ڈاکٹر عبدلمجید بھدواہی
ایک جواں سال لڑکے کی زندگی دو حصوں میں بٹی ہوئی تھی۔ ایک طرف اس نے والدین کی مرضی سے شادی تھی، جہاں سب کو لگتا تھا کہ یہی اس کی پہلی اور آخری شادی ہے ۔ دوسری طرف اسے کالج کی ایک لڑکی سے محبت سے کی گئی دوسری شادی تھی جو ایک راز تھا ۔ کئی مہینے گزرنے کے بعد بھی کسی کو کانوں کان خبر نہ ہوئی کہ اس نے دوسری شادی کر رکھی ہے۔
والدین کے ساتھ ساتھ رشتہ داروں کے سامنے اور سماج کی نظروں میں وہ ایک شرافت کا نمونہ تھا لیکن تقدیر نے سب کچھ بدل کر رکھ دیا۔ وہ شدید بیمار ہوا اور موت کا سایہ اس پر منڈلانے لگا۔ جب اس نے وصیت لکھی تو ایک جملہ سب کو چونکا گیا۔ ” میری پہلی بیوی اور اولاد کا حصہ الگ ہے لیکن میری دوسری بیوی کے نام و نفقہ کا انتظام پہلے سے کر چکا ہوں۔ اس کو مکان، باغ اور پانچ دوکانیں دے دی گئی ہیں۔ یہ چیزیں اس کی ملکیت ہیں اور کوئی ان پر دعویٰ نہ کرے”۔
وصیت نامہ کھلنے کے بعد خاندان پر بجلی گری۔ سب حیران تھے۔
یہ دوسری بیوی کون ہے۔ کب شادی ہوئی۔ کہاں رہتی ہے۔”
پہلی بیوی تلملا ئی۔ بیٹے بیٹیاں ایک دوسرے کی شکل دیکھنے لگے۔ گاؤں بھر میں چہ میگوئیاں ہونے لگیں۔ ان سب کا دھیان ایک طرف لگ گیا۔ کیا واقعی مکان ، باغ اور پانچ دوکانیں اس کے نام ہیں؟۔ اگر ہیں تو دستاویز کہاں ہے ؟۔ اور ہے؟۔ تو سب سے بڑھ کر یہ عورت کون ہے جو اتنے عرصہ سے پردہ کے پیچھے رہی ؟۔
جس دن وکیل کے دفتر سے کاغذات نکلے سب کو حیرت کا دوسرا جھٹکا لگا۔ اس میں نہ صرف جائیداد دوسری بیوی کے نام تھی بلکہ ایک معصوم بچے کا بھی اس وصیت میں ذکر کیا گیا تھا۔
اب سب کی نظریں اس بچے کی طرف مڑ گئیں۔ کیا یہ بچہ اس کی ساری املاک کا اصل وارث بنے گا؟۔
کیا پہلی بیوی اور اس کے بچوں کے حصے پر بھی یہ اثر ڈالے گا ؟۔ دوسری بیوی اب تک کہاں چھپی بیٹھی تھی ؟۔
جب وصیت نامہ کھولا گیا تو سب ہکا بکا رہ گئے۔ دوسری بیوی، مکان ، باغ، دکانیں اور ایک بچہ یہ سب سن کر پہلی بیوی اور بچے کے پیروں تلے زمین کھسک گئی۔
پہلی بیوی نے شور مچایا ۔ یہ سب جھوٹ ہے۔ یہ عورت کون ہے۔ میرا شوہر ایسا کبھی نہیں کر سکتا۔ لیکن وکیل نے خاموشی سے ایک لفافہ نکالا، یہ ان کے اپنے ہاتھ کا لکھا ہوا خط ہے ۔ وصیت کے ساتھ انہوں نے یہ بھی جمع کروایا تھا۔ شاید اسی دن کیلئے ۔
لفافہ کے اندر سے ایک خط نکلا اس میں لکھا تھا، جس عورت کو میں نے دوسری بیوی کے نام سے یاد کیا ہے۔ دراصل وہ اور کوئی نہیں بلکہ میری پہلی بیوی ہی ہے۔ ہاں ! میں نے خود اپنے دل کے سکون کیلئے یہ راز رکھا۔
کالج کی محبت بھی وہی تھی لیکن حالات اور والدین کی ناراضگی کے ڈر سے میں نے شادی چھپائی۔ پھر والدین کی مرضی سے دوبارہ اسی لڑکی سے نکاح کیا۔ سب یہی سمجھتے رہے کہ یہ پہلی شادی ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ تمہاری ماں ہی
میری پہلی اور آخری بیوی ہے۔
سب چونک گئے ۔ بچے ایک دوسرے کو دیکھنے لگے۔ بیوی کی آنکھوں میں آنسو گر آئے۔ اور پھر ایک اور دھماکہ ہوا۔ مکان ، باغ اور دوکانیں ایک ٹرسٹ کے نام کر دی گئی ہیں۔ یہ ٹرسٹ یتیم بچوں کے لئے ہو گا۔ میری بیوی اور بچے میرے وارث ہیں۔ جائیداد میر ا صدقہ جاریہ ہے۔ پورا خاندان سکتے میں آگیا۔ کیونکہ وہ سب جھگڑنے آئے تھے۔ مگر آخر میں ان کو ایسا فیصلہ ملا جس کا کوئی گماں بھی نہیں کر سکتا تھا۔
���
گوجوارہ، ہمہامہ سرینگر، کشمیر،موبائل نمبر؛8825051001