حسین محتشم
پونچھ//مغل روڈجو کہ ایک تاریخی سڑک ہے اور جو مغل بادشاہوں کی آمدورفت کی وجہ سے مغل روڈکہلائی اس روڈ کے منصوبے کو سب سے پہلے 1950 میں تجویز گیا گیا۔ اس سڑک کو مغل روڈ کا نام شیخ محمد عبداللہ نے 1979 میں دیا۔سال 2005 میں پی ڈی پی۔کانگریس کی مخلوط سرکار نے اس منصوبے کو حتمی منظوری دی۔اس پروجیکٹ کو 2007 میں پایہ تکمیل تک پہنچنا تھا تا ہم کچھ تکنیکی وجوہات کی بنیاد پر ایک سال کی تاخیر ہوگئی۔ 2009 میں عمر عبداللہ نے اسکا افتتاح کیا اور 2010 میں جنرل پبلک کے لئے مشروط اجازت دے دی گئی۔ سال 2012 میں ڈبل لین کا کام مکمل ہوا۔ مغل روڈ کی لمبائی بفلیاز تا شوپیاں 84 کلو میٹر ہے۔اس روڈ کی تعمیر سے قبل جموں سرینگرقومی شاہراہ کے راستے پونچھ سے سرینگر 588 کلو میٹر کا راستہ لوگوں کو طے کرنا پڑتا تھا جو مغل سڑک کی بدولت 120 کلو میٹر سمٹ کر رہ گیا۔اس سڑک کے مکمل ہونے پر پونچھ۔راجوری کے لوگوں کے دلوں میں امید کی ایک کرن پیدا ہوئی تھی کہ شاید اب حالات بدلیں گے لیکن لوگوں کی امید امید ہی رہی۔ لوگوں کے گمان میں بھی نہیں تھا کہ پروجیکٹ کے مکمل ہوتے ہی یہ غیر ضروری تعطل کا شکار رہے گی۔گزشتہ سال کورونا نامی عالمی وبا کے دوران سرحدی ضلع پونچھ کے لوگوں کو کافی پریشانیوں کا سامنا رہا اور اس با بغیر کسی وجہ کے اس سڑک کے بحال ہونے میں تاخیر کی جارہی ہے۔کیونکہ میڈیکل سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے پونچھ کے اکثر مریض شیر کشمیر انسٹیٹیوٹ آف میڈ یکل سائنسز صورہ میں زیر علاج ہیں۔اس کے علاوہ پونچھ اور راجوری کے سینکڑوں طالب علم کشمیر کے مختلف تعلیمی اداروں میں زیر تعلیم ہیں، سینکڑوں ملازم جو وہاں مختلف محکمہ جات میں تعینات ہیں کو پریشانیوں کا سامنا ہے۔لوگوں کے مطابق مغل شاہراہ سے برف ہٹادی گئی ہے اور روڈ گاڑیوں کی آمدورفت کے لئے تیار ہے تو اب یہ مغل روڈ کب کھلے گی۔اب لوگوں کی جانب سے سوشل میڈیا پر احتجاج درج کیا جا رہا ہے کہ اس سڑک کو جلد سے جلد آمدورفت کے لئے بحال کیا جائے۔ایڈووکیٹ ایاز مغل نامی سماجی کارکن نے اظہار افسوس کرتے ہوئے کہا کہ جان بوجھ کر اس سڑک پر آمدورفت پر قدغن لگا دی جاتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اپریل ختم ہونے کو ہے اس کے باوجود اس سڑک پر گاڑیوں کی آمد و رفت کو بحال نہیں کیا جا رہا ہے جب کہ عام عوام اس سڑک کے بحال ہونے کی منتظر ہیں۔ انہوں نے کہا کہ انتظامیہ کی جانب سے اس سڑک کو 24 گھنٹے بحال رکھنے کے سلسلہ میں وہاں پر چینل بنانے کا منصوبہ تھا لیکن وہ بھی ٹھنڈے بستے میں پڑا ہوا ہے، جبکہ پشانہ سے دْبجن تک مواصلاتی سروس بی نہیں ہے۔انھوں نے کہا کہ مغل روڈ پر سب سے زیادہ تکلیف دہ عمل سیکورٹی کے نام پر سخت چیکنگ ہے۔اتنی سخت سیکورٹی کو دیکھتے ہوئے کئی بار ایسا لگتا کہ یہ دو ممالک کی سرحد ہے کہ عوام کو اتنے کٹھن مراحل سے گزرنا پڑتا ہے۔ انہوں نے مغل شاہراہ پر ٹرامہ ہسپتال قائم کرنے کا بھی انتظامیہ سے مطالبہ کیا تاکہ حادثات کی صورت میں زخمیوں کو فوری علاج معالجہ مل سکے۔سبزار احمد نامی ایک شخص جو کہ کلگام کشمیر سے تعلق رکھتے ہیں اور پونچھ میں سرکاری ملازم ہیں نے بھی سڑک پر گاڑیوں کی آمد و رفت نہ ہونے پر اظہار تشویش کیا۔انہوں نے کہا کہ ان کو 588 کلومیٹر سفر کرکے اپنے گھر جانا پڑتا ہے جو ان کے لیے کٹھن ہوتا ہے۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ لوگوں کی مشکلات اور مطالبات کو سمجھتے ہوئے انتظامیہ فوری اس سڑک کو گاڑیوں کی آمدورفت کے لئے بحال کردے گی۔