مختاراحمد قریشی
منصور ہمیشہ کی طرح آج بھی ماما کو سلام کرنے کے بعد ان کی خیریت پوچھ رہا تھا، مگر اس بار ماما کی باتوں نے اسے حیران کر دیا۔ مامی نے شکوہ بھری آواز میں کہا، “یہ کیا روز روز چلے آتے ہو؟ تمہارے پاس کوئی اور کام نہیں؟” منصور جو ہمیشہ اپنے خلوص اور محبت کے ساتھ گھر آتا تھا، پہلی بار یہ جملہ سن کر ساکت رہ گیا۔
وہ ایک لمحے کے لئے کچھ نہ کہہ سکا۔ اس نے ماما کے چہرے پر نگاہ ڈالی۔ وہ پہلے جیسے نہیں رہے تھے۔ آنکھوں میں وہ اپنائیت نہ تھی جو پہلے تھی۔ لہجے میں نرمی کی جگہ اجنبیت نے لے لی تھی۔ منصور کو اچھی طرح یاد تھا کہ بچپن میں جب وہ آتا، تو ماما کی بانہیں ہمیشہ اس کے لئے کھلی رہتی تھیں۔ وہ اسے گلے لگاتے، پیشانی چومتے اور محبت سے پیش آتے۔ لیکن آج ایسا کیوں ہوا؟
منصور خاموشی سے بیٹھ گیا۔ مامی چائے لے آئیں، مگر ان کی آنکھوں میں بھی وہی اجنبیت تھی۔ چائے کا کپ رکھتے ہوئے انہوں نے کہا، “دیکھو منصور، تم بڑے ہو گئے ہو، اب بار بار آنا ٹھیک نہیں لگتا۔” یہ جملہ سن کر اس کا دل دھڑکنے لگا۔
“مگر مامی، میں تو ہمیشہ یہاں آتا رہا ہوں۔ یہ گھر تو میرا بھی ہے، نا؟” منصور نے دھیمے لہجے میں کہا۔
ماما نے ایک سرد آہ بھری اور گویا ہوئے، “بیٹا، وقت بدل گیا ہے۔ رشتے پہلے جیسے نہیں رہے۔ لوگ باتیں بنانے لگے ہیں۔ ہمیں بھی سوچنا پڑتا ہے۔
یہ الفاظ منصور کے سینے میں خنجر کی طرح پیوست ہو گئے۔ کیا رشتے واقعی وقت کے ساتھ بدل جاتے ہیں؟ کیا خلوص اور اپنائیت کی بھی کوئی قیمت نہیں ہوتی ہے؟ وہ وہیں بیٹھا ماضی کے دریچوں میں کھو گیا۔ اسے یاد آیا کہ کس طرح وہ بچپن میں ماما کے ساتھ گھنٹوں بیٹھا رہتا تھا، ان کی باتیں سنتا تھا، ان کے کندھے پر سر رکھ کر اپنے دل کی باتیں کرتا تھا۔
لیکن آج، ایک جملے نے سب کچھ بدل دیا تھا۔ ’’لوگ باتیں بنانے لگے ہیں۔‘‘
یہ “لوگ” کون تھے؟ اور کیوں ان کے کہنے سے اپنوں کے دل بدل گئے؟
منصور نے چائے کا آخری گھونٹ بھرا اور اٹھ کھڑا ہوا۔ “اچھا ماما، میں چلتا ہوں۔” اس کے لہجے میں شکستگی اور دکھ تھا۔ ماما نے کچھ کہنے کےلئیے لب کھولے، مگر خاموش رہے۔ شاید وہ بھی جان چکے تھے کہ ان کا ایک جملہ منصور کے دل پر زخم دے چکا تھا۔
دروازے سے باہر نکلتے وقت منصور نے آخری بار اس گھر کی طرف دیکھا جسے وہ ہمیشہ اپنا سمجھتا تھا، مگر آج وہ در و دیوار بھی اجنبی لگ رہے تھے۔ وہ سمجھ چکا تھا کہ عزت، محبت اور رشتے سب “دو ٹکے” میں بک سکتے ہیں۔
منصور باہر نکلا تو شام ہو چکی تھی۔ گلی میں اکا دکا لوگ نظر آ رہے تھے، لیکن اس کے دل میں ایک عجیب ویرانی چھائی ہوئی تھی۔ قدم بوجھل تھے، جیسے ہر قدم کے ساتھ کوئی بوجھ بڑھتا جا رہا ہو۔
چند لمحے بے مقصد چلنے کے بعد وہ ایک پارک کے کنارے بنچ پر بیٹھ گیا۔ اس کے ذہن میں ماضی کی یادیں امڈنے لگیں۔ بچپن میں وہ اسی گھر کے آنگن میں دوڑتا تھا، ماما کے ساتھ کھیلتا تھا، مامی اسے کہانیاں سناتی تھیں۔ وہ دن، وہ لمحے سب خواب ہو گئے تھے۔
کیا واقعی رشتے وقت کے ساتھ بدل جاتے ہیں؟ اس نے خود سے سوال کیا۔
اسی لمحے ایک مانوس آواز نے اسے چونکا دیا۔ “ارے منصور بھائی، آپ یہاں اس وقت؟” یہ اس کا پرانا دوست سلمان تھا، جو برسوں بعد ملا تھا۔
منصور نے سر اٹھایا اور زبردستی مسکرا دیا۔ “ہاں یار، بس یونہی۔ تم سناؤ؟‘‘
سلمان قریب بیٹھ گیا۔ “تم پریشان لگ رہے ہو؟ کیا بات ہے؟‘‘
منصور کچھ لمحے خاموش رہا، پھر بولا، “کبھی کبھی لگتا ہے کہ ہم رشتوں کے لئے جیتے ہیں، مگر آخر میں رشتے ہی ہمیں چھوڑ دیتے ہیں۔” اس کی آواز میں دکھ تھا۔
سلمان نے گہری سانس لی اور کہا، ’’یہ دنیا ایسی ہی ہے، منصور۔ جب تک تمہاری ضرورت ہو، لوگ تمہیں سنبھال کر رکھتے ہیں اور جب ضرورت ختم ہو جائے تو دو ٹکے میں بیچ دیتے ہیں۔‘‘
منصور نے سر ہلایا۔’’ہاں، میں نے آج خود یہ محسوس کیا۔ مگر میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ انسان کی عزت اتنی سستی کیوں ہو جاتی ہے؟‘‘
سلمان نے ایک لمحے کے لیے سوچا، پھر کہا، “کیونکہ ہم دوسروں کی نظروں میں عزت تلاش کرتے ہیں، اپنی نہیں۔‘‘
یہ جملہ سن کر منصور کے چہرے پر ایک تلخ مسکراہٹ آئی۔ “شاید تم ٹھیک کہتے ہو۔ ہمیں عزت کا معیار خود طے کرنا چاہیے، نہ کہ دوسروں کے رویئے پر چھوڑ دینا چاہیے۔‘‘
رات گہری ہو رہی تھی، مگر منصور کے دل میں ایک نیا احساس جاگ چکا تھا۔ وہ اب جان چکا تھا کہ اصل عزت خودداری میں ہے، نہ کہ دوسروں کی رائے میں۔
اگلے دن منصور نے فیصلہ کیا کہ وہ اپنی زندگی میں ایک نیا موڑ لے گا۔ وہ اب اپنی عزت، خودداری اور خوشی کا دار و مدار دوسروں پر نہیں رکھے گا۔
اس نے اپنے کیریئر پر توجہ دینے کا فیصلہ کیا۔ ایک عرصے سے وہ اپنے خوابوں کو پس پشت ڈالے بیٹھا تھا مگر اب وہ ایک نئی روشنی کے ساتھ آگے بڑھنے کو تیار تھا۔ اس نے کچھ کورسز کرنے کا ارادہ کیا اور اپنی صلاحیتوں کو بہتر بنانے کے لیے کام شروع کر دیا۔
چند مہینوں بعد، اس کی محنت رنگ لائی۔ اسے ایک بڑی کمپنی میں اچھی نوکری مل گئی۔ اب وہ خود مختار تھا، اپنے فیصلے خود کرنے لگا تھا اور سب سے اہم بات، وہ اب اپنی عزت کو دوسروں کی مرضی پر نہیں چھوڑ رہا تھا۔
ایک دن، اسے ماما کا فون آیا۔ “بیٹا، کافی دن ہو گئے، تم نظر نہیں آئے۔” ان کے لہجے میں ہلکی سی ندامت تھی۔
منصور نے مسکرا کر کہا، “ماما، میں مصروف تھا، اپنی زندگی کو بہتر بنانے میں۔
���
موبائل نمبر؛8082403001