لگ بھگ ایک ہی وقت میں دفعہ 35اے اور دفعہ370کے وجود کو چلینج کئے جانے کی درخواستیں عدالت عظمیٰ میں سماعت کے لئے منظور کئے جانے کے بعد اضطراب اور بے چینی کی جو منہ زور لہریں حالات کی تہو ں میں سرسرارہی ہیں وہ ابھی طوفانوں کی شکل اختیار کرنے کے عمل سے گزررہی ہیں اور یہ عمل کئی دہائیوں سے جاری ابتر حالات کی نہ صرف شکل تبدیل کررہا ہے بلکہ سیاسی منظر میں بھی کئی ایسی تبدیلیاں پیداہورہی ہیں جو مزاحمتی تحریک ، عسکری سرگرمیوں اور عوامی مزاحمت کے بیچوں بیچ ایک نئے سیاسی سٹیج کا تانا بانا بن رہی ہیں ۔ایک طرف جہاں آئینی ضمانتوں کیخلاف قانونی یلغار نے مزاحمتی محاذ کا فوکس تبدیل کردیا ،دوسری طرف قومی دھارے کے محاذ کا فوکس بھی بدل گیا اور عوامی سطح پر پہلے سے زیادہ شدت کے ساتھ عدم تحفظ اور بیگانہ پن محسو س کیا جانے لگا ہے جس کے نتیجے میں فوکس کامرکز ایک ہی بن رہا ہے اگر اسے کشمیر کی تاریخ کا معجزہ کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا حالانکہ ابھی پوری طرح سے اس کی شکل ابھر نہیں سکی ہے لیکن تیزی کے ساتھ یہ عمل مکمل ہونے کے قریب پہونچ رہا ہے ۔مزاحمتی محاذ کے وہم و گمان میں بھی اس سے پہلے یہ بات نہیں آئی تھی کہ اسے اقوام متحدہ کی قراردادوں کے تحت مسئلہ کشمیر کے اپنے موقف کے باوجود ریاست سے متعلق آئین ہند کی ضمانتوںکے تحفظ کی لڑائی لڑنے کیلئے میدان میں آنے پر مجبور ہونا پڑے گا اور قومی دھارے کی تمام چھوٹی بڑی جماعتوں کے خیال میں بھی یہ بات اس سے پہلے نہیں آئی ہوگی کہ انہیں باہمی رقابتوں اور اقتدار کی کشمکش کے ازلی و ابدی حدف سے اوپر اٹھ کر آئینی ضمانتوں کیخلاف منصوبہ بند یلغار کا مقابلہ کرنے کیلئے تمام اختلافات کے باوجود ایک دوسرے کا ساتھ کھڑا ہونا پڑے گا لیکن وقت نے یہ مجبوری سامنے کھڑی کردی ہے جس سے فرار سیاسی خود کشی کے مترادف ہوگا ۔سابق وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ گو کہ یہ کہہ کر مزاحمتی قیادت کو اس معرکے سے دور رکھنے کی کوشش کررہے ہیں کہ وہ آئین ہند کو ہی نہیں مانتی ہے اس لئے اس معاملے میںٹانگ اڑانے کی کوشش نہ کریں لیکن کشمیر کی ڈیمو گرافی تبدیل کرنے کی کوششیں اپنے آپ میں اسقدر اہمیت کی حامل ہیں کہ حریت قیادت چاہے بھی تو اس سے منہ موڑ نہیں کرسکتی کیونکہ اس کا تعلق ان کے بنیادی موقف کو زائل کرنے کا باعث ہوسکتا ہے ۔اس طرح مزاحمتی اور قومی دھارے کے متحارب محاذ گہرے فکری اور نظریاتی اختلافات کے باوجود سوچ اور عمل کے ایک نئے میدان میں ایک طرف صف آرا ء ہورہے ہیں اس طرح جو نیا سیاسی سٹیج تیار ہورہا ہے اس میں کسی کے لئے بھی الگ رہنے کا کوئی راستہ موجود نہیں ہے ۔اب انتظار اس بات کا ہے کہ عدلیہ کا فیصلہ کیا ہوگا اور حکومت ہند کا کردار کیا رہے گا ۔
یہ بات کسی شک و شبہے سے بالاتر ہے کہ دفعہ 35اے اور 370کیخلاف عرضیاں کسی فرد یا افراد کا ایڈوینچر نہیں ہے بلکہ پس پردہ وہ قوتیںاس کی پشت پر کھڑی ہیں جو علی الاعلان عین اُس وقت سے ریاست سے متعلق آئین ہند کی دفعات کیخلاف منظم اور منصوبہ بند تحریک چلا رہی ہیں جب سے یہ دفعات آئین میں شامل ہوئی ہیں ۔تکنیکی اوراصولی طور پر ان دفعات کو چلینج کرنا آئین ہند کی اعتباریت کو ہی چلینج کرنے کے مترادف ہے کیونکہ ان دفعات کو آئین کا حصہ بنانے میں ریاست کا کوئی کردار نہیں ہے۔آزاد ہند کے عوامی نمایندوں نے اسے آئین میں شامل کرنے کو منظوری دی ہے لیکن ایک نظر یاتی گروپ اپنے نظریات کی تکمیل کیلئے اس کے خلاف کھڑا ہوا اور جس وقت کشمیر میں ایک عبوری حکومت ابھی اپنی ذمہ داریاں سنبھال ہی رہی تھیں ’’ ایک ودھان ایک پردھان ‘‘کے نعرے کے ساتھ ایک تحریک کا آغاز ہوا اورریاست میں داخلے کیلئے لکھن پور میں پرمٹ حاصل کرنے کے نظام کو چیلنج کرتے ہوئے شیاما پرشاد مکرجی نے اپنے حامیوں کے ساتھ سرینگر کی طرف مارچ شروع کیا لیکن انہیں گرفتار کرلیا گیا اور میں قید کرلیا گیا جہاں ان کی موت واقع ہوئی ۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ بخشی غلام محمد اس وقت ریاست کے وزیر داخلہ تھے جو1953ء میں ریاست کے منتخب وزیر اعظم شیخ محمد عبداللہ کو راتوں رات قید کئے جانے کے بعد وزیر اعظم بنائے گئے ۔حالات و واقعات کے پس پردہ سیاسی کھلاڑیوں کے کردار اور واقعات کی پس منظر پر ابھی پردے پڑے ہوئے ہیں اور ہندوستان کی تاریخ کا یہ المیہ رہاہے کہ متضاد نظریاتی قوتیں بیک وقت اپنے اپنے انداز سے آئین ہند کی ان دفعات کیخلاف اپنا اپنا کھیل کھیلتی رہیں ۔آل انڈیا کانگریس جس کا ان دفعات کو آئین میں شامل کرنے میں کلیدی کردار رہا اس نے ریاست میں جمہوریت کا جنازہ نکالا اور نئی دہلی کے ایوان اقتدار سے ہی ریاست کے حکمرانوں کاانتخاب کرنے کا سلسلہ شروع کیا ۔ خواجہ غلام محمد صادق کو جب اقتدار کی کرسی پر بٹھایا گیا تو اسے دفعہ 370کو کھوکھلا کردینے کا ذریعہ بنایا گیا یہاں تک کہ یہ دفعہ برائے نام دفعہ بن کر رہ گئی ۔شریمتی اندرا گاندھی نے شیخ محمد عبداللہ کو ’’ اندرا عبداللہ ‘‘ سمجھوتے کے ذریعے اقتدار کی مسنند عطا کرکے رائشماری کی مضبوط تحریک ختم کرائی اور اپنی طرف سے کشمیر کا تنازعہ حل کرنے کا کارنامہ انجام دیا لیکن مسئلہ کشمیر دفن نہیں ہوابلکہ شیخ محمد عبداللہ کے بعد یہ مسئلہ برصغیر کے اس ناسور کی شکل میں ابھرا جو ڈیڑھ ارب لوگوں کی آبادی کیلئے ایک مسلسل خطرہ بن چکا ہے ۔ ہندوستان کے اقتدار سے کانگریس کا خاتمہ ہونے کے بعد جو قوت منصہ شہود پر آگئی اس کے ایجنڈے میں ریاست کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کو اولیت حاصل ہے ۔بھارتیہ جنتا پارٹی ریاست کے انتخابات میں بھی ایک قوت کی شکل میں ابھری۔ سب سے بڑی پار ٹی کی شکل میں پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی ابھری جس کے لئے اقتدار کے حصول کیلئے کسی دوسری پارٹی کی حمایت ضروری تھی ۔پیوپلز ڈیموکریٹک پارٹی کے انتخابی ایجنڈے میں سیلف رول سرفہرست تھا اور بھارتیہ جنتا پارٹی کے انتخابی ایجنڈے میں خصوصی پوزیشن کا خاتمہ ۔ان متضاد ایجنڈوں کا اتحاد ’’ ایجنڈا آف الائنس ‘‘کے سمجھوتے پر ہوا جسے سابق وزیر اعلیٰ مفتی محمد سعید نے قطبین کا اتحاد قرار دیا ۔ایجنڈا آف الائنس میں خصوصی پوزیشن کے تحفظ کی ضمانت شامل ہے لیکن اس ضمانت کے باوجود بی جے پی کی صفوں سے خصوصی حیثیت کے خاتمے کی آوازیں زور و شور کے ساتھ اٹھ کر اس ایجنڈے کی اعتباریت پر سوال اٹھاتی رہی ہیں۔اب جبکہ دفعہ 35اے اور 370کے خاتمے کے لئے قانون کا دروازہ کھٹکھٹایا گیا ہے تجزیہ نگار یہ سمجھنے میں حق بجانب ہیں کہ ایجنڈا آف الائنس کو اپنی جگہ رکھتے ہوئے بی جے پی اپنا ایجنڈا پورا کرنے کے راستے پر گامزن ہے ۔پیپلز ڈیموکریٹک کو اس وقت مفتی محمد سعید کی مضبوط قیادت کا سہارا حاصل نہیں ہے اور امتحان کی اس گھڑی میں محبوبہ مفتی اس جماعت کی قیادت کررہی ہیں ۔اس نازک ترین اورحساس مرحلے پر وہ ایک طرف قومی دھارے کی جماعتوں کے ساتھ مل کر رہی سہی خصوصی پوزیشن کا بچاو کرنے کیلئے مشترکہ محاذ بنانے کی تگ و دوکررہی ہیں اوردوسری طرف نئی دہلی کے ایوان اقتدار میں ’’ ایجنڈا ٓف الائنس ‘‘ کا واسطہ دیکر قانونی یلغار کو روکنے کی کوشش کررہی ہیں ۔وہ تمام اختلافات اور ساری رقابتوں کو بالائے طاق رکھ کر ڈاکٹر فاروق عبداللہ کے گھر گئیں اور قومی دھارے کی دوسری جماعتوں کے ساتھ بھی اس معاملے پر مشاورت کرتی رہیں اوراس کے ساتھ ساتھ انہوں نے نئی دہلی جاکر وزیر اعظم کے ساتھ بھی ملاقات کرکے اس معاملے پر ان کے ساتھ بات کی اور ان کا دعوی ہے کہ انہوں نے خصوصی پوزیشن کے تحفظ کی یقین دہانی کرائی گئی لیکن نیشنل کانفرنس کے صدر عمر عبداللہ اس پر یقین کرنے کو تیار نہیں ان کا کہنا ہے کہ یقین دہانی سرکار کی طرف سے نہیں دی گئی اس لئے اس کی کوئی اہمیت نہیں ہے ۔یہ بات اس لحاظ سے اہمیت رکھتی ہے کہ سرکاری طور پر وزیر اعظم کے ساتھ وزیر اعلیٰ کی ملاقات پر کوئی بیان جاری نہیں کیا گیا اور نہ ہی وزیر داخلہ کے ساتھ ان کی ملاقات پر کوئی سرکاری بیان جاری ہوا جیسا کہ عام طور پر ہوتا ہے ۔حکومت ہند عدلیہ میں دائر پٹشنوں کا کیا جواب داخل کرتی ہے اس پر فیصلوں کا سب سے زیادہ دار و مدار ہے اورابھی تک حکومت ہند نے اس بارے میں اپنی پوزیشن واضح نہیں کی ہے اور نہ عدلیہ میں ابھی تک حلف نامہ دائر کیا ہے ۔ اس بارے میں جو پراسرار خاموشی اختیار کی گئی ہے وہ خدشات میں اضافہ کرنے کا باعث ہورہی ہے ۔بہر حال جو بھی ہوگا ریاست کے سیاسی منظر کو مکمل طور پر تبدیل کرنے کا باعث ہوگا ۔حکومت ہند کی طرف سے مخالفانہ طریقہ کار اختیارکئے جانے کے نتیجے میں پی ڈی پی کے پاس بی جے پی کے اتحاد سے الگ ہونے کے سوا اور کوئی چارہ کار نہیں رہے گا چاہے اس کی خواہش ایسا کرنے کی ہو یا نہ ہو ۔مرکزی حکومت نے کشمیر کے حالات کو قابو میں کرنے کیلئے پہلے ہی بھرپور جارحانہ طریقہ کار اختیار کیا ہے ۔عسکریت کا زور توڑنے کیلئے آپریشن آل آوٹ شروع کیا گیا ہے ۔ مزاحمتی قیادت کو دباو میں لانے کیلئے این آئی اے کی مہم زوروں پر ہے اور مظاہرین کیخلاف پیلٹ اور بلٹ کا بے لگام استعمال ہورہا ہے ۔ اس سے اس سٹریٹجی کے کچھ اشارے مل رہے ہیں جس کے پیچھے واحد مقصد ریاست کوہمیشہ کے لئے زیر کرنا ہے ۔ اس کا عندیہ وزیر داخلہ کے ایسے بیانات سے بھی ملتا ہے جن میں وہ کہتے ہیں کہ حکومت مسئلہ کشمیر ہمیشہ کے لئے حل کرنے کی راہ پر گامزن ہے حالانکہ مسئلہ کشمیر پر کہیں کوئی بات نہیں ہورہی ہے صرف سخت ترین اقدامات کو اور زیادہ سخت بنایا جارہا ہے ۔اب اس معاملے کا جو سب سے اہم پہلو ہے وہ یہ ہے کہ دو قومی نظرئیے کو آج خود سکیولر آئین رکھنے والا بھارت درست ثابت کرنے کیلئے اٹھ کھڑا ہوا ہے ۔ریاست جموں و کشمیر میں سٹیٹ سبجیکٹ قانون مہاراجہ ہری سنگھ نے نافذ کیا ہے جو مسلم اکثریتی ریاست کا غیر مسلم حکمراں تھا ۔دفعہ 35اے اس قانون کی حکومت ہند کی طرف سے تحفظ کی گارنٹی فراہم کرتا ہے اوراگر حکومت ہند اس دفعہ کا خاتمہ کرتی ہے تو اس کی وجہ چاہے کچھ بھی بتائی جائے پس پردہ یہی احساسً ہوگا کہ ہندو اکثریتی ملک میں مسلم اکثریت ریاست برداشت نہیں ہوسکتی ہے ۔یہ کوشش ان تمام لوگوں کو غلط ثابت کرے گی جنہوں نے فرقہ وارانہ بنیادوں پر ہندوستان کی تقسیم کے باوجود بھارت کے ساتھ الحاق کی حمایت مسلم لیگ کا نظریہ غلط ثابت کرنے کیلئے کی تھی اور بھارت کے باہمی رواداری کے نظرئیے پر اعتبار کیا تھا ۔آر ایس ایس کے ساتھ ساتھ بھارتیہ جنتا پارٹی کے حلقوں سے بھی سٹیٹ سبجیکٹ قانون کیخلاف جو آوازیں اٹھ رہی ہیں ان کا مقصد اعلانیہ طورپر یہ بتایا جارہا ہے کہ سابق فوجیوں کو ریاست میں بسا کر اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کرکے اس مسئلے کو ختم کیا جاسکتا ہے جسے مسئلہ کشمیر کہا جاسکتا ہے لیکن جس طرح سے ریاست جموں و کشمیر کے الحاق کے وقت بھارت کا سیکولر نظریہ مکمل ہوا تھااسی طرح دفعہ35اے کا خاتمہ اس نظرئیے کا بھر م توڑ کر بھارت کو ایک بار پھر فرقہ واریت کی آگ میں جھونک دے گا ۔دو قومی نظریہ جسے بنگلہ دیش کے قیام نے توڑ کر رکھ دیا تھا، ایک بار پھر پوری قوت کے ساتھ اُبھرے گا اورتقسیم کے نئے دروازے کھول دے گا ۔
(نوٹ: مضمون نگار کی آراء سے ادارے کا کلی یا جزوی طور متفق ہونا ضروری نہیں)