اے ابن ِآدم …! انسان بن، انسانوںجیسی زندگی گزار، ہر کسی سے اچھائی کر، سب کے لئے اچھائی کی مثال بن۔ یہی تیری زندگی کی اصل حقیقت ہے۔ تُو جنا اسی دنیا میںمگر اس سے آگے بھی ایک دنیا ہے ۔ اس دنیا میںتجھے مہلت ِعمل دی گئی، زندگی گزارنے کا دستور دیا گیا ، عقل دی گئی، شعور عطا کیا گیا، دل ودماغ کی عظیم نعمتیں ودیعت کی گئیں تاکہ ان کی روشنی میں تُو صحیح اور غلط میں تمیز کر سکے، کھٹے اور میٹھے میں فرق کر سکے، حق و باطل کی پہچان کر ے ، حق کی پاسداری اور باطل سے بیزاری کا اظہار کرے ۔
اے ابن ِآدم …! تیری عزت ،تیری قدر ومنزلت اسی میں ہے کہ تو زمین پر انسانیت کا درس سیکھ اور دوسروں کو سکھا، سب کا خیر خواہ بن ، محبت و سلامتی کا پیام ہوجا ، تیرے صدقے دنیا امن کا گہوارہ بن جائے۔ تیرا جینا ، مر نا، چلنا،دوڑنا ، اٹھنا، بیٹھنا، سوچنا ، کمانا ، خرچنا غرض ہر کام کی انجام دہی تیری ذات اور دنیا کے لئے بہتر ہو، انسانی مفاد میں ہو ، امن وسکون اور سلامتی کا ضامن ہو ، زمین پر تمہارالمحہ لمحہ سب کے لئے خوش آئند ہو ، مفید ہو ، کارآمد ہو ، نتیجہ خیز ہو ۔ اگریہ کام تُونہیں کرتا تو تیرا جینا زمین پر محض ایک بوجھ ہے جسے جھٹکنے کا انتظار کرناہوگا۔
اے ابن ِآدم…! تجھے شرف ِملائکہ اور اشرف المخلوقات کے درجے پر بٹھایا گیا ہے، عمدہ صلاحیتوں اور فہم وشعور کی قابلیتوں سے نوازاگیا ہے ، اس لئے تمہارے جینے سے دنیا میں اشرفیت اور قدوسیت پنپنی چاہیے، موت آئے تو اشرف بن کر تُوہی دنیا چھوڑے ۔ اگر تُو اشرفیت وقدوسیت سے منحرف ہو ا تو تیری شخصیت بانجھ ، زندگی اشرفیت سے محروم ہے۔
اے ابن ِآدم…! تمہارے جسم کے اعضاء وجوارح تمہیں حقیقت ِ زندگی کی تہ تک پہنچنے کے لئے ممد ومعاون آلات ہیں ۔ تمہاری آنکھیں تم سے صرف روشنیوں کا نظارہ کرایں ۔ تمہاری زبان سے بول چال کی مٹھاس اور شرینی چھلکیں، الفاظ سچ کی مہکائیں اور جھوٹ سے پر ہیز کا حوصلہ دیں۔ تمہارے ہاتھ پاؤں سے نیکی اور بھلائی کے کام آئیں، تمہاری چلت پھر ت سے نرمی اور کام کاج سے محنت ولگن کا پیغام ملے، غرض تمہاری چال ڈھال سے اشرفیت اور قدوسیت کی شان ظاہر ہو۔
بھٹکے ہوئے انسان سے:
اے ابن ِآدم …! تُواس وہم وگمان میں نہ رہ کہ تمہاری وجہ سے کارخانۂ دنیاچل رہا ہے۔نہیں …ہرگز نہیں… یہ سب اُسی وحدہ لاشریک اللہ کا کام ہے جس نے حقیر پانی کی ایک بوندسے تمہاری تخلیق کا آغاز کیا، اُسی نے قطرۂ خون کو پھر گوشت کے ایک لوتھڑے کی شکل دی، پھراس پر فن کارانہ تزئین کاری کی اور اس میں رُوح ڈال دی ، پھر دنیا کے امتحان گاہ میں بھیج دیا، تجھے خالق ِحقیقی کا خلیفہ ہونے کا منصب ِ جلیلہ عطاکیا ۔ اتنی حقیقت سمجھنے کے بعد اے دورِ جدید کے گم کردہ راہ انسان !تو کس بات پر اِتراتا ہے؟ کس بات پر بے جا فخر وگھمنڈ ہے؟ تم ہو کیا شئے کہ بے جا پندار میں اپنے خالق کی حقیقت بھی بھول گئے ہو؟
مردِمسلمان کے نام:
اے درسِ انسانیت دینے والے کلمہ خوان ! دنیا کو جہل ونادانی سے نکال کر روشنی وبصیرت کی کائنات میں لانے والے! اپنے آپ کو دہکتے دوزخ اور عذاب ِجہنم سے بچانے کی ہمہ وقت کوششیں کر نے و الے ! اپنے اہل وعیال سمیت پوری انسانیت کو آخرت کی رسوائی اور دنیا کی ناکامی سے بچانے کی فکر رکھنے والے! تجھے اچھی طرح معلوم ہے کہ تیری حقیقت کیا ہے، تیرا وجود کس کا دیا ہوا ہے، تیرا پیدا کرنے کا مقصدحقیقی کیا ہے، تیری زندگی کا مصرف کیا ہے ۔ دنیا کی زندگی تیرے لیے کیا معنی ومفہوم رکھتی ہے، تم خوب ایمان رکھتے ہو کہ دنیائے فانی چھوڑ کر اُس خالق ِکائنات کے سامنے تمہیں جواب دینا ہے جوتمہارے اعمال کااحتساب کر ے گا اورجزا وسزا کا حتمی فیصلہ دے گا ۔ وہ جانتا ہے تم اس کے حضورکیا کچھ ساتھ لائے ہو، کیا کچھ پیچھے چھوڑا ہے ، کیا کما ئی کی، کہاں خرچ کیا ۔
اے مومن ِ جاں باز! تُواس ابدی حقیقت کے سائے میں اور احسا سِ ذمہ داری کے ساتھ دنیا میں جئے جارہاہے، ہر گورے کالے، اپنے غیرکا خیرخواہ ہے مگر آج نیوزی لینڈ سے انگلینڈ ،جرمنی سے ڈنمارک تک غیر مسلم بھائی شکوک وشبہات کے عالم میں تم سے اتنی نفرت کرر ہے ہیں کہ تُوامن کی اذان دے رہاہے ، یہ تجھ پرگولیاں بر سارہے ہیں ، تم خدا کی بات کر تے ہو ، وہ تجھ سے بیر رکھتے ہیں ، تُو حق کی تبلیغ کررہاہے ، انصاف کا پرچم تھامے ہے، انسان دوستی کی پیام بری کر تاہے ، دہ تجھے دہشت گرد ، انتہا پسند ، رجعت پسند، شر پسند، فتنہ پرور، دقیانوسی، بنیاد پرست، قدامت پسند، امن دشمن اور نہ جانے کن کن گالیوں سے یاد کر تے ہیں۔ تجھ سے اغیار نالاں کیوں؟ خائف کیوں؟ اُن لوگوں کو تجھ سے گھن آتی ہے، تیرے پیکر خاکی میں بسے مہکتے اخلاقی گل بوٹوں سے انہیں بدبو کیوں محسوس ہوتی ہے؟ یہ تیرے آشیانے کو کیوں بھسم کر رہے ہیں؟ پھولوں کے بجائے تیرے گھرآنگن میں کانٹے کیوں بورہے ہیں؟ اتنی بڑی تعداد میں ہونے کے باوجود بھی تُو مغلوب ومحکوم کیوں؟ ہر جگہ سے تیرے پٹنے اور مٹنے کی آہیں سنی جا رہی ہیں؟
اس سب کے لئے غیروں کو دوشی ٹھہرانے سے پہلے تھوڑاسا اپنا بھی احتساب کر کہیں تُو اپنی اصل حقیقت سے، اپنے فرض سے، اپنی خدمت سے غافل تو نہیں ہوچکا ہے؟ کہیں تُو بھی دیکھا دیکھی میں دنیوی بھول بھلیوں میں جکڑ تو نہیں گیا ہے؟ کہیں تُوا پنے مقصد ِوجود کو بھول تو نہ گئے ہو؟ تم جانتے ہو کہ ایک موقع پر جب غفلت ہو گئی تو غزوہ اُحد کی جیتی بازی ہاری گئی ۔یاد رکھنا تم ایک ایمانی وجود ہو، ناحق کے سامنے جھکنا آتا نہیں، دنیوی مفاد کی منڈی میں بکناممکن نہیں، تجھے کوئی مٹا نے بھی آیا تُو مٹا نہیں ، انسانیت کی بے لوث خدمت کا تاج کوئی دشمن ِانسانیت تجھ سے چھین لینا چاہے تو نیل کا دریا آج بھی تیرے واسطے راستہ بنے گا اور تیرا دشمن ڈوب کررہ جائے گا ، شرط یہ ہے کہ تُو اپنے قول وفعل میں راست باز اورثابت قدم رہو۔ یہ دنیا ئے فانی ہے ، کچھ مدت ٹھہر نے کے بعد یہاں سے کوچ کرنا ہے اور خالق ِکائنات کے سامنے تیری جواب طلبی ہونی ہے، پل پل کا حساب دنیا ہوگا ، جوکام ایمان اور خلوص سے انسانیت کے فلاح وبہود کے لئے انجام دیا ہو ،وہ میزان ِ عدل میں اپنا وزن پائے گا اور جو کام نفسانیت کے بہکاوے میں کیا ہو گا ، جس کام میں ریاکاری کا شائبہ ہو ، جس کام میں انسان دشمنی کی آمیزش ہو ، جس اقدام سے دنیا پرستی کی بو آئے، وہ سب اکارت جائے گا ۔ آج دنیا میں تمہیں کہیں امن چین نصیب نہیں ، جھوٹے الزامات تیرا پیچھا کررہے ہیں، نفرت تیر ے خلاف خون تشنہ ہے ، زمین ناراض ہے ، آسمان غصہ ہے لیکن اگر خدا اور بندگان ِ خدا کے ساتھ بے لوث محبتوں اور بے حد وکنار اخلاص مندیوں کا رشتہ قائم ودائم ر ہے تو دونوں دنیاؤں کی کامیابی تیرامقدر ؎
تندیٔ باد ِ مخالف سے نہ گھبرا اے عقاب
یہ تو چلتی ہیں تجھے اونچا اڑانے کے لئے
……………………………
email: [email protected]