بُوڑھی اَماں بار بار مجھ سے وہی کہانی سنانے کا تقاضا کرتی تھی جو میں اس کو کئی بار سُنا چُکا تھا۔۔۔ اب وہ کہانی سُناتے سُناتے میں اُکتا گیا تھا۔۔۔ وہی کردار ! وہی پُلاٹ! وہی الفاظ! وہی کہانی! وہی افسانویت! وہی دَرد۔۔۔!
’I Should not repeat my self‘ میں نے خود سے کہا۔
بوڑھی اماں ! تمہیں اس کہانی میں کیا ملتا ہے؟ کیوں بار بار ایک ہی کہانی سُنانے کا تقاضا کرتی ہو؟ میں نے ایک دن اُس بوڑھی اماں سے پوچھا۔
’’بیٹا! یہ کہانی میرے اندر جو ارتقاش پیدا کرتی ہے اس سے مجھے غمِ زندگی کا بوجھ کچھ ہلکا ہو جاتا ہے۔ میں کہانی میں سموجاتی ہوں۔ یہاں تک کہ میں خود ایک کہانی بن جاتی ہوں!
کہانی ایک بوڑھی اماں کی۔۔۔! جس میں کردار مرمر کر جینا سکھا تا ہے۔۔۔جو سسِکیوں میں راہ نجات ڈھونڈتی ہے! لیکن بوڑھی اماں پھر بھی آس نہیں چھوڑتی ہے۔ وہ زندگی سے کُلیتاََ نہیں بھاگتی ہے۔
’’میں۔ میں سمجھا نہیں‘‘ میں نے بوڑھی اماں سے کہا۔
’’خدا کرے تم نا سمجھو‘‘ بوڑھی اماں آنسو پونچھتے ہوئے بولی۔
’’بوڑھی اماں! پلیز (Please) آج تمہیں بتانا ہی ہوگا۔اس کے پیچھے کیا راز ہے۔ کیوں مجھ سے تم بار بار ایک ہی کہانی سُنا نے کا تقاضا کرتی ہو؟‘‘
بیٹے! دراصل اس کہانی میں ابتدا سے انجام تک جو دَرد ٹپک رہا ہے۔ وہ میرا ہی درد ہے، ایک عُمر رسیدہ ضعیف ماں کا درد جسکو بار بار سُننے سے میرے درد کی دوا ہوتی ہے! اس کہانی کا مرکزی کردار میں ہی ہوں۔ یہ کہانی میری ہی زبان بولتی ہے۔ ! ایک ایسی مجبور اور لاچار ماں کی زبان جس نے شوہر کو کھونے کے بعد سب کچھ اپنے اکلوتے بیٹے کی پرورش پر ارپن کیا۔ مُلازمت کی آمدن پر بیٹے کو جوان کیا۔ اس کو پڑھایا لکھایا۔ یہاں تک کہ وہ خود بھی ایک سرکاری ملازم بن گیا۔ اس کے لئے ایک عالیشان مکان تعمیر کروایا۔ اس کی شادی بڑھے ہی دھوم دھام سے انجام دی۔ دھیرے دھیرے میرا بیٹا میری ممتا سے اپنی بیگم کا قرضہ چُکانے لگا! میں اُن کے لئے بوجھ بننے لگی۔ اب بات بات پر میرا بیٹا مجھے ٹوکنے لگا۔ بے چارگی اور آزرُدگی کے کانٹوں سے میرا کمزور بدن لہو لہان ہوا! میرا لخط جگر یکسر میری محبت اور شفقت کو بھول گیا!یہاں تک کہ وہ مکان، جو میں نے اس کے لئے گریجوٹی اور پینشن کے پیسوں سے بنوایا تھا، میرے لئے زندان خانہ ثابت ہوا۔ قدم قدم پہ میرے لئے دیواریں کھڑی کی گئیں! دالان میں دیوار! بیڈروم میں دیوار! ڈرائینگ روم میں دیوار! ڈرسنگ روم میں دیوار! لابی میں دیوار! یہاں تک کہ آنگن میں بھی میرے لئے دیوار کھڑی کی گئی! میں اپنے بیٹے کی خوشی کے لئے گنگنایا کرتی تھی۔ قدم قدم پریہ حادثہ مجھے چوٹ دیتا رہا۔ روشنی چاہی لیکن تیرگی ملی۔! پھولوں کی تمنا کیِ کانٹوں نے دامن تھام لیا۔ لیکن پھر بھی میں یہ سب کچھ اپنے لخت جگر کے لئے سہتی رہی۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ میری ممتا میرے بیٹے کو اپنے شریک حیات سے دور کردے۔ لیکن اُس دن میری ممتا ذِلت کا شکار ہوئی جب سحر ہونے کو تھی اور میں مؤذن کی اذان سُن کر بیدار ہوئی۔ وضو کے لئے میں نے واش روم کی طرف قدم بڑھائے۔ یہ دیکھکر میرے پائوں تلے سے زمین کھسک گئی کہ اُس واش روم پر تالا چڑھا ہوا تھا جسکو میں استعمال کرتی تھی۔۔۔!! میں کسی سے کچھ نہ بولی۔!
بوڑھی اماں! پھر ۔۔۔ پھر آپ نے کیا کیا!؟۔ میں نے تعجب سے پوچھا۔
بوڑھی اماں نے ایک لمبی سسکی لی۔ کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد وہ حسرت بھری نگاہوں سے بولی۔
’’تیمم کرنے کے بعد میرے ہاتھ خود بخود دُعا کے لئے اُٹھے۔ اے ربّا! میرا بیٹا نا سمجھ ہے اُس پر رحم فرما۔‘‘
رابطہ؛آزاد کالونی پیٹھ کانہامہ،موبائل نمبر؛9906534724