سابقہ را سربراہ اے ایس دلت اور ان کے پاکستانی سابقہ ہم منصب جنرل درانی نے ہند پاک تعلقات خاص طور سے جموں کشمیر کے حوالے سے اُن کے تجربات ، مشاہدات اور طریقہ کار کا خلاصہ ان دونوں با اثر شخصیات کی طرف سے مشترکہ طور سے تصنیف کی گئی اس کتاب میں کیا گیا ہے جس کی رسم رونمائی گذشتہ دنوں نئی دلی میں انجام دی گئی ۔ ایک ایسے موقعہ پر جب ہند وستان پاکستان اور کشمیریوں کے درمیان مذاکراتی عمل کو شروع کرانے کیلئے در پردہ کوششیں بظاہر سرعت کے ساتھ جاری ہیں دلت اور درانی کی مشترکہ تصنیف ایک سے زیادہ وجوہات کی بنا ء پر اہمیت کی حامل ہے۔ کشمیری نہ ہی تو درپردہ سفارتکاری کے مخالف ہو سکتے ہیں اور نہ ہی مسٹر دلت یا درانی کو کچھ کہنے یا لکھنے سے روک سکتے ہیں لیکن اس بات میں بھی کوئی شک نہیں کہ ہند پاک کشیدگی کی بنیادی اور واحد وجہ 70برسوں سے التوا میں پڑا جموں کشمیر کا وہ دیرینہ سیاسی تنازعہ ہے جس نے 1947سے اب تک نہ صرف پانچ لاکھ کشمیریوں کی جانیں لی ہیں بلکہ پورے بر صغیر کی فضا کو زہر آلود ہ بنا کے رکھ دیا ہے ۔ بیشک ہندوستانی اور پاکستانی شہریوں اور فوجیوں کی جانیں بھی اس مدت کے دوران تلف ہوئیں لیکن اگر اس کا کشمیریوں کے نقصانات سے موازنہ کیا جائے تو صاف ظاہر ہوگا کہ اہل کشمیر اس ساری المناک صورتحال سے سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں ۔لیکن بد نصیبی یہ ہے کہ معاملے کے بنیادی فریق ہونے اور اپنا سب کچھ قربان کرنے کے باوجود بھی اہل کشمیر کی تنازعہ کے حل کے حوالے سے حیثیت نہ ہونے کے برابر رہ گئی ہے ۔ خاص طور سے 1989سے اب تک جاری مار دھاڑ میں اہل کشمیر پر جو بے پناہ مصائب ڈھائے گئے ہیں ان کا تذکر ہ کرنے سے بھی روح کانپ اٹھتی ہے۔ کون نہیں جانتا کہ جموں کشمیر میں جہاں سینکڑوں لوگ تحریک دشمن اور ہند نواز کی لیبل لگنے کے بعد اپنی زندگیاں معلوم اور نا معلوم بندوق برداروں کے ہاتھوں گنوا بیٹھے وہاں ہزاروں لوگوں کو سچ بولنے اور کشمیر مسئلہ کے حل کی بات کرنے کی پاداش میں ملک دشمن اور پاکستانی ایجنٹ کہہ کر بے رحمی کے ساتھ ابدی نیندیں سلا دیا گیا ۔ ان تما م ہلاکتوں اور بربادیوں کے فیصلوں میں ہند پاک سراغ رساں ایجنسیوں کا بھاری عمل دخل ہونا فطری بات ہے اور قوم دشمنی یا تحریک دشمنی کی تاویلات بہر حال ان ہی ایجنسیوں کی ایجادات اور منشاء پر منحصر ہیں ۔ جہاں درپردہ مذاکراتکاری کے نام پر ہندوستان اور پاکستان کے دانشور ، سیاستدان ، صحافی اور سراغ رساں اداروں کے عہدیداران دنیا کے مختلف تفریحی مقامات پر مل بیٹھ کر کشمیر مسئلہ کے حل کی بات کرتے ہیں وہاں اہل کشمیر اگر حج یا عمرہ کیلئے بھی جائیں تو انہیں مقامی تھانہ سے لیکر NIAکے ہیڈ کوارٹر تک حاضری دینی پڑتی ہے اور مشکوک افراد کی فہرست میں ان کا خود بخود اندراج ہو جاتا ہے ۔ کتنی عجیب بات ہے کہ امن کی آشا ء کے نام پر ہندوستانی اور پاکستانی شہری کبھی واگا سرحد پر مشعل بردار جلوس نکال کر امن کے پیامبر بن جاتے ہیں تو کبھی یہی لوگ اور دونوں ملکوں کے سیاستدان اور باقی حضرات ایک دوسرے کے سفارت خانوں پر جا کر مختلف تقریبات کی زینت بن جاتے ہیں لیکن اہل کشمیر اگر آپس میں بھی بات کریں تو انہیں فتویٰ بازی کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ جہاں منی شنکر ائر اور ان جیسے دیگر لوگو ں کا درپردہ سفارتکاری کے نام پر آر پار جانا محبوب مشغلہ بن چکا ہے وہاں اہل کشمیر خونی لکیر کی طرف دیکھنے کا بھی نہیں سوچ سکتے ۔سرحدی علاقوں کے لوگوں پر تو ہر وقت شک کی تلوار لٹکتی رہتی ہے ۔ غرض وہ لوگ جو معاملے کے بنیادی فریق ہیں نہ صرف خود کو چاروں طرف محکوم و مجبور پا رہے ہیں بلکہ ان کی مجبوریوں اور مصائب کو ہندوستا ن اور پاکستان کا ایک چھوٹا مگر طاقتور طبقہ بشمول سراغ رساں ایجنسیوں کے اپنے مفادات اور تفریح کیلئے استعمال کرتا آیا ہے ۔ تاہم کشمیریوں کی بے بسی اور ان کا ہر قدم پر مذاق اڑانے کی ذمہ داری صرف ہندوستانی اور پاکستانی عناصر پر ڈالنا مناسب نہیں ۔ اگر یوں کہیں کہ اہل کشمیر نے 1989سے اب تک خود ہی اپنے لئے بے بسی اور لاچار گی کا ماحول تیار کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی ہے تو بیجا نہ ہوگا ۔ جہاں ہر کشمیری اپنے سوا باقی ہر ایک کو شک کی نگا ہ سے دیکھنے کا عادی ہو چکا ہے وہاں قیادت کے دعویدار لوگ چاہئے وہ کسی بھی سیاسی نظریہ کے قائل ہوں اپنے لوگوں کو ایک دوسرے کی نظروں میں گرانے کی احمقانہ اور منافقانہ کوششوں میں روز اول سے ہی مصروف عمل ہیں ۔ ایک طرف جہاں موجودہ مزاحمتی تحریک تیس برس مکمل کرنے کو ہے وہاں قیادت کے دعویدار وں کی نا اہلی کی وجہ سے عام لوگ نہ صرف قیادت سے متنفر ہو تے جا رہے ہیں بلکہ کسی بھی سیاسی شخصیت کی وفاداری ، نیت اور خلوص ہر وقت شک کے دائرے میں رہتی ہے ۔ دلت اور درانی اپنے کرتوتوں اور کارناموں کو کتابی شکل دیکر نام ، پیسہ اور شہرت بھی کما سکتے ہیں لیکن کشمیریوں کے سروںپر سوار مختلف نظریات کی حامل لیڈروں کی فوج آپس میں ایک بار مل بیٹھ کر بات بھی نہیں کر سکتی ۔ ایسا نہیں ہو سکتا کہ سیاسی لوگ با ہم مشاورت کی اہمیت سے ناواقف ہوں لیکن یہ بات بغیر کسی خوف و خطر کے کہی جا سکتی ہے کہ جموں کشمیر کے سیاسی مسئلہ کے حوالے سے جوں کی توں حالت کا بر قرار رہنا کچھ ہول سیل اور پرچون بیوپاریوں کیلئے فائدہ مند سودا ہے ۔ بد نصیبی تو یہ ہے کہ نہ ہی اب تک مین اسٹریم جماعتیں 70%ووٹنگ کے عمل سے کچھ حاصل کر سکی ہے اور نہ ہی مزاحمتی قیادت قوم کی بیش بہا قربانیوں کو سیڑھی بنا کر کہیں منزل کی طرف پیش رفت کر سکی ہے ۔ بہانہ بازیوں ، مجبوریوں اور مسائل کو الجھانے کی ایک ایسی روایت لیڈروں نے کھڑی کی ہے کہ بے بس اور محکوم کشمیری اپنے آپ پر بھی بھروسہ کرنے کیلئے تیار نہیں ہیں۔ ہندوستان اور پاکستان کے ساتھ رابطے استوار کرنے سے بھلا کس کو انکار ہو سکتا ہے لیکن ان رابطوں کو اپنی ہی قوم کی پیٹھ میں چھرا گھونپنے کیلئے استعمال کرنا ایسا پاپ ہے جس سے وقت آنے پر قوم ہرگز معاف نہیں کر سکتی۔ یہ سوچنا کشمیری قیادت کا کام ہے کہ وہ مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے نئی دلی اور اسلام آباد کو با معنیٰ مذاکرات کیلئے آمادہ یا مجبور کرے ۔ تاہم یہ بات ڈھنکے کی چوٹ پر کہی جا سکتی ہے کہ مین اسٹریم سیاسی جماتوں کا رول موجودہ پُر آشوب دور میں پہلے سے کہیں زیادہ ہے ۔ یہ دوسری بات ہے کہ مزاحمتی قیادت اپنی انا پر برقرار رہتے ہوئے انہیں درخوراعتنا نہیں سمجھتی ہے ۔ عمر عبداللہ اور محبوبہ مفتی چاہیں تو نئی دلی کو گھٹنے ٹیکنے کیلئے مجبور کر سکتے ہیں کیونکہ ہندوستان کے پاس پوری دنیا کو یہ ثابت کرنے کیلئے کوئی اور چیز نہیں کہ عمر عبداللہ اور محبوبہ مفتی جیسے لوگ کشمیریوں کے چنے ہوئے نمائندے ہیں اور مزاحمتی قیادت لاکھ جتن کرے وہ ٹنل کے اُس پار ایک انچ بھی مین اسٹریم جماعتوں کی اہمیت کو ختم نہیں کر سکتی ہے۔ صورتحال چاہئے 1989کی ہو ، 2008،2010یا 2016کی یہ تلخ حقیقت اپنی جگہ موجود ہے کہ مزاحمتی قیادت کی تمام کاوشیں نہ تو مین اسٹریم جماعتوں کے وجود کو ختم کر سکی ہیں اور نہ ہی انہیں کشمیر مسئلہ سے علیحدہ کرنے میں کامیاب ہوئی ہیں ۔ تاہم مزاحمتی قیادت کی مجبوریاں اور ناکامیاں اپنی جگہ لیکن مین اسٹریم جماعتوں نے جس طرح مزاحمتی قیادت کو ہر بار انتشار میں مبتلا کر کے اپنی روٹیاں سیکنے کا عمل جاری رکھا ہوا ہے وہ کشمیریوں کیلئے بے حد نقصان دہ ثابت ہوا ہے ۔ وقت آ چکا ہے کہ کشمیری ایک دوسرے کے خلاف فتویٰ بازی اور سازشیں بند کرکے باہم مشاورت کرنے کی راہ اختیار کریں تاکہ کسی کو یہ ہمت نہ ہو کہ وہ انہیں ہمیشہ بھیڑ بکریوں کا ریوڑ سمجھ کر اپنے مفادات کیلئے استعمال نہ کریں ۔ سیاسی لوگ خلوص ، تدبر اور سنجیدگی کا مظاہرہ کرنے کا عزم کریں تو کوئی وجہ نہیں کہ جموں کشمیر کے تنازعہ کا اس کے تواریخی پس منظر میں حل کی طرف پیش رفت نہ ہو۔ شرط صرف یہ ہے کہ کشمیری قیادت مسئلہ کو خود ہی بانت بانت کی بولیاں بول کر نہ الجھائے بلکہ اپنی قوم کے ساتھ ہندوستا ن اور پاکستان کے علاوہ اقوام متحدہ کے کئے گئے وعدوں اور معاہدوں سے ہر گز دستبردار نہ ہو جائے۔