شاہد دفتر سے لوٹ کر جب جہلم کے پل پر پہنچا تو جہلم کے بہتے پانی پر نظر پڑتے ہی اس کے قدم رک گئے۔ اسے لگا یہ پانی نہیں خون کا دریا بہہ رہا ہے۔ جس میں لاشوں کے ساتھ ساتھ انسانی جسم کے اعضاء بھی علیحدہ علیحدہ تیر رہے ہیں۔وہ غور سے دیکھنے لگا تو اس کی نگاہیں کبھی جسم سے الگ ہوئے بازوؤں پر پڑتی تو کبھی جدا ہوئی ٹانگوں پر۔ اسے معصوم بچوں کے پھول جیسے نازک جسم بھی تیرتے ہوئے نظر آئے اور عورتوں کی چوٹیاں بھی۔ اس کا دل دہل گیا۔ شاہد اپنے دونوں ہاتھوں کو آنکھوں پر رکھ کر آنکھیں ملنے لگا۔ اسے لگا شاید یہ میرا وہم ہے جو کچھ میں دیکھ رہا ہوں۔ آنکھوں پر سے ہاتھ اٹھانے کے بعد جب اس نے دوبارہ بہتے دریا پر نظر دوڑائی اس نے پھر وہی منظر دیکھا۔ اب اسے جہلم کے کنارے لگے چنار بھی لہو میں نہائے ہوئے محسوس ہوئے یا ان کو آگ نے اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔
شاہد خاموش و مغموم اس منظر کو دیکھتا رہا۔ اس کے ذہن میں ڈراونے خیالات جگہ کرنے لگے۔ خیالات کے ان جھمیلوں میں اسے اپنی معصوم بیٹی، اپنی بیوی اور بوڑھی ماں کا خیال آیا کہ وہ گھر میں اس کا انتظار کر رہے ہوں گے۔ ماں کا خیال آتے ہی اسے ماں کی کہی ہوئی بہت سی باتوں میں سے وہ بات یاد آگئی جس میں اس نے دیو اور جہلم کے بارے میں کہا تھا۔
"بیٹا یہ جو جہلم ہے اس کے سینے میں بہت سے اسرار پوشیدہ ہیں۔ اس کے جگر میں نہ جانے کتنے گہر و صدف دفن ہیں۔ یہ دریا کبھی اس بستی کو شاداب کیا کرتا تھا۔ اسی بستی کو جس میں تم رہتے ہو۔ نہ جانے اچانک یہ کیسے اس دیو کا ہمراز بنا، جس نے پوری بستی کو اپنی گرفت میں لے لیا۔ ہر شام جوں ہی اندھیرا چھا جاتا وہ کسی نہ کسی انسان کو نگل کر بعد میں جہلم کے کنارے جاتا، وہاں الٹی کرتا اور اسے جہلم کے سپرد کرتا۔"
خود کو جھٹک کر شاہد پھر دریا کی طرف دیکھنے لگا۔ تیرتی ہوئی لاشوں کو دیکھ کر وہ خود سے سوال کرنے لگا" کیا آج دیو نے پھر سے الٹی کی جو یہ اتنی لاشیں، اتنے اعضاء تیر رہے ہیں؟"
دھیرے دھیرے اسے ماں کی کہی ہوئی باتوں پر یقین ہونے لگا۔ جن کو وہ ماننے کے لئے تیار نہ تھا۔ اس نے کبھی اتنے دھیان سے جہلم کی طرف نہیں دیکھا تھا۔ سرخ پانی جہلم میں اس سے پہلے بھی بہتا تھا لیکن اسے کبھی دکھائی نہیں دیا۔
"ٹرن ٹرن۔ ٹرن ٹرن" جوں ہی موبائل فون کی گھنٹی بجی شاہد نے کوٹ کی جیب سے فون نکالا اور دیکھنے لگا جس پر اس کی بیوی حمیرہ کا نام بڑے حروف میں نمایاں تھا۔ اس نے فون کاٹ لیا شاید اس لیے کہ وہ اپنے گھر سے زیادہ دور نہیں تھا اور چند ہی منٹوں میں گھر پہنچنے والا تھا۔
گھر کی طرف نکلتے ہوئے اس نے بہتے دریا کو ایک بار پھر دیکھا، اسے لگا پانی میں دو آنکھیں بھی تیر رہی ہیں۔ ڈراونے خیالات کے بادل اس کے ذہن کے افق پر منڈلا رہے تھے۔ حمیرہ نے دوسری بار فون کیا تو شاہد نے فون رسیو کرتے ہوئے مختصرا" کہا،"بس پہنچ رہا ہوں"۔ دوسری جانب سے حمیرہ بلبلاتی ہوئی مخاطب ہوئی"شاہد فورا" اسپتال پہنچ جاو۔ آبرو کو ایڈمٹ کیا گیا"
"کیوں؟ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔" شاہد کچھ اور پوچھنا چاہتا تھا کہ فون ہی کٹ گیا۔
اب شاہد کے قدم گھر کے بجائے اسپتال کی طرف اٹھنے لگے۔ اسپتال پہنچ کر معلوم ہوا کہ آبرو شعبہ عینیات (Opthomology)کے وارڈ میں ہے۔ عینیات کے وارڈ میں پہنچ کر شاہد کی نظر اس بیڈ پر پڑی جس پر اس کی بیٹی آبرو لیٹی ہوئی تھی۔ بیڈ کے قریب پہنچ کر جب اس نے اپنی بیٹی کو دیکھا وہ دم بخود ہو کر رہ گیا۔ اس کی ڈیڑھ سالہ بیٹی آبرو کی دونوں آنکھوں پر پٹی بندھی ہوئی تھی۔
رابطہ؛بدورہ اسلام آباد، کشمیر