برصغیر کی تقسیم کا خمیازہ اگر کسی کو بھگتنا پڑا تو وہ ہند پاک سرحد اور جموں وکشمیر میں جنگ بندی لکیر سے متصل آبادی ہے۔ریاست جموں و کشمیر میں ان علاقوں میں مقیم آبادی کو اگرچہ قبل ازیں بھی بے بہا مشکلات کا سامنا کرنا پڑرہا ہے، وہیں گزشتہ چند برس سے ہند وپاک کے مابین جاری کشیدگی نے ان کی زندگیاں اجیرن بناد ی ہیں ۔اور ان علاقوں کے لوگ پھر ایک مرتبہ مہاجرت پر مجبور ہورہے ہیں ۔گولہ باری کا خوف اس قدر طار ی ہے کہ معمولی سے پٹاخے کی آواز سے بھی مکین سہم کررہ جاتے ہیں اور ایک دوسرے سے استفسار کرتے ہیں کہ کہیں گولہ باری پھر سے شروع تو نہیں ہوئی ۔سرحدی کشیدگی کی بھینٹ اب تک ہزاروں بے گناہ چڑھ گئے ہیں ۔ان لوگوں میں کئی ایک کنبے ایسے بھی ہیں جن کا نام و نشان بھی صفحہ ہستی سے مٹ گیا،کئی باپ ایسے ہیں جنہوں نے اپنے کم سن اور جوان بچوں کی لاشوں کا کاندھا دیا اور کئی بیوائیں ایسے ہیں جنہوں نے اپنے شریک حیات عین جوانی میں کھو دیئے ۔ان لوگوں نے زرخیز زمینوں کو بنجر ہوتے دیکھا ہے 1996ء سے 2003ء تک ہونے والی گولہ باری کی تلخ یادیں اور اس گولہ باری کے زخم ابھی تک تازہ ہیں ۔ ان لوگوں نے سکولوں کو جلتے اور بند ہوتے دیکھا ہے اور یہاں کی آبادی کا اب صرف یہی کہنا ہے کہ وہ اب کسی اور مصیبت کیلئے تیار نہیں ہیں ۔لوگوں کا یہ ماننا ہے کہ امن سے ہی ترقی ہوتی ہے لیکن دونوں ممالک کے مابین جاری انا کی اس جنگ میں امن نام کی کوئی شئے نہیں ۔یہ امر قابل ذکر ہے کہ سال 2003 میں ایک اہم اور مثبت پیش رفت کے تحت جب ہندوستان اور پاکستان کی قیادت نے جموں و کشمیر میں لائن آف کنٹرول پر جنگ بندی کا اعلان کردیاتو اس سے ایک بار پھر سرحدی آبادیوںکا امن و سکون لوٹ آیاتھا ۔انہوں نے اطمینان کی زندگی بسر کرنا شروع کردی۔ یہ امن و سکون تقریباً 15 سال تک قائم رہالیکن رواں برس ماہ جنوری سے کشمیر کے سرحدی علاقوںکرناہ کیرن،اوڑی اور گریز میں گولہ باری کاسلسلہ پھر شروع ہوا اور لوگ ہجرت پر مجبور ہوئے ۔ لوگ کہتے ہیں کہ 2003کی جنگ بندی معاہدہ کے بعد انہوں نے بنجر زمینوں کو پھر سے آباد کیا ،ہجرت کر کے جو لوگ وادی یا پھر دوسرے علاقوں میں چلے گے تھے وہ اپنے گھروں کو لوٹے تعمیر وترقی ہوئی سکول اور ہسپتال اور سڑکیں بنیں لیکن اس سال جو حالات کشمیر کے سرحدی علاقوں میں رہے، اُن سے لوگوں کی نیندیں پھر سے حرام ہو گئیں اور ہر ایک کا یہی مطالبہ ہے یا تو گولہ باری بند کر دی جائے یا پھر کشمیر کے سرحدی علاقوں میں رہائش پذیر لوگوں کیلئے بھی جموں کے سرحدی علاقوں کی طرزپر زیر زمین مورچوں کی تعمیر کا کام ہاتھ میں لیا جائے۔گولہ باری سے بچنے کیلئے مرکزی سرکار نے اگرچہ جموں کے سرحدی علاقوں میں بینکروں کی تعمیرکیلئے کروڑ روپے کی رقم منظور دی ہے وہیں وادی کے اوڑی ،کرناہ ، کیرن اور مژھل علاقوں میں مورچوں کی تعمیر کے حوالے سے سرکار کے پاس کوئی بھی منصوبہ نہیں ہے۔ صرف یہی یقین دہانیاں کرائی جا رہی ہیں کہ وادی کے سرحدی علاقوں کیلئے مورچوں کی تعمیر کا معاملہ مرکزی سرکار کے ساتھ اٹھایا گیا ہے۔ سرکاری اعدادوشمار کے مطابق 2015سے2017تک جنگ بندی معاہدے کی834 خلاف ورزیاں ہوئی ہیںجس میں41عام شہری اور 46فوجی اہلکار مارے جا چکے ہیں اور سب سے زیادہ نقصان جموں کے سرحدی علاقوں میں ہوا ہے ایسے میں مرکزی سرکار نے جموں کے سرحدی علاقوں میں 14460بینکروں کو تعمیر کرنے کیلئے 415.73کروڑ روپے کی رقم منظور دی ہے اور ریاستی سرکار سے کہا گیا ہے کہ وہ بینکروں کو تعمیر کرنے کیلئے جبکہ کی نشاندگی کریں ۔ سرکار نے جموں میں منعقد ہونے والے حالیہ بجٹ اجلاس میں اس بات کا خلاصہ کیا ہے کہ جموں خطہ کے بین الاقوامی سرحد اور حدمتارکہ کے قریب آباد علاقوں میں بینکر بنانے کے حوالے سے مرکزی وزیر داخلہ کی جانب سے 19دسمبر 2017کو ایک آڈر زیر نمبر 12013/72014.K.Vجاری کیا گیا جس میں بتایا گیا کہ بین الاقوامی اور حدمتارکہ کے نزدیک علاقوں میں 415.73کروڑ کی لاگت سے 14460بینکروں کی تعمیر عمل میں لائی جا رہی ہے اور اس کیلئے مرکزی سرکار نے رقوم کو بھی منظور کی ہے ۔ سرکار کے مطابق مرکزی نے ریاستی سرکار سے کہا ہے کہ وہ مورچوں کی تعمیر کیلئے جگہ کی نشاندہی کریں اور ہر ایک بینکر کی تعمیر سرحد کے تین کلو میٹر اندر کے دائرے میں ہو گئی ۔اس دوران بتایا گیا کہ ریاستی سرکار نے اس سلسلے میں مرکز کو بینکروں کے متعلق تفصیلات فراہم کی ہیں ۔اس پروجیکٹ کے متعلق کہا گیا ہے کہ بینکروں کیلئے فراہم کئے گے پیسے کو کسی دوسری تعمیر کام پر صرف نہیں کیا جائے گا ۔سرکار نے سوال کے جواب میں مزید بتایا ہے کہ بینکروں کی تعمیر سنٹرل ایجنسی سی پی ڈبلو ڈی ، این بی سی سی وغیر کریں گے ۔سرکار نے مزید بتایا کہ جموں ضلع میں 60بینکروں کی تعمیر کیلئے 3.00کروڑ منظور ہوئے تھے اور اس پروجیکٹ کو مکمل کر دیا گیا ہے اور ان بینکروں کی تعمیر پر2.947روپے خرچ کئے جا چکے ہیں ۔سرکارنے مزید بتایا کہ بینکروں کی کوئی بھی لائبلٹی نہیں ہے اور سرکار نے تمام پیسے کو خرچ کر دیا ہے ۔معلوم رہے کہ سرکار نے جہاں جموں کے سرحدی علاقوں میں گولہ باری سے متاثر ہونے والے علاقوں میں بینکروں کی تعمیر کیلئے پیسے کو منظور کرایا ہے وہیں کشمیر کے سرحدی علاقوں میں مورچے بنانے کی کوئی بھی تجویز سرکار کے زیر غور نہیں ہے جب کہ کشمیر کے سرحدی علاقوں کی یہ مانگ بھی شروع سے رہی ہے کہ اُن کے علاقوں میں بھی مورچے تعمیر کئے جائیںیا پھر امن لوٹا دیا جائے کیونکہ یہاں کی آبادی بھی یہی کہتی ہے امن نہ صرف ہماری سلامتی کے لیے ضروری ہے، بلکہ ہماری ترقی کے لیے بھی کیونکہ2003 میں ہندو پاک کی جنگ بندی کے بعد امن و سکون قائم ہوگیا تھا اور سرحدی علاقوں میں تعمیر و ترقی کے دور کا آغاز ہوگیا۔ کنکریٹ مکانات اور عمارتیں بننا شروع ہوگئی تھیں، لیکن اگر پھر سرحدوں پر ہندو پاک کے افواج کی جھڑپیں طول پکڑ گئیں، تو نئی تعمیر شدہ عمارتیں کھنڈرات میں تبدیل ہو جائیں گی۔ حالات بہتر نہ ہوئے تو بہت تباہی ہوگی او ر زیادہ جانی نقصان بھی ہو گا جانی نقصان اس لئے زیادہ ہو گا کیونکہ لوگوں کے پاس چھپنے کیلئے بھی اب جگہ نہیں ہے۔یاد رہے کہ کرناہ اوڑی اور کیرن علاقوں میں سال 1995سے 2003تک لوگوں نے گولہ باری سے بچنے کیلئے از خود مورچے تعمیر کئے تھے لیکن یہ مورچے 8اکتوبر 2005کے تباہ کن زلزلے میں تباہ وبرباد ہو گے 2005کے زلزلے کے بعد اگرچہ حدمتارکہ کے ان علاقوں میں نئی تعمیرات کھڑا کی گئیں تاہم سرحدوں پر امن قائم رہنے سے لوگوں نے مورچوں کی تعمیر پھر سے شروع نہیں کی کیونکہ لوگوں کو لگا تھا کہ اب امن رہے گا لیکن اب جس طرح سے سرحددوں پر حالات بنے ہوئے ہیں اُس سے لگتا ہے کہ ہندوپاک کے درمیان کوئی بھی مثبت پیش رفت نہیں ہو رہی ہے اور سرحدوں کے آر پار نہ صرف عام لوگوں کا جانی ومالی نقصان ہو رہا ہے بلکہ فوجی اہلکار بھی مر رہے ہیں ۔کشمیر کے سرحدی علاقوں میں ان 15برسوں میں اتنی زیادہ گولہ باری نہیں ہوئی بلکہ لوگ بنا کسی جھجک کے گھروں کے کام کاج کرتے ہیں لیکن اب یہاں جو حالات بن رہے ہیں اُس سے لوگ پریشان ہیں اور ماضی کے دنوں کو یا د کر کے خوف کے مارے سہم کر رہ جاتے ہیں ۔سال 2000میں کھوڑپارہ گائوں کا رہنے والا غلام مصطفیٰ گولہ باری کی زد میں آکر لقمہ اجل بن گیا، اس کی موت کے بعد اس کے گھر کی حالت بد سے بد ترہو گئی کیونکہ غلام مصطفیٰ کے گھر میں اس کے چھوٹے چھوٹے بچے رہ گے جب کہ خود غلام اپنے گھر کا واحد کفیل تھا ۔اس کے بچوں کو در در کی ٹھوکریں کھانی پڑیں۔ غلام مصطفیٰ کے دو بچوں کو سرینگر کے یتیم خانوںمیں داخل کرنا پڑا۔اسی طرح بیس نومبر 2000ء میں پاکستان اور ہندستان کی طر ف سے ہو رہی دوطرفہ گولہ باری میں فارسٹ میں کام کر رہے ہاجی ناڑ کرناہ کے عبدالمجید خان کو سرحد پار کے ایک گولے نے اچک لیا ، عبدل حمیدبھی گھر کا واحد کماو اور کفیل تھا محکمہ جنگلات میں بحیثیت ڈیلی ویجر اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ پالتا تھا ۔حمید کے گھر میں اس وقت تین لڑکے اور ایک چھوٹی سی لڑکی ہے۔ان کی پرورش میں حمید کی بیوہ کو کافی تکالیف اٹھا نا پڑرہی ہیں ۔ اسی طرح کنڈی کے رہنے والے راجہ الطاف کا کنبہ بھی اسی گولہ باری کی زد میں آیا راجہ الطاف کی بیوی بچہ اور ماں لقمہ اجل جبکہ ایک بیٹی اپنی ٹانگ سے محروم ہوگئی راجہ الطاف تب سے ہجرت کر کے یہاں سے اپنے باقی کے افراد خانہ کو لے کر سرینگر آگیا ہے اور واپس یہاں سے نہیں لوٹا۔ ایسے متاثرہ افراد اور کنبے آج بھی گولہ باری کے دونوں کو یاد کر کے دہشت کے مارے سہم کر رہ جاتے ہیں ۔اتنا ہی نہیں بلکہ لونٹھا کرناہ کے مقام پر بھی ماسٹر محمد رفیع کے گھر کے باہر ایک کولہ گرا جس کی زد میں آکر کنبہ کے چار افراد لقمہ اجل بن گے۔ اسی طرح سینکڑوں افراد ایسے ہیں جو یا تو لقمہ اجل بن گے ہیں یا پھر عمر بھر کے لئے اپنے اعضاء کھو بیٹھے ہیں۔ایسا ہی حال سرحد کے اُس پار کے علاوہ نیلم اور لیپا کا بھی ہے، وہاں بھی نامساعد حالات کے دوران کافی لوگوں کے مارے جانے کی اطلاعات ہیں جب کہ گذشتہ ہفتے سرحد پار کی آبادی نے اس گولہ باری کے خلاف امن مارچ کیا ۔ امن مارچ کے شرکاء نے بھارتی پوسٹوں کے سامنے مدار پور بٹل سڑک پر سفید جھنڈے اٹھاکر مارچ کیااور عالمی برادری سے مطالبہ کیا کہ ایل او سی پر مقیم شہریوں کا قتل عام بند کیا جائے ۔دونوں اطراف کی آبادی امن کی خواہاں ہے اور دونوں ملکوں سے یہ مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ امن لوٹا دیا جائے مگر ع
اے بس اکہ آرزو خاک شد
فون نمبر9419333695