی ہیں۔حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر محمد الرسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک ہر ایک نے صرف ایک اللہ کے سامنے ہی اپنا دستِ سوال دراز کیا۔اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ جب آدم و حوا ؑ نے خدا کے منع کیے ہوئے درخت کا مزا چکھ لیا تو پھر تنبیہِ ربّ کے فوراً بعد بیک زبان دعا کی کہ’’پروردگار ہم نے اپنی جانوں پر ظلم کیا اور اگر تو ہمیں نہیں بخشے گا اور ہم پر رحم نہیں کرے گا تو ہم تباہ ہو جائیں گے۔‘‘(الاعراف : ۲۳ )
حضرت نوح علیہ السلام نے دن رات اپنی قوم کو اللہ کا تعارف کرایا ۔مگر وہ غلط روی سے باز نہ آئے۔پھر اللہ سے سوز وگداز سے بھرپور فریاد کی (جس کا تذکرہ سورة نوح میں موجود ہے )اور آخر پہ دعا کی کہ ’’اے میرے پروردگار مجھ کو اور میرے ماں باپ کو اور جو ایمان لا کر میرے گھر میں آئے اس کو اور تمام ایمان والے مردوں اور ایمان والی عورتوں کو معاف فرما اور ظالم لوگوں کے لئے اور زیادہ تباہی بڑھا ۔‘‘(نوح :۲۸ )
حضرت ابراہیم علیہ السلام جب بڑھاپے کی عمر کو پہنچے تھے تو انہوں نے اللہ سے دعا کی کہ ’’اے پروردگار مجھے (اولاد) عطا فرما (جو) سعادت مندوں میں سے (ہو)۔‘‘
(الصافات : ۱۰۰)اللہ نے ان کی یہ دعا قبول فرمائی اور تقریبًا ۸۶سال کی عمر میں حضرت اسماعیل ؑ جیسی نیک اولاد سے نوازا اور پھر چودہ سال بعد ان کے گھر حضرت اسحاق ؑ بھی پیدا ہوئے۔جب حضرت ابراہیم ؑ کعبہ کی تعمیر کا کام کررہے تھے تو اس دوران انہوں نے بہت ساری دعائیں کیں جن کا ذکر سورۃ البقرہ میں موجود ہے ۔(البقرة : ۱۲٦_ ۱۲۹ )
جب حضرت ذکریا ؑ نے بڑھاپے میں اللہ سے دعا مانگی کہ ’’اے پروردگار مجھے اپنی جناب سے اولاد صالح عطا فرما ۔تو بے شک دعا سننے (اور قبول کرنے) والا ہے۔‘‘
(آلِ عمران : ۳۸ )تو اللہ نے انہیں حضرت یحیٰؑ جیسی صالح اولاد سے نوازا۔اسی طرح جب اللہ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو فرعون کے پاس بھیجا کہ وہ سرکش ہورہا ہے تو انہوں نے اللہ سے دعا کی کی ’’رب اشرح لی صدری ۔ویسر لی امری ۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘(طه : ۲۵_۳۵)
جب حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے حواریوں نے ان سے مطالبہ کیا کہ آپ اللہ سے کہیں کہ وہ ہمارے لیے آسمان سے کھانے کے لیے ایک خوان اُتارے تو پھر ہمارے دل پوری طرح مطمئن ہوں، اس بات پر جس پر ہم ایمان لے آئے ہیں۔چنانچہ اللہ نے ان کی یہ دعا قبول فرمائی (المائدۃ : ۱۱۲ _ ۱۱۵ )۔
آخری نبی سیدنا محمد الرسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھی ہمیں دعا مانگنے کی بار بار تلقین کی ہے۔حتیٰ کہ ہمیں کھانے ،سونے ،جاگنے اور بیتُ الخلا جانے آنے کی دعائیں تک سکھائی ہیں۔خود نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جو مختلف مقامات پہ دعائیں کیں ہیں ان کی شان ہی نرالی ہے۔خصوصًا بدر کے موقع پر پوری رات اللہ کے حضور کثرت سے دعائیں کرتے رہے۔اسی طرح طائف کے سفر سے واپسی پر جس سوز و گداز سے آقائے دو جہاں نے دعائیں مانگی ہیں ان کی کوئی مثال نہیں ملتی۔
انبیاء کی دعاؤں کے ساتھ اس غیر معمولی وابستگی سے دعا کی اہمیت کا ادراک ہوتا ہے۔
اب ہمیں کیا کرنا ہے؟ قصہ مختصر کہ ہمیں دعا کو اپنی زندگی کا ایک جُزوِ لایَنفک بنانا ہے۔ہر حال میں اسی ایک اللہ کو پکارنا ہے۔اسی سے مانگنا ہے ۔اسی سے ہر دن یہ کہنا ہے کہ اے میرے پروردگار! میرے ایمان کی حفاظت کرنا۔میں اگر بھٹکنا بھی چاہوں تو مجھے اپنی رحمت سے بھٹکنے نہ دینا ۔میں اگر غافل ہوجاؤں تو مجھے اس غفلت سے فوراً آزاد کرنا ۔مجھے کبھی کسی کے سامنے رسوا نہ کرنا۔مجھے کبھی بھی جذبات ،خواہشات اور شہوات سے مغلوب نہ ہونے دینا۔مجھے شیطان اور اس کے حواریوں کے حوالے نہ کرنا۔میرے گناہوں کو بخش ۔میرے وجود کو مختلف اخلاقی بیماریوں سے پاک فرما ۔میرے عیوب کی ستر پوشی فرما۔میرے علم ،عمل،وقت اور اخلاص میں برکتیں عطا فرما۔میرے والدین ،اقارب ،اساتذہ اور احباب کو برکت والی زندگیاں نصیب فرما اور جو گزر چکے ہیں انہیں کروٹ کروٹ جنت نصیب فرما۔مجھے اتنا دے کہ میرے ہاتھ دینے والے بنیں نہ کہ لینے والے۔ہمیشہ حق کو حق دکھا اور اس کی پیروی کی توفیق دے اور ہمیشہ باطل کو باطل دکھا اور اس سے اجتناب کی توفیق دے۔مجھے ایمان کی حالت میں موت دے ۔موت اور قبر کی سختیوں سے محفوظ رکھنا اور جنت میں سرورِ دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ،خلفائے راشدین ؓاور حسنین کریمین ؑ کا پڑوس نصیب کرنا۔آمین
اس دنیا میں ہر کوئی کسی نہ کسی مسئلے کا شکار ہے۔کسی کی صحت خراب ہے تو کوئی’’ آمدن اٹھنی اور خرچہ ہزار ‘‘ کی حالت میں گرفتار ہے۔کسی کو روزگار کا مسئلہ ہے تو کسی کو مناسب رشتہ نہیں ملتا۔کوئی خود یا کسی کے عزیز وقت کے فراعنہ اور نماردہ کے عتاب کا شکار ہیں تو کہیں پوری قوم کو یرغمال بنایا گیا ہے۔ان سب مسائل کا حل خدا کی تائید و نصرت کے بغیر ممکن نہیں۔یہ سچ ہے کہ دنیا دارالاسباب ہے لیکن دعائیں معجزے دکھاتی ہیں۔ایک مرتبہ دعا کو اپنی عادت بناکر تو دیکھیں، ان شاءاللہ زندگی بدل جائے گی ۔اس خدا کیلئے کوئی مشکل نہیں ہے ہماری حالت بدلنا ،جس نے یوسف ؑکو تاریک کنوئیں سے نکال کر اور زندان کی سیر کراتے ہوئے مصر کے تخت پہ بٹھایا۔
وھو علی کل شی قدیر،الیس اللہ بکاف عبدہ ،ومن یتوکل علی اللہ فھو حسبه۔الغرض یہ کہ ہمیں اپنی زندگیوں میں قدم قدم پہ اللہ سے مدد ،استعانت اور عافیت طلب کرنی چاہئے ۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں بار بار دعا کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔آمین
[email protected]>