ملک منظور
رات کی تاریکی میں رضوان خاموشی سے کھڑکی کے پار دیکھ رہا تھا۔ بادلوں میں چُھپا چاند مدھم سی روشنی بکھیر رہا تھا، جیسے کوئی تھکا ماندہ مسافر جو اپنی آخری کرنیں زمین پر لُٹانے والا ہو۔ رضوان کی آنکھوں میں سوالوں کی بارش تھی اور دل میں اضطراب کی آندھی۔
“کیا میں واقعی ترقی کر رہا ہوں؟” وہ خود سے مخاطب ہوا۔ “یا یہ سب صرف ایک دھوکہ ہے؟”
زندگی ایک طویل سفر کی مانند تھی لیکن رضوان کو یوں لگتا تھا جیسے وہ کسی بند گلی میں آ کر رک گیا ہو۔ وہ دوڑ رہا تھا، مسلسل آگے بڑھنے کی کوشش کر رہا تھا، مگر ہر بار ایک قدم پیچھے ہٹنے پر مجبور ہو جاتا تھا۔ وہ کامیاب ہونا چاہتا تھا، مگر ہر بار کوئی نہ کوئی رکاوٹ راستہ روک لیتی۔ کبھی حالات، کبھی خوف، کبھی اپنے ہی دماغ کے بنائے ہوئے وسوسے۔
تبھی اچانک دروازے پر ہلکی سی دستک ہوئی۔ وہ چونک گیا۔ دروازہ کھولا تو دادا جان کھڑے مسکرا رہے تھے۔ سفید داڑھی میں چھپی دانائی کی جھلک، آنکھوں میں گہری روشنی۔
“کیا بات ہے، بیٹا؟ کچھ پریشان سے لگ رہے ہو؟” دادا جان نے نرمی سے پوچھا۔
رضوان نے ایک گہری سانس لی اور کھڑکی کے پاس جا کھڑا ہوا۔ “دادا جان، میں کتنی محنت کر رہا ہوں، کتنی کوششیں کر چکا ہوں لیکن ایسا لگتا ہے جیسے میں آگے نہیں بڑھ رہا۔ ہر بار جب لگتا ہے کہ میں منزل کے قریب پہنچ گیا ہوں تبھی کوئی نہ کوئی رکاوٹ آ جاتی ہے۔ جیسے میں دو قدم آگے بڑھتا ہوں اور ایک قدم پیچھے ہٹ جاتا ہوں۔”
دادا جان مسکرا دیئے۔ قریب آ کر انہوں نے رضوان کے کندھے پر ہاتھ رکھا۔ “بیٹا، کبھی دریا کے پانی کو غور سے دیکھا ہے؟ وہ بہتا رہتا ہے، راستے میں پتھر بھی آتے ہیں، مگر وہ رک نہیں جاتا بلکہ ان کے گرد سے راستہ بنا کر آگے نکل جاتا ہے۔”
رضوان خاموشی سے سنتا رہا۔
“زندگی بھی دریا کی مانند ہے۔ تمہاری ترقی کا مطلب صرف سیدھا آگے بڑھنا نہیں بلکہ گر کر سیکھنا، رک کر سمجھنا اور پھر نئے جذبے سے آگے بڑھنا ہے۔ تم کہہ رہے ہو کہ تم دو قدم آگے بڑھتے ہو اور ایک قدم پیچھے ہٹ جاتے ہو؟ تو اس کا مطلب ہے کہ تم اب بھی آگے بڑھ رہے ہو، پیچھے نہیں جا رہے۔”
رضوان نے حیرت سے دادا جان کی طرف دیکھا۔
“بیٹا، روشنی کی تلاش میں اکثر ہم اندھیرے کو بھول جاتے ہیں، جبکہ اصل سیکھنے کا عمل انہی تاریک لمحوں میں ہوتا ہے۔ ترقی کا مطلب صرف کامیابی نہیں بلکہ وہ تمام تجربے ہیں جو تمہیں بہتر انسان بناتے ہیں۔”
رضوان کی آنکھوں میں ایک نئی چمک آ گئی۔
وہ اب سمجھ چکا تھا کہ زندگی صرف منزل پر پہنچنے کا نام نہیں بلکہ راستے کو محسوس کرنے، اس سے سیکھنے اور خود کو بہتر بنانے کا نام ہے۔ وہ جان چکا تھا کہ دو قدم آگے اور ایک قدم پیچھے بھی درحقیقت ترقی ہی ہے، کیونکہ وہ اب بھی آگے بڑھ رہا تھا۔
باہر چاند بادلوں کے پیچھے سے نکل آیا تھا۔ روشنی پہلے سے کچھ زیادہ چمکدار لگ رہی تھی۔ رضوان نے پختہ ارادوں کے ساتھ اپنا سفر جاری رکھا۔
قصبہ کھل کولگام ،کشمیر