قیصر محمود عراقی
کسی نے کیا خوب کہا تھا کہ تکبر آگ سے بھی زیادہ تباہ وبرباد کرنے والی چیز ہے، کیونکہ اس کے بعد تباہی کا آنا لازم ہے۔ قدیم یونانیوں کے نزدیک تکبر بھیانک خیال لاتا ہے، اسکائی لیس کہا کرتا تھا کہ یہ دنیا بھوت پریت سے بھری پڑی ہے، اس وقت بھی یہ نظریہ عام تھا کہ انسانی معاملات کی گردش ایک جگہ پر نہیں ٹھہرتی ، لیڈیا کے بادشاہ کروسس کے زوال کا واقعہ تاریخ میں بار بار ملتا ہے، جو دیوتائوں کے حضور نذر ونیاز پیش کرنے میں بہت مشہور تھا۔ اس نے اپنے فاتح ایرانی بادشاہ سائرس کو کہا تھااگر تم یہ تسلیم کرتے ہو کہ تم اور تمہارے ماتحت فوجی دستے محض انسان ہیں تو یاد رکھنا انسانی زندگی گھومنے والا پہیہ ہے اور وہ انسانی اقبال مندی کو زیادہ دیر تک جاری رکھنے کی اجازت نہیں دیتا ۔ یہی وہ عظیم سچائیاں ہیں جنہیں کسی بھی وقت کے حکمرانوں کو ہر وقت یاد رکھنا اور ساتھ رکھنا سب سے زیادہ ضروری ہوتا ہے ۔ لیکن کیا کیا جائے ، بلندی پر پہنچنے والے ان ہی سچائیوں کو سب سے زیادہ غیر ضروری سمجھ کر بلندی سے پہلی فرصت میں پھینک دیتے ہیں اور پھر اُترائی کے وقت ان کی ملاقات سب سے پہلے ان ہی سچائیوں سے ہوتی ہے تو وہ انہیں دیکھ کر پھوٹ پھوٹ کر رو پڑتے ہیں،کیونکہ اُس وقت ان کے پاس آنسوئوں کے سِوا کچھ بھی نہیں ہوتا۔
یہ قدرت کا قانون ہے جو کبھی بدلا نہیں کرتے۔ قدرت کا قانون سب سے بڑا بادشاہ ہوتا ہے اور کبھی اس پر زوال نہیں آتا ، جبکہ ہم سب بدل جاتے ہیں ، ہمارے جگہیں بدل جاتی ہیں۔ کاش کہ ہمارے ملک کے حکمران بھی بلندی پر جانے سے پہلے انسانی تاریخ کا مطالعہ کرتےتو وہ حادثات ، سانحات ، ناگہانیوںاور انہونیوں سے محفوظ رہ سکیں۔ لیکن ملک کے حکمرانوں کا حال دیکھ کر عظیم شاعر الیگزنڈرپوپ کی بات بار بار یاد آجاتی ہے کہ ’’فرشتے جہاں چلتے ہوئے ڈرتے ہیں، احمق انسان وہاں دوڑتا ہے‘‘ایک فلسفی نے کہا تھا کہ جو لوگ ماضی یاد نہیں رکھ سکتے ان کو دہرانے کی سزا دی جاتی ہے۔ بات دراصل یہ ہے کہ ملک کے حکمراں صرف پیسے کیلئے سب کچھ کیا کرتے ہیں، کیونکہ انہوں نے کسی سے سن رکھا ہے کہ زمانہ پیسے کا ہے، پیسہ بڑی کارآمد شئے ہے ،یہی پیسہ ہے جو بڑے بڑے سچوں کو زیرِ نگرکرتا ہے، پیسہ ہی تو ہے جو ایمان میں خلل ڈالتا ہے، کہیں ملازمت کی صورت میں ،کہیں مزدوری کی صورت میں ، تو کہیں کسی دوسرے طریقے سے۔ دنیا میں شاید بہت کم لوگ ایسے پائے جاتے ہونگے جو اس کے طلب گار نہ ہوں ۔ پیسہ وہ شئے ہے جو ہر رنگ وقسم میں منقسم ہونے کی صلاحیت رکھتی ہے، کہیں یہ ریال کی صورت اختیار کرکے اپنا لوہا منواتی ہے ، کہیں ڈالر کی شکل میں ، کہیں دینار ودرہم کی شکل میں، کہیں ین اور کہیں روپیہ کی شکل میںیا پھر کسی اور شکل میں ۔ پیسے کے اندر وہ طاقت ہے جو سب کچھ خرید سکتی ہے، بڑے بڑوں کو پیسے کیلئے بکتے دیکھا ہے، انسان اپنے جسم اور ضمیر کا بھی سودا کرلیتا ہے اس پیسے کی خاطر۔ پیسے کے اندر وہ توانائی ہے جو کالے کو سفید کرسکتی ہے، مجرم کی باعزت بری کا باعث بنتی ہے، یہاں تک کہ لوگ اپنی جان گنواکر پیسہ حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ آج ایک عام آدمی سے لیکر خاص تک ،غریب سے لیکر امیر تک ، رعایا سے لیکر بادشاہ تک اور سیاستداں سے لیکر حکمران تک سبھی اسی پیسے کے غلام بنے ہوئے ہیں اور اسے حاصل کرنے کیلئے نہ جانے کیا کیا جتن کرتے رہتے ہیں۔ بے شمار دولت کے معاملے میں ملک کے حکمرانوں کی کہانی بہت ہی دلچسپ ہے۔ وہ بلندی پر پہنچتے ہیں تو پہلا کام نیچے دیکھنا ترک کردیتے ہیںاور اس خیال میں مدہوش ہوجاتے ہیں کہ اب انہیں یہاں سے کوئی بھی نہیں نکال سکتااور اب ہمیں ہمیشہ ہمیشہ یہی رہنا ہے اور نیچے کبھی بھی نہیں جانا ہے۔ اس لئے جب نیچے جانا ہی نہیں ہے تو پھرخوب مزے کرو، عیاشیاں کرو، لوٹ کھسوٹ کرواور پھر وہ بلندی کے غرور اور تکبر میں غرق ہوجاتے ہیںاور جب وہ بلندی کے غرور وتکبر میں غرق ہوجاتے ہیں تو پھر ان کی واپسی کے سفر کا سامان بندھنا شروع ہوجاتا ہے۔ عظیم فلسفی سولنؔ نے کہا تھا کہ شان وشوکت بڑی آسانی سے بدکاری کے طرف راغب کرتی ہے۔ اس ساری کہانی میں ہم ان عظیم خدمت گاروں کا ذکر کرنا تو بھول گئے ہیں، یہ عظیم خدائی خدمت گار وہ عظیم مخلوق ہیں جو ہمیشہ بلندی پر پہلے ہی سے موجود ہوتے ہیںاور بلندی پر ہر نئے آنے والوں کو فوراًد بوچ لیتے ہیں ، وہ ان کو ایسے ایسے سہانے خواب وسپنے اور طریقے دکھاتے اور بتاتے ہیں کہ پھر ان کو ان کی ایک منٹ کی جدائی بھی برداشت نہیں ہوتی اور یہ عظیم خدمت گار پھر ان سے ایسے ایسے کارنامہ سر انجام کرواتی ہے کہ جنہیں نیچے والے دیکھ دیکھ کر عش عش کربیٹھتے ہیں اور پھر ان کی اترائی کا سفر ناگزیر ہوجاتا ہے۔ اُترائی کے سفر میں آسانی کیلئے وہ ان کو ایسے ایسے راستے اور طریقے بتاتی ہے کہ جس سے پہلے وہ ان سے کبھی واقف ہی نہیں ہوتے۔
قارئین محترم! اس کے اصل میں دو فائدے ہوتے ہیں۔ ایک تو یہ کہ اترنے والوں کو اور آسانی ہوجاتی ہے اور انہیں نیچے دیکھنے کی خواہش جلدی پوری ہوجاتی ہے اور آخر میں سفر کے اختتام پر خدائی خدمت گاروں کی ٹیم خوب داد وتحسین وصول کررہی ہوتی ہے۔ یہ تو کہانی ہے بلندیوں پر پہنچنے والوںکی۔ اب ان چھوٹے چھوٹے مصنوعی بونے حکمرانوں کی بات کرتے ہیں جو رہتے تو ہیں ہمیشہ زمین پر ہی، لیکن انہوں نے اپنی زمینوں ، جاگیروں ، محلات ، فیکٹریوں اور روپیسوں کی وجہ سے اپنے ہی جیسے انسانوں کی زندگیاں حرام کررکھی ہیں۔ یہ زمینی مخلوق آپ کو ملک کے ہر شہر ، قصبے ، محلوں ، دیہاتوں میں با آسانی گھومتی پھرتی نظر آجائینگی، جن کا تکبر ، غرور ، شان وشوکت بلندیوں پر پہنچنے والوں سے بھی زیادہ ہے۔ ان کی کہانیاں بلندیوں والوں سے زیادہ کراہت انگیز ہیں، جن کی حرکات دیکھ کر قارون، سکندرِ اعظم ، ہٹلر ، مسولینی اور چنگیز خان اپنی اپنی قبروں میں تڑپ تڑپ جاتے ہیں۔ یاد رہے پہلے یہ مخلوق دنیا بھر میں پائی جاتی تھی لیکن اب یہ صرف اور صرف برصغیر میں پائی جاتی ہے۔ انسانی تاریخ میں یہ بات بار بار ثابت ہوتی آئی ہے کہ انسان دولت کو نہیں کھاتا بلکہ دولت انسان کو کھاجاتی ہے۔ پوری دنیا سے اس مخلوق کا ناپید ہونا اس لئے ممکن ہوا کہ ان کی دولت اُنہیں کھا گئی۔ جب حضرت عیسیٰ ؑ کے شاگردوں نے ان سے پوچھا کہ وہ تبلیغ کرتے وقت تمثیلیںکیوں بیان کرتے ہیں تو انہوں نے جواب دیا، اس لئے کہ آنکھیں رکھتے ہوئے بھی لوگ نہیں دیکھتے، کان رکھتے ہوئے بھی نہیں سنتے اور عقل رکھتے ہوئے بھی سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے، اصل میں سوچ بچار ایک تکلیف دہ عمل ہے۔ بہر حال اب دیکھنا صرف یہ باقی ہے کہ ملک میں اس مخلوق کو یہ دولت کب کھاتی ہے۔
[email protected]>