’’ انااللہ و انا الیہ راجعون۔ آخر وہی ہوا جس کا ڈر تھا‘‘۔
فون بند کرتے ہی جعفر کے مُنہ سے بے ساختہ نکلا ۔اس نے ایک لمبی آہ کھینچتے ہوئے گھڑی کی طرف دیکھا توآدھی رات کا وقت تھا۔وہ شام کو ہی اسپتال سے اشفاق کی خبر گیری کرکے آیا تھا،اس سے ڈھیر ساری باتیں بھی کی تھیں۔ اشفاق کی طبعی حالت اگر چہ غیر تسلی بخش ہی تھی لیکن اسے دیکھ کر بالکل بھی گمان نہیں ہوتا تھا کہ وہ اتنی جلدی چلا جائے گا۔ اچانک اپنے یار کی موت کی خبر سن کر وہ سخت رنجیدہ ہوا۔اُسکا کا گلا خشک ہو گیا اور آنکھیں بھر آئیں ۔ اس نے پانی کے چند گھونٹ ہلک سے اُتارے اور سگریٹ سلگا کر بے چینی کی حالت میں کمرے میں ٹہلنے لگا۔اشفاق کی اُلجھنوں بھری زندگی کی تہہ در تہہ دکھ بھری داستان رفتہ رفتہ اس کے ذہن کے پردے پر فلم کی طرح چلنے لگی ۔۔۔۔۔۔۔
وہ ابھی بچہ ہی تھا جب اشفاق اس کے محلے میں رہنے آیا تھا اور دونوں کی دوستی ہوگئی۔تب اسے بالکل معلوم نہیں تھا کی اشفاق کون ہے؟کہاں سے اور کیوں آیا ہے ؟۔۔۔۔۔۔ لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان کی دوستی پروان چڑھی۔ دھیرے دھیرے اس پراشفاق اور اس کے گھرانے کے تمام راز کھل گئے۔
یہ کہانی ساٹھ سال قبل تب شروع ہوئی تھی جب سرنگ کے اُس پار آبادگرم پتھری شہر کی فضائوں میں نفرتوں کی تیز آندھیاں چلیں اور دیکھتے ہی دیکھتے شہر کے یمیں و یسار میں لاکھوں مرد وزن ،معصوم بچوں اور بزرگوں کو انتہائی بے دردی کے ساتھ تہہ تیغ کرکے خون میں نہلایا گیا ۔۔۔۔۔۔عصمتیں سر عام نیلام ہوئیں ۔۔۔۔۔۔ان گنت جائیدادیں پھونک ڈالی گئیں ۔۔۔۔۔۔ مختصراً یہ کہ انسانی لبادے میں چھپے درندوں نے وحشیانہ پن کی تمام حدوں کو روندھ کر بے رحمی سے انسانیت کی ردا کو تار تار کر دیا ۔اشفاق، جو اس وقت محض سات سال کا بچہ تھا، کا گھرانہ بھی ان ہی آندھیوں کی نذر ہو گیا ۔جنونی درندوں نے اس کے والد سمیت گھر کے درجن بھر مرد وزن اورمعصوم بچوں کو ایک ہی جست میں موت کے مُنہ میں دھکیل کر ان کے آشیانے کو آگ کی لگادی تھی ۔اشفاق کی ماں چاندنی اُس رات کسی طرح اپنے چار کمسن بیٹوں اور ایک بیٹی کو گھر سے نکال کر نزدیکی پہاڑی پر جا کر جھاڑیوں میں کئی دن بھوکی پیاسی چُھپی بیٹھی ۔ تب جا کر معجزاتی طور ان کی جانیں بچ گئی اور موقعہ پاتے ہی بچوں کو لے کر ایک رفیو جی کیمپ میں منتقل ہوگئی۔وہاں پہلے اس کا دو مہینے کا کمسن بچہ بیمار ہو کر کسمپرسی کی حالت میں لقمہ اجل بن گیا ،بعد ازاں غذا نہ ملنے کی وجہ سے بھوک سے تڑپ تڑپ کر دوسرا دو سال کا بیٹا بھی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھا۔اپنے دو معصوم بچوں کو کھونے کے چند دن بعد درد و کرب کی شدت میں ڈوبی غمزدہ چاندنی نے ایک بڑا فیصلہ لیااورموقعہ دیکھ کر جان کی امان پانے کے لئے بے بسی و لاچاری کی حالت میں اپنے دو بیٹوں اور ایک بیٹی کو لے کر ہجرت کرکے سرنگ کے اــس پار آبادخوبصورت و مہمان نواز شہر فردوس نگر پہنچی۔ شہر کے دریا دل لوگوں کی ہمدردیوں سے نئے سرے سے زندگی کی شروعات کی۔ خود محنت مشقت کی راہ اپنا کر بچوں کو سکول میں داخل کیا ۔ شو مئی قسمت ان ہی دنوں اس مصیبت زدہ کنبے کو ایک اور آفت نے آگھیرا۔اچھے بھلے اشفاق کی دونوں ٹانگیں اچانک بے کار ہو گئیںاور وہ چلنے پھرنے سے معذور ہوگیا ۔ستم زدہ ماں نے اپنے مقدور کے مطابق علاج معالجہ میںکوئی کمی نہیں چھوڑی ،لیکن سب بے سود۔ اشفاق کی حالت میں کوئی سدھار نہیں آیا۔۔۔۔۔۔پھر کچھ عرصے بعد ان کی زندگی میں اچانک ایک نیا خوشگوار موڑ آیا ۔ خوب صورت خدو خال ،تیکھے تیکھے نقوش اوربڑی بڑی مخمور بولتی آنکھوں والی جواں رعنائیوں سے بھر پو ر چاندنی ،جو اس ادھوری بہار کی طرح تھی جسے خزاں نے وقت سے پہلے ہی بری طرح سے پامال کر دیا ہو ،کو ایک شریف اور صاحب ثروث انسان کی طرف سے نکاح کا پیغام آگیا ۔کافی سوچ بچار کے بعد چاندنی نے حامی بھرلی اور اس طرح وہ شادی کے بندھن میں بندھ کر بچوں سمیت نئے گھر میں منتقل ہوگئی ،جہاں ان کے بخت جاگ اٹھے ۔زندگی کی کایا پلٹ گئی ۔بچوں کو اچھے سکولوں میں داخل کیا گیا۔چاندنی کے اُداسیوں اور فکروں سے گھرے چہرے پر شگفتگی کی رونقیں لوٹ آئیں کیونکہ اس کا شوہر خوشی خو شی بچوں کی تمام ضروریات پوری کرتا رہا، جب کہ چاندنی کو بھی ہر طرح سے خوش اور مطمعن رکھنے کی کوشش کرتا تھا ۔اس طرح ان کی خزان رسیدہ زندگی میں جیسے نئی بہار آگئی اور زندگی کے دن ہنسی خوشی گزرنے لگے ۔اس نے اشفاق کا بھی نئے سرے سے علاج شروع کردیا، لیکن اچھے اچھے ڈاکٹروں کے پا س موٹی موٹی رقوم خرچ کرنے کے با وجود بھی اس کی حالت میں ذرا بھر بھی فرق نہیں آیا ۔۔۔۔۔۔۔وقت کا بے لگام گھوڑاتیزی سے اپنا سفر طئے کرتا رہا ۔اشفاق کی ماں نے اس نئے گھر میں دو بیٹوں کو جنم دیا، جب کہ اس کا بڑا بیٹا اعجازاور بیٹی انیکہ اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے بعد اونچے سرکاری عہدوں پر فائیز ہوگئے ۔جسمانی طور ناخیز اشفاق، جو تقریباً اپنے جسم کو گھسیٹ کے ادھر اُدھر چلتا،کو بھی ایک سرکاری ادارے میں درجہ چہارم کی نوکری مل گئی ۔ اعجاز اور انیکہ کے ترقی کے زینے طے کرنے پر اشفاق اور اُس کی ماں خوشیوں سے پھولے نہیں سما رہے تھے ۔ان کے رشتے اچھے گھرانوں میں طے کرکے جب بڑے ہی دھوم دھام اور طمطراق سے ان کی شادیاں انجام پائیں تو ماں اور اشفاق کی خوشیوں کا کوئی ٹھکانہ نہ رہا ۔شادی کے کچھ سال بعد ہی اعجاز نے ماں کی رضا مندی سے نیا گھر خریدا اور اپنے بیوی بچوں کو لے کر وہاں منتقل ہو گیا جب کہ اشفاق سوتیلے بھائیوں ،جن سے وہ سگے بھائیوں سے زیادہ پیار کرتا تھا ،کے ساتھ ماں کے پاس ہی رہا ۔ جسمانی طور ناخیز اشفاق اگر چہ ہنسی خوشی زندگی گزار رہا تھا لیکن ماں کو اندر ہی اندر یہ فکر کھائے جا رہی تھی کہ اس کے مرنے کے بعد سوتیلے بھائی نہ جانے بے چارے اشفاق سے کیا سلوک کرینگے ۔
آخر ماں ایک دن یہ دنیا چھوڑ کر چلی گئی اور باپ، جس کی عمر ڈھل چکی تھی ،بھی اکثر بیمار رہنے لگا ۔ ماں کی موت کے بعد ان کے گھر میں عجیب سی تبدیلیاں رونما ہونے لگیں ۔سوتیلے بھائیوں اور بھابھیوں کے اندر کے چور جاگ اٹھے۔خلوص اور اپنائیت کے درمیاں خود غرضی کی دیواریں حائل ہونے لگیں اور ان کے رویے میں ناقابل یقین تبدیلیاں واقع ہوئیں۔
باپ کی موت کے بعد ان کے مزاج پوری طرح بدل گئے اور وہ اشفاق سے غیروں سے بھی بد تر سلوک کرنے لگے ۔جب اشفاق کی زندگی پوری طرح اجیرن بن کے رہ گئی تو تنگ آکر وہ اپنے بھائی اعجاز کے ہاں منتقل ہوگیا۔کچھ وقت وہاں گزارنے کے بعد اس کی بھابھی، جو ایک اچھے عہدے پر فائیز تھی ،کی تیوریاں چڑھنے لگیں۔ نتیجتاً شفاق وہاں بھی چین سے نہیں رہ سکا اور ایک دن دل شکستگی کی حالت میں اپنا ریزہ ریزہ وجود لئے بہن کے دروازے پر پہنچ گیا ۔بہن اگر چہ دریا دلی کا مظاہرہ کر تے ہوئے ہر طرح سے اس کا خیال رکھتی تھی، لیکن وہاں بھی اس کو کئی مسائیل کا سامنا رہا اور بالکل بھی سکون میسر نہیں آسکا۔دوسرے سبھی افراد خانہ اُس سے اجنبیوں جیسا سلوک کر تے تھے ،لیکن طوعًا و کرہًا وہ وہیں پر زندگی کے شب و روز گزارنے لگا ۔کم و بیش ایک سال بہن کے گھر میں رہنے کے بعد اشفاق بیمار ہو گیا اور چند دن قبل اسے اسپتال داخل کیا گیا تھا، جہاںآج اس کی درد والم بھری کہانی ختم ہوگئی ۔
جعفر اشفاق کی کتاب زندگی کی ورق گردانی میں محو تھا کہ دفعتًا فضا میں اللہ اکبر کی میٹھی آواز گونج اٹھی اور وہ اٹھ کرنماز کی تیاری کرنے لگا۔فارغ ہو کر اس نے سیدھے اشفاق کی بہن کے گھر کا رخ کیا۔وہ اپنے لنگوٹئیے یار کا آخری دیدار کرکے اس کے آخری سفر میں شریک ہونا چاہتا تھا۔جب وہ وہاں پہنچا تو اشفاق کی میت آنگن میں ایک طرف رکھی ہوئی تھی ۔محلے کے لوگوں کے ساتھ ساتھ اس کے سار ے رشتہ دار وہاں پہنچ چکے تھے جو آپس میں کچھ کھُسر پھسر کر رہے تھے۔اشفاق کے مردہ جسم کے پاس چند ثانئے بیٹھ کر وہ اس کے بھائی اعجاز،جوایک طرف پریشانی کی حالت میں تنہا بیٹھا تھا،کے پاس جاکر اس کی ڈھارس بندھانے لگا۔
’’اعجاز صاحب۔۔۔۔۔۔محلے کے لوگ اشفاق کی میت کو یہ کہہ کر قبرستان میں دفنانے کی اجازت نہیں دے رہے ہیں کہ یہ اس کا آبائی قبرستان نہیں ہے‘‘۔
اعجاز، برادر نسبتی، جس کے ساتھ ایک عمر رسیدہ بزرگ شخص بھی تھا ،نے اچانک آکر مژدہ سنایا۔
ہاں اعجاز صاحب ۔۔۔۔۔۔ مذہبی نقطہ نظر سے بھی میت کو اپنے آبائی قبرستاں میں ہی دفنانا جائیز ہے ۔
بزرگ شخص نے ایک پل ضایع کئے بغیر ہی فتویٰ صادر فرمایا۔
غم زدہ اعجاز ،جس کے کانوں میں جیسے پگھلتا ہوا سیسہ اتر گیا، کچھ کہے بغیر ہکا بکا ہو کر بے بسی سے ان کے منُہ تکتا رہا،جب کہ جعفر نے انتہائی عاجزی سے محلے کے بزرگوں سے اشفاق کی میت کو قبرستان میں دفنانے کی اجازت دینے کی التماس کی۔جب وہ بالکل بھی راضی نہیں ہوئے تو کم علم ہونے کے با وجود اس نے مذ ہبی نقطہ نظراور کئی تاریخی دلائل پیش کئے ۔حضرت شاہ ہمدان کے فرزند حضرت میر محمد ہمدانیؒ سینکڑوں ایکڑ زمین خرید کر قبرستان کے لئے مسلمانوں کو وقف کرنے کاواقعہ تفصیل سے سنا کر اس وسیع عر یض قبرستان جو اب ملہ کھاہ کے نام سے موسوم ہے اور لوگوں نے جس کی بندر بانٹ کر کے اپنی ملکیت بنایا ہے، کی اصل تاریخ بتائی ۔لیکن وہ ٹس سے مس نہ ہوکر اپنی ضد پرا ڑے رہے۔
تھک ہار کر جعفر نے اشفاق کے سوتیلے بھائیوں ،جو غم میں ڈوبے اشفاق کی میت کے پاس بیٹھے تھے، کو سارا ماجرا سنایا اور اشفاق کی میت کو ان کے قبرستاں ،جو یہاں سے صرف ایک ڈیڑھ میل کی دوری پر واقع تھا ، میں دفنانے کی صلاح دی ۔ جعفر کی بات سن کر ان کے جیسے عقل کے طوطے اڑ گئے اوروہ آ نکھیں چراتے ہوئے آنا کانی کرنے لگے۔حالانکہ جعفر نے ان کو یہ بھی یاد دلایا کہ ان کے مرحوم والد کی وصیت کے مطابق اشفاق بھی ان کے زمین جائیداد میں برابر کا حصہ دار ہے ۔ لیکن ان پر کچھ اثر نہ ہوا ،اورجعفر کے پیروں تلے اس وقت زمین شک ہونے لگی اور تن بدن میں جیسے سوئیاں چبھ گئی جب اشفاق کے غم میں ٹسوے بہانے والے سوتیلے بھائیوں نے اپنی بیگمات سے صلاح مشورہ کے بعد مختلف تاویلیں سناکر اشفاق کو اپنے قبرستان میں جگہ دینے سے صاف انکار کرتے ہوئے کسی بھی جگہ اشفاق کی آخری آرام گاہ کے لئے دو گز زمین خریدنے کے لئے رقم کی پیش کش کی ۔ جعفرکو اب یہ سمجھنے میں بھی ذرا بھر دیر نہیں لگی کہ برسوں سے اشفاق کے سوتیلے بھائیوں اور بھابھیوں کے اندر موجود خوابیدہ جراثیم آج نئے سرے سے جوش مارنے لگے ہیں۔ اعجاز،جعفراور ان کے چند دوستوں نے اشفاق کی آخری آرام گاہ کے لئے ادھر اُدھر بھی کافی ہاتھ پیر مارے ،لیکن کہیں سے بھی کچھ انتظام نہ ہوسکا، یہاں تک کہ دوپہر بھی ڈھل گئی اورمعا ملہ کافی گھمبیر صورت اختیار کرگیا۔ جب کوئی راہ نہیں بچی تو اشفاق کی بہن ،بھائی اعجاز اورجعفر جن کے دل غموں کے بوجھ تلے پسے جا رہے تھے ،انتہائی عاجزی سے سو تیلے بھائیوں سے اشفاق کی آخری آرام گاہ کے لئے دو گز زمین بھیک مانگنے لگے ۔ماں کا واسطہ دے کر روئے، گڑ گڑائے لیکن ان کے سنگ و آہن جیسے دل نہیں پسیجے۔۔۔۔۔۔آخر کچھ معز زین کی مداخلت اور اپنے ہی رشتہ داروں کے شدید دبائو کے نتیجے میںآپس میں صلاح مشورہ کرنے کے بعد قریب سہ پہر کے وقت ان کے اندر چھپا بد نما چور سر عام برہنہ ہوگیا ۔ وہ اشفاق کی میت کو صرف اس شرط پر اپنے قبرستاں میں دو گز زمین دینے پر راضی ہوگئے کہ اس کی قبر پر کوئی کتبہ نصب نہیں کیا جائے گا اور اگر کُتبہ نصب کر بھی دیاگیا تو اس پر لازمًا اشفاق کی ذات چچی کے بجائے پارسا تحریر کرنی ہوگی۔
٭٭٭
رابطہ؛ اجس بانڈی پورہ جموں کشمیر
موبائل نمبر؛9906526432
ای میل ،[email protected]