ملک منظور
اس گھاٹی کے چاروں طرف اندھیرا تھا اور سناٹا بھی ۔ اس سناٹے نے مجھے پسینہ پسینہ کردیا۔ ڈر نے میرے رونگٹے کھڑے کر دئیے۔میں آگے بڑھ گیا اور یہ دیکھ کر ہکا بکا ہوا کہ کچھ لوگ سانپوں کی طرح ایک دوسرے کو ڈس رہے تھے ۔ایک آدمی دوسرے آدمی کے سر پر پتھر مارتا تھا جس سے اس کا سر پھٹ جاتا تھا۔ کچھ لوگ ناخنوں سے اپنا چہرہ اور سینہ چھل رہے تھے۔کچھ لوگوں کے پیٹ بہت بڑے تھے اور ان پیٹوں میں سانپ نظر آرہے تھے ۔کچھ خونخوار جانوروں کی طرح ایک مردوں کا گوشت کہا رہے تھے ۔ میں حیرت میں پڑ گیا کہ یہ کیا ہورہا ہے ۔میری سمجھ میں کچھ بھی نہیں آرہا تھا۔اسی اثنا میں میں نے اجگر کو انسان کے ڈر سے بھاگتے دیکھااور بھیڑیوں کو ان سے چھپتے دیکھا ۔
میں سمجھ نہیں پایا کہ آخرماجرا کیا ہے ۔
اس دوران میری نظر پتھر پر بیٹھے ایک انتہائی بدصورت شخص پر پڑی جس کا جسم بھالو کی طرح سیاہ گیسوؤں سے ڈھکا ہوا تھا ، آنکھیں انگاروں سے زیادہ چمکدار اور ناخن تلواروں کی طرح تیز تھے۔اس کا دانتوں پر خون لگا ہوا تھا ۔اس شخص نے باہیں پھیلا کر کہا ۔۔۔۔شاباش! بیٹا شاباش!۔یہ راستہ اختیار کرنے کے بعد بلآخر تو اپنی منزل کے قریب پہنچ ہی گیا ۔۔۔۔میں نے پوچھا ۔آپ کونہو ؟اس نے قہقہ لگا کر کہا۔۔آپکو نہیں معلوم ۔۔۔میں نے کہا نہیں ۔۔۔۔میں وہ ہوں جس نے تجھے اس راستے پر چلنے کے لئے قائل کیا۔
میں نے پھر پوچھا ۔۔۔۔ اتنا بتاؤ کہ ماجرا کیا ہے ۔یہ لوگ لڑتے جھگڑتے اور ایک دوسرے کا خون کیوں بہاتے ہیں۔
وہ شخص کہنے لگا ۔۔۔یہ لوگ نہیں آدم خور درندے ہیں دولت کی دوڈ میں ایک دوسرے کو پچھاڑ کر آسمان کو چھونے کی کوشش کر رہے تھے اسی لئے ایک دوسرے کا خون بہا رہے ہیں۔
۔۔۔ تُو بھی اب انسان نہیں انسانیت خور جانور ہے ۔اور ان جانوروں سے زیادہ خونخوار ۔میں نے نکارتے ہوئے کہا۔۔۔نہیں نہیں میں ایسانہیں ہوں ۔میں نے ایسا کچھ نہیں کیا۔۔
اس شخص نے بدصورت چہرے پر خوفناک مسکراہٹ سجاتے ہوئے کہا۔۔۔سن اے ابن آدم
تو جس راستے سے یہاں پہنچا۔ اس راستے میں تونے غریبوں کا خون چوسا ،معصوم کلیوں کی عفتیں لوٹیں ،معصوم بچیوں کا ماں کے رحم میں قتل کیا اور شراب کے نشے میں مجبوروں کا ناجائز فائدہ اٹھایا ۔اسلئے تو انسان نہیں انسانیت سوز درندہ ہے اور سانپ سے زیادہ زہریلا ۔۔
میں سوچ میں پڑ گیا کہ آخر میں یہاں کیسے پہنچا اور میں کیسے انسانیت کو ڈسنے والا اجگر بن گیا ۔میں نے اپنے گریبان میں جھانکاتو مجھے جوانی کا وہ دو راہا نظر آیا ۔جہاں مجھے دو راستوں میں سے ایک راستہ چننا تھا۔ایک راستہ سیدھا اور لمبا تھا لیکن کانٹوں اور انگاروں سے بھرا ہوا جبکہ دوسرا راستہ چھوٹا اور ٹیرھا لیکن پھولوں اور خوشبوؤں سے سجا ہوا تھا۔میں نے اکثرلوگوں کو اسی سرل اور ٹیڑھے راستے پرچلتے دیکھا اور چند بزرگوں اور نوجوانوں کو اس دشوار اور سیدھے راستے کی جانب بڑھتے دیکھا ۔
میں شش و پنج میں پڑھ گیا کہ کون سا راستہ اختیار کروں ۔
اسی دبدھا میں کچھ سمے گزارنے کے بعد میں ان لوگوں کے پیچھے پیچھے چلنے لگا جو تعداد میں کم تھےلیکن ایک دوسرے کے خیرخواہ تھے۔وہ مل بانٹ کر کھاتے تھے۔ایک دوسرے کی مدد کرتے تھے کمزوروں کو اپنے ساتھ لے چلتے تھے اگر کسی کا پاؤں پھسلتا تو اس کی حوصلہ افزائی کرتے تھے ۔ ان کا راستہ دشوار تھا ۔تھوڑی دور پہنچ کر میں نے اس راستے کے اکناف میں کانٹوں کی جھاڑیاں دیکھیں،خطرات دیکھئے۔روک ٹوک اور مصائب دیکھے ان پر وحشی جانوروںکے حملے دیکھے۔ اس راستے پر چلنے والے لوگ اپنا دامن سمیٹے پھونک پھونک کر قدم اٹھا رہے تھے، ایسا لگ رہا تھا جیسے آگے کنواں پیچھے کھائی کا معاملہ ہو ۔انکے قدم ڈگمگا رہے تھے۔انگاروں سے بھرا ہوا راستہ ،رکاوٹیں ہی رکاوٹیں، اور تکالیف کی بھرمار ۔لیکن وہ یقین کامل اور بغیر ڈرکے بڑھتے گئے ۔میں نے سوچا یہ لوگ تو پاگل ہیں جو کسی ان دیکھی منزل کی طرف آسان راستے کو چھوڑ کر تکلیف دہ سڑک سے گزر رہے ہیں ۔
میں نے ایک بزرگ سے پوچھا ۔۔۔بابا ۔۔آپ نےیہ دشوار راستہ کیوں چنا حالانکہ دوسرا راستہ آسان اور خوبصورت ہے۔
اس نے سر پر ہاتھ رکھ کر بتایا۔۔۔بیٹا ۔۔۔یہ سیدھا راستہ ہے ۔۔۔اس راستے سے ہمارے بزرگ اور نیک لوگ گزرے ہیں ۔۔ہم بھی ان کے نقش قدم پر چل رہے ہیں۔اسی راستے سےامیر کبیرؒ اور شیخ العالمؒ گزر چکے ہیں۔اسی راستے سے رابیعہ بصریؒ گزر چکی ہے۔ان تکلیف دہ جھاڑیوں کے اس پار باغ فردوس ہے جہاں امرت پی کر انسان امر ہوجاتا ہے اور یہ دکھ سکھ بھول جاتاہے۔جہاں تمام قسم کی آسائشیں میسر ہیں اور لافانی زندگی۔ بزرگ کی باتیں میرے فہم سے نہیں ٹکرائیں ۔ میں نے سمجھنے کی کوشش بھی نہیں کی اس لئے لوٹ آیا اور ہموار راستے پر بدلتی دنیا کے ہمراہ چلنے لگا ۔راستے کے خوبصورت مناظر دیکھ کر میں باغ باغ ہوا ۔اس راستے پر لوگوں کی بڑی بھیڑ تھی ۔سب مصروف کار تھے۔میں بھی انکے ساتھ مشغول ہوگیا ۔میرا مرتبہ بلند ہوتا گیا ۔میں ابتہاج کے ساتھ آگے بڑھنے لگا ۔کچھ عرصے کے بعد میں نے ایک جگہ پر چھوٹے چھوٹے کانچ کے گلاسوں میں لال رنگ کا جوس بھرا ہوا دیکھا ۔میں نے ایک گلاس اٹھا کر مزہ چکھا تو مٹھاس نے مجھے للچایا ۔میں پیتا گیا جب تک میرا پیٹ نہ بھرا ۔میں آگے بڑھتا رہا اور آس پاس کے رنگ برنگی مناظر سے خود کو محظوظ کرتا رہا ۔ایک پڑاؤ پر میں نے پھولوں کا ایک باغیچہ دیکھا ۔اس میں خوبصورت مہکے ہوئے پھول تھے ۔انخوبصورت پھولوں کے جمال نے مجھےمدہوش کردیا ۔اسی ازخود رفتگی کے عالم میں میں نے کئی پھول توڑے ۔انکی نازک کونپلوں کے ساتھ کھیلا اور سونگھ کر پاؤں تلے روند ڈالا ۔پھر ایک جگہ پر میں نے لفافوں میں بند چھوٹے چھوٹے گوشت کے لوتھڑے دیکھئے۔جو شاید میرے ہی وجود سے تعلق رکھتے تھے۔جن میں معمولی جنبش تھی ۔میں نے ایک لوتھڑے کو ہاتھ میں اٹھایا تو میرے لباس پر خون کا ایک چھوٹا سا داغ لگ گیا۔ مجھے برا لگا اور میں نے غصے میں آکر ان لفافوں کو پھاڑ کر لوتھڑے دور پھینک کر کتوں اور کوئوں کو کھلا دئیے ۔اونچے اونچے محلوں کے آرام دہ کمروں میں میں نے آدھی عریاں عورتوں کو ناچتے گاتے دیکھا ۔میں بھی بیٹھ کر نفس امارہ کو مطمئن کرنے لگا ۔بڑی بڑی بوتلوں میں رکھی ہوئی شربت پی کرحسن وجمال کی مداح کرتا رہا۔میں اس راستے کی ہر حسین چیز سے لطف اندوز ہوتا رہا اور بالآخر ایک کالی گھاٹی میں پہنچ گیا ۔
اس ڈراؤنی شکل والی مخلوق نے پھر کہا
تو بھی شامل ہوجا اونچا مقام حاصل کرنے کی دوڑ میں ۔۔۔
میں گھبرا گیا اور کہنے لگا ۔۔۔۔۔نہیں ۔۔ہر گز نہیں
مجھے واپس جانا ہے۔۔۔۔
۔۔۔اس شخص نے کہا ۔۔۔۔یہاںسے واپس جانا ناممکن ہے
میں نے کہا ۔۔۔کیوں ؟
کیوںکہ جس راستے سے تو یہاں پہنچا ہے وہ راستہ آگ کے دریا میں بدل چکا ہے ۔۔۔
اور اس پر آگ کی کشتیاں چلتی ہیں
کیا تم آگ کی کشتی پر سوار ہوکر واپس جاسکو گے ۔۔۔
ہا ہا ہا !ہا !قہقہ لگاتے ہوئے وہ شخص غائب ہوگیا اور میں نیند سے بیدار ۔۔۔۔
���
قصبہ کھُل کولگام،موبائل نمبر؛9906598163