میاں نوازشریف کو اگر پاکستان کی سیاست کا جنرل درانی اور جنرل درانی کو پاک فوج کا کامیاب نوازشریف قرار دیا جائے تو غلط نہ ہوگا۔ اس کی وجہ ظاہر ہے، میاں نوازشریف نے سیاست کے دائرے میں۲۶نومبر ممبئی کے بارے میں بھارتی تھیوری کی تصدیق کی اور آئی ایس آئی کے سابق سربراہ جنرل درانی نے کشمیر پر بھارتی موقف کی حمایت کی۔ لوگ کہہ رہے ہیں کہ جنرل(ر) اسد درانی نے ’’را‘‘ کے سابق سربراہ امرجیت سنگھ دولت کے ساتھ مل کر The Spy Chronicles RAW ISI and the Illusion of Peaceکے عنوان سے جو کتاب تصنیف کی ہے اس میں بڑی افسوس ناک باتیں موجود ہیں مگر اصولی اعتبار سے یہ اس سلسلے کا ثانوی اعتراض اور ثانوی مسئلہ ہے۔ اصل مسئلہ اور اصل اعتراض یہ ہے کہ آئی ایس آئی کے ایک سابق سربراہ نے پاک بھارت تعلقات کی پوری تاریخ کو پس ِپشت ڈال کر ایک ایسی خفیہ ایجنسی کے سابق سربراہ کے ساتھ مل کر کتاب لکھنے کی جرأت کیسے کی جو1971ء میں پاکستان کو دو ٹکڑے کرنے کی ذمے دار تھی اور جو آج بھی پاکستان کو صفحۂ ہستی سے مٹانے کے منصوبے پر عمل پیرا ہے۔ پاکستان کے اعلیٰ فوجی اہل کار خود اس امر کا انکشاف کرچکے ہیں کہ ’’را ‘‘نے صرف سی پیک کو سبوتاژ کرنے کے لیے 50 ارب روپے مختص کیے ہیں۔ ’’را‘‘ اگر ایک پاکستانی منصوبے کو ناکام بنانے کے لیے اتنی بڑی رقم خرچ کررہی ہے تو اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ پورے پاکستان کے خلاف اُس کے خوف ناک منصوبوں اور اُن کے لیے مختص کیے جانے والے مالی وسائل کی وسعت کا کیا عالم ہوگا؟ یہ بات ہمیں معلوم ہے تو آئی ایس آئی کے سابق سربراہ جنرل اسد درانی کو بھی معلوم ہوگی مگر میاں نوازشریف اور جنرل درانی دونوں نے گھر کو گھر کے چراغ سے آگ لگانے کی مثال قائم کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ۔
میاں نوازشریف کی تاریخ یہ ہے کہ جب بھارت کے وزیراعظم اندر کمار گجرال تھے تو میاں صاحب اُن کے ایسے عاشق تھے کہ پاک بھارت تعلقات ’’نواز گجرال تعلقات‘‘ نظر آتے تھے۔ گجرال کی جگہ واجپائی آئے تو پاک بھارت تعلقات ’’نواز واجپائی تعلقات‘‘ کا منظر پیش کرنے لگے۔ نریندر کمار مودی بھارت کے وزیراعظم بنے تو یہ تاثر عام ہوا کہ پاک بھارت تعلقات دراصل ’’نواز مودی تعلقات‘‘ کے سوا کچھ نہیں۔ بدقسمتی سے جنرل اسد درانی نے ’’را‘‘ کے سابق سربراہ کے ساتھ مل کر جو’’تخلیقی کارنامہ‘‘ انجام دیا اُسے دیکھ کر خیال آیا کہ پاک بھارت تعلقات اپنی اصل میں آئی ایس آئی اور را کے تعلقات ہیں لیکن جرنیل ہوں یا سیاست دان… دانش ور ہوں یا صحافی… مؤرخین ہوں یا اساتذہ… سب کو پاک بھارت تعلقات کے بارے میں ایک بنیادی بات ہمیشہ یاد رکھنی چاہیے۔ پاک بھارت تعلقات نواز مودی تعلقات نہیں، آئی ایس آئی اور را کے تعلقات نہیں، دو فوجوں کے تعلقات نہیں۔ اس کے برعکس پاک بھارت تعلقات اپنی اصل میں دو مذاہب کے تعلقات ہیں، دو تہذیبوں کے تعلقات ہیں، دو تاریخوں کے تعلقات ہیں، دو قوموں کے تعلقات ہیں۔ جس شخص کو یہ بات معلوم ہے، اسے پاک بھارت تعلقات کی ہر بات معلوم ہے اور جسے یہ بات معلوم نہیں اُسے پاک بھارت تعلقات کی کوئی بات معلوم نہیں ، خواہ وہ کوئی سیاست دان ہو یا جرنیل، یا آئی ایس آئی کا سابق یا موجودہ سربراہ۔ اس تناظر میں پاکستان اور بھارت مذاکرات کریں گے تو اپنی اصل کے تناظر میں۔ ان کے درمیان کشیدگی ہوگی تو پاک بھارت تعلقات کی اصل کے حوالے سے۔ یہاں تک کہ اگر خدانخواستہ پاکستان اور بھارت کی جنگ بھی ہوگی تو پاک بھارت تعلقات کی اصل کی روشنی میں۔ کچھ عرصہ قبل آئی ایس پی آر کے موجودہ ڈائرکٹر جنرل آصف غفور نے ایک بہت اچھا بیان دیا تھا۔ انہوں نے کہا تھا کہ شخصیات اہم نہیں ہیں، ادارے اہم ہیں۔ ادارے بھی اہم نہیں ہیں، اُن سے زیادہ ملک اہم ہے۔ حقیقت یہی ہے کہ پاکستان نہیں تو کچھ بھی نہیں مگر آصف غفور کے اس بیان میں ایک بہت ہی بڑا عیب ہے، انہیں ملک سے بھی آگے جانا چاہیے تھا، اس لیے کہ پاکستان میں پاکستان سے بھی زیادہ ایک اہم چیز ہے، وہ ہے نظریہ، جس نے خود پاکستان کو تخلیق کیا۔ یہ نظریہ نہیں تو کچھ بھی نہیں مگر ہمارے اکثر سیاست دان ہوں یا جرنیل، صحافی ہوں یا دانش ور… کوئی بھی پاکستان کے نظریے کو یاد نہیں رکھتا۔ نظریہ سبھی ملکوں کے لیے اہم ہوتا ہے مگر پاکستان کا نظریہ پاکستان کے لیے ہوا اور پانی کی طرح اہم ہے۔ بعض احمق کہتے ہیں کہ پاکستان جمہوری جدوجہد سے قائم ہوا۔ یہ ایک بہت بڑا تاریخی جھوٹ ہے۔ جمہوریت کا اصول اکثریت ہےاور اکثریت کے اصول کے تحت برصغیر کے مسلمانوں کو بھارت کی ہندو اکثریت کے غلبے کو تسلیم کرلینا چاہیے تھا۔ سرسید انگریزوں کی ہر چیز کے عاشق تھے، مگر انہوں نے انگریزوں کی جمہوریت پر تھوک دیا۔ انہوں نے صاف کہا کہ مسلمان ایک جلی ہوئی رسّی کی طرح ہیں۔ رسّی جل گئی ہے مگر اس کے بل نہیں گئے ہیں یعنی مسلمان برصغیر کے حاکم رہے ہیں اور وہ کسی بھی طرح ہندوئوں کے غلبے کو نہیں مان سکتے۔ اقبال نے اپنے خطبات میں پارلیمنٹ کا پرچم بلند کیا ہے مگر خطبۂ الٰہ آباد میں انہوں نے جمہوریت کو ایک طرف پھینک کر مسلمانوں کے لیے علیحدہ وطن کی بات کی ہے۔ قائداعظم نے اس بحث کو ایک نیا رُخ دیا۔ انہوں نے کہا کہ انگریز اور ہندو مسلمانوں کو ’’اقلیت‘‘ کہتے ہیں، مگر مسلمان ’’اقلیت‘‘ نہیں ایک ’’قوم‘‘ ہیں۔ قائداعظم کے زمانے میں قوم کی تعریف نسل، جغرافیہ اور زبان سے متعین ہورہی تھی، مگر قائداعظم نے قوم کی اس تعریف کی طرف آنکھ بھر کر بھی نہ دیکھا۔ انہوں نے اس سلسلے میں دو قومی نظریے پر اصرار کیا، اور دو قومی نظریے کی بنیاد اسلام تھا، اس سے برآمد ہونے والی تہذیب تھی، اس سے نمودار ہونے والی تاریخ تھی، اس سے آشکار ہونے والے ہیروز تھے۔ قائداعظم اس نظریے پر اصرار نہ کرتے تو نہ وہ مسلمانوں کو ’’اقلیت‘‘ کے بجائے ’’قوم‘‘ ثابت کر پاتے، اور نہ اس کے ’’جداگانہ تشخص‘‘ پر اصرار کے لیے اُن کے پاس کوئی اہم دلیل ہوتی۔ اس تناظر میں پاک بھارت تعلقات دائمی طور پر دو مذاہب، دو تہذیبوں، دو تاریخوں اور دو قوموں کے تعلقات ہیں۔ جو شخص یہ بات نہیں مانتا یا اس پر عمل نہیں کرتا وہ خواہ کوئی ہو پاکستان، اس کے نظریے، اس کی تہذیب اور اس کی تاریخ کا شعوری یا لاشعوری طور پر غدار ہے۔
بدقسمتی سے جنرل درانی کی کتاب کے اقتباسات 21مئی سے اخبارات بالخصوص روزنامہ جنگ میں شائع ہورہے تھے مگر جنرل باجوہ اور آئی ایس پی آر نے ان اقتباسات کا 25 مئی تک کوئی نوٹس نہ لیا۔ اس سے یہ خیال عام ہوا کہ شاید جنرل درانی کی کتاب کی پشت پر فوجی اسٹیبلشمنٹ موجود ہے مگر ان اقتباسات پر سوشل میڈیا میں ہنگامہ ہوا تو اسٹیبلشمنٹ نے 25 مئی 2018ء کو جنرل درانی کے برپا کیے ہوئے تماشے کا نوٹس لیا۔ آئی ایس پی آر نے 25 مئی 2018ء کو رات 11 بج کر 58 منٹ پر اس سلسلے میں ایک بیان جاری کیا جس میں کہا گیا کہ جنرل درانی کو 28 مئی 2018ء کے روز جی ایچ کیو میں طلب کرلیا گیا ہے۔ یہ ایک اچھی پیش رفت ہے۔ کاش اس پیش رفت میں ہونے والی تاخیر کی بھی کوئی وضاحت آجائے تو اچھا ہو۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جنرل درانی نے را کے سابق سربراہ امرجیت سنگھ دولت کے ساتھ مل کر جو کچھ کیا وہ نیا نہیں۔ آئی ایس آئی کے سابق سربراہ جنرل احسان نے 6 اکتوبر2017ء کو لندن اسکول آف اکنامکس میں امر جیت دولت کے ساتھ ایک مشترکہ پروگرام کیا تھا۔ یہ وہ وقت تھا جب بھارت مقبوضہ کشمیر میں ظلم کا بازار گرم کیے ہوئے تھا، سرحدوں پر اُس کی جارحیت بڑھ رہی تھی مگر آئی ایس آئی کے سابق سربراہ جنرل احسان را کے سابق سربراہ کے ساتھ اس طرح تشریف فرما تھے جیسے دو بچھڑے ہوئے بھائی کئی دہائیوں کے بعد ملے ہوں اور دنیا کو بتا رہے ہوں کہ وہ کیسے بچھڑے تھے اور کیسے ملے تھے۔ یہ ملاقات پاکستان، پاکستانی قوم اور کشمیر کے شہدا کا مذاق اڑانے کے مترادف تھی، اور اس ملاقات سے بھی یہی تاثر عام ہورہا تھا کہ پاک بھارت تعلقات اپنی اصل میں آئی ایس آئی اور را کے تعلقات ہیں۔ چونکہ اس ملاقات پر ہنگامہ برپا نہ ہوسکا اس لیے جی ایچ کیو اور آئی ایس پی آر نے بھی اس کا ’’نوٹس‘‘ نہیں لیا۔ ’’گربہ کشتن روزِ اوّل‘‘ کے مصداق اس ملاقات پر قومی ردِعمل سامنے آگیا ہوتا تو شاید پاکستان اور پاکستانی قوم جنرل درانی کی تخلیق کی ہوئی ذلت اور شرمندگی سے محفوظ ہوجاتے۔ تجزیہ کیا جائے تو جنرل احسان اور دولتؔ کی ملاقات بھی کم افسوس ناک نہ تھی۔ اطلاعات کے مطابق اس ملاقات میں جنرل احسان نے ہنس ہنس کر ’’را ‘‘کے سابق سربراہ کو ’’لطیفے‘‘ سنائے۔ ایک ایسی ایجنسی جو آدھا پاکستان توڑ چکی ہے اور باقی ماندہ پاکستان کو فنا کرنے پر تلی ہوئی ہے، اُس کے سابق سربراہ کو ’’لطیفے‘‘ سنانا دو قومی نظریے، اقبال اور قائداعظم کی فکر کی تذلیل کے سوا کیا ہے؟ ویسے ہم یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ پاکستانی جرنیل بھارت کے اعلیٰ اہلکاروں کو ہمیشہ لطیفے سناتے ہوئے کیوں پائے جاتے ہیں؟ 1971ء میں سقوطِ ڈھاکہ ہورہا تھا اور کرنل صدیق سالک کی کتاب ’’میں نے ڈھاکہ ڈوبتے دیکھا‘‘ کے مطابق جنرل نیازی بھارتی جنرل کو ’’فحش لطیفے‘‘ سنا رہے تھے۔ جنرل احسان کے لطیفوںکے بارے میں قومی سلامتی سے متعلق ادارے ہی قوم کی رہنمائی کرسکتے ہیں کہ وہ فحش تھے یا نہیں۔ بالفرض جنرل احسان کے لطیفے فحش نہیں تھے تو بھی سوال یہ تھا کہ وہ لندن اسکول آف اکنامکس میں ’’را ‘‘کے سابق سربراہ کے ساتھ کیا کررہے تھے؟ اور جی ایچ کیو نے اس ملاقات کا نوٹس کیوں نہیں لیا؟ اس تناظر میں دیکھا جائے تو آئی ایس آئی کا ایک سربراہ نہیں بلکہ دو سابق سربراہ ’’را‘‘ کے سربراہ کے ساتھ کھلے عام رابطوں کے مرتکب ہوئے ہیں۔ خفیہ رابطوں کا حال خدا ہی کو معلوم ہے۔ بہرحال جہاں تک جنرل درانی کا تعلق ہے تو اُن کے بارے میں یہ کہنا غلط نہیں کہ ’’را ‘‘کے ایک سابق سربراہ نے آئی ایس آئی کے ایک سابق سربراہ کو اپنے ریاستی مقاصد کے لیے استعمال کیا اور تاریخ کے کوڑے دان میں پھینک دیا۔ اگر آئی ایس آئی کے سابق سربراہ کے ساتھ بھارت یہ سلوک کرسکتا ہے تو پھر باقی لوگوں کا تو ذکر ہی کیا ہے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو جنرل احسان اور جنرل درانی دونوں، بالخصوص جنرل درانی نے ایک اہم ترین قومی ادارے پر قوم کے اعتبار اور اعتماد کو مجروح کیا ہے اور یہ سوال اٹھایا ہے کہ فوج کا وہ نظام کیسا ہے جس سے گزرنے کے باوجود جنرل احسان اور جنرل درانی جیسے لوگ اعلیٰ ترین مناصب تک پہنچے اور کسی کو ان کی اصل شخصیت کا اندازہ نہ ہوسکا؟
بدقسمتی سے اس سلسلے میں ہمارے جرنیلوں کی تاریخ حقیقی معنوں میں افسوس ناک ہے۔ جنرل ایوب نے اگرچہ 1958ء میں مارشل لا لگایا، مگر امریکہ کی شائع شدہ خفیہ دستاویزات کے مطابق جنرل ایوب 1954ء سے امریکہ کے رابطے میں تھے۔ جنرل ایوب کو مارشل لا لگانا تھا تو وہ ضرور ایسا کرتے، مگر اس کے لیے امریکی آشیرباد کی کیا ضرورت تھی؟ جنرل ایوب کی امریکہ پرستی اتنی بڑھی کہ انہیں Friends not Masters جیسی کتاب لکھ کر قوم کو ’’باور‘‘ کرانے کی ’’نفسیاتی ضرورت‘‘ محسوس ہوئی کہ ہم امریکہ کے ’’دوست‘‘ ہیں اُس کے ’’غلام‘‘ نہیں۔ جنرل نیازی سقوطِ ڈھاکہ یعنی ملک کی تباہی کے دن بھارتی جنرل کو فحش لطیفے سنا رہے تھے تو اندازہ کیا جاسکتا ہے۔
……………………………
(بقیہ بدھ کے شمارے میں ملاحظہ فرمائیں)