ڈاکٹر سیّد عطاء اللہ
ارشادِ ربانی ہے۔’’ بھلا کون بے اقرار کی التجا قبول کرتا ہے جب وہ اس سے دعا کرتا ہے اور (کون اس کی) تکلیف کو دور کرتا ہے اور (کون) تم کو زمین میں (اگلوں کا) جانشین بناتا ہے (یہ سب کچھ اللہ کرتا ہے) تو کیا اللہ کے سوا اور کوئی معبود بھی ہے؟ (ہرگز نہیں مگر) تم بہت کم غور کرتے ہو۔‘‘ (سورۃ النمل) معلوم ہوا کہ اللہ ہی کے سامنے عرض معروض کرنا چاہیے اور کسی دوسرے سے کسی قسم کی امیدیں نہیں باندھنا چاہئے ۔’’ اور اپنے پروردگار کو دل ہی میں دل میں عاجزی اور خوف سے اور پست آواز سے صبح و شام یاد کرتے رہو اور (دیکھنا) غافل نہ ہونا‘‘(سورۃ الاعراف)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کافرمان ہے،’’ دُعا دراصل عبادت ہے۔‘‘ (ترمذی ) آپ ؐ نے دُعا کو عبادت کی روح اور اس کا مغز قرار دیا (جامع ترمذی )مخلوق کا مزاج یہ ہے کہ اس سے کچھ مانگو تو ناگواری ہوتی ہے ،لیکن اللہ تعالیٰ کو دُعا سے زیادہ کوئی چیز پسند نہیں۔ (ترمذی، باب ما جاء فی فضل الدعاء)حضرت عبد اللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ؐ نے فرمایا: ’’تم میں سے جس کے لئے دُعا کا دروازہ کھل گیا، اس کے لئے رحمت کے دروازے وا ہوگئے اور انسان اللہ تعالیٰ سے جو کچھ مانگتا ہے، اس میں عافیت سے بہتر کچھ اور نہیں ۔‘‘ ( مشکوٰۃ )حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہؐ نے فرمایا : ’’جو چاہتا ہو کہ مشکل وقتوں میں اس کی دُعا قبول کی جائے، اُسے چاہئے کہ بہتروقت میں خوب دُعا کیا کرے‘‘ ، ( ترمذی )
دُعا چوں کہ خود عبادت ہے، اس لئے وہ کبھی رائیگاں نہیں جاتی ، آپؐ نے فرمایا : ’’یا تو اس کی دُعا اسی طرح قبول کر لی جاتی ہے ، یا آخرت کے اجر کی صورت میں محفوظ ہو جاتی ہے، یا اسی مطلوب کے بقدر مصیبت اس سے دور کر دی جاتی ہے۔‘‘ ( مشکوٰۃ )آپؐنے فرمایا کہ ’’اس طرح دُعا کرو کہ دل میں یقین ہو کہ اللہ اسے ضرور ہی قبول فرمائے گا۔‘‘ ( مجمع الزوائد ) آپ صلی اللہ علیہ واالہ وسلم ے ارشاد فرمایا : ’’اللہ غافل اور بے توجہ دل کی دُعا قبول نہیں فرماتا۔‘‘ (مشکوٰۃ)رسول اللہ ؐنے دُعا کے کلمات کے بارے میں بھی آداب بتائے۔ حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ سے مروی ہے کہ دُعا سے پہلے اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان کر نی چاہئے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود ، پھر دُعا کرنی چاہئے۔ ( مجمع الزوائد)کچھ خاص اوقات ہیں، جن میں دُعا مقبول ہوتی ہے، رات کے آخری اور تہائی حصہ میں یہاں تک کہ صبح طلوع ہوجائے ۔( مسند احمد) فرض نمازوں کے بعد، شب قدر اور بعض خاص راتیں دُعا کی قبولیت کے خاص مواقع ہیں۔ اسی طرح کچھ لوگ ہیں، جن کی دُعاؤں کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خاص طور پر مقبول قرار دیا ہے، ان ہی میں مظلوم ہے، گو وہ اپنے اعمال کے اعتبار سے بُراہی کیوں نہ ہو، روزے دار، تاآںکہ افطار کرلے اورمسافر تاآںکہ واپس آجائے۔ ( مجمع الزوائد)