مختار احمد قریشی
مداخلت یا دوسروں کے معاملات میں بے جا دخل اندازی ایک ایسا عمل ہے جو نہ صرف معاشرتی ناہمواریوں کو جنم دیتا ہے بلکہ اسلامی تعلیمات کے بھی خلاف ہے۔ قرآن اور حدیث میں واضح طور پر انسانوں کو انفرادی حقوق اور ذاتی امور کی حفاظت کی تاکید کی گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کو اپنی زندگی گزارنے کی آزادی دی ہے اور دوسروں کے کاموں میں بے جا دخل اندازی اس آزادی کی خلاف ورزی ہے۔قرآن کریم کی تعلیمات میں انسانوں کو احترام، عدل اور مساوات کے ساتھ پیش آنے کا حکم دیا گیا ہے۔ کسی کے معاملات میں بے جا مداخلت کرنا اس اصول کی نفی کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے سورہ الحجرات میں فرمایا،’’اے ایمان والو! ایسی باتوں کے پیچھے نہ پڑو ،جن کا تمہیں علم نہیں، بے شک کان، آنکھ اور دل ان سب سے متعلق سوال کیا جائے گا۔‘‘ (سورۃ الاسراء: 36)یہ آیت ہمیں اس بات کا درس دیتی ہے کہ کسی کے نجی معاملات میں دخل دینا یا بے جا سوالات پوچھنا ایک غیر مناسب عمل ہے۔ ہر شخص کے حقوق کی پاسداری اور اس کی نجی زندگی کا احترام کرنا لازم ہے۔
احادیث نبوی ؐ میں بھی اس موضوع پر واضح ہدایات موجود ہیں۔ حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہؐ نے فرمایا،’’اچھا مسلمان وہ ہے جو اس بات کو چھوڑ دے جو اس سے متعلق نہیں ہے۔‘‘ (سنن ترمذی)۔یہ حدیث مسلمانوں کے لیے ایک واضح رہنمائی فراہم کرتی ہے کہ اگر کوئی معاملہ آپ سے متعلق نہیں تو اس میں مداخلت سے گریز کرنا چاہیے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان میں حکمت یہ ہے کہ جب لوگ دوسروں کے معاملات میں دخل اندازی کرتے ہیں تو وہ فتنہ، بغض اور ناچاقی کا سبب بنتے ہیں۔
مداخلت کے معاشرتی اثرات :
اسلامی معاشرہ عدل، احسان اور بھائی چارے پر مبنی ہے۔ اگر کوئی دوسروں کے کاموں میں بے جا مداخلت کرتا ہے تو یہ معاشرتی توازن کو بگاڑ دیتا ہے۔ بے جا مداخلت سے لوگوں کے دلوں میں ایک دوسرے کے خلاف بغض پیدا ہوتا ہے، رشتے خراب ہوتے ہیں اور معاشرتی ناہمواریاں جنم لیتی ہیں۔دوسروں کے معاملات میں مداخلت بعض اوقات جھگڑوں اور اختلافات کا سبب بھی بنتی ہے۔ ایک چھوٹا سا بے جا دخل انداز معاملہ بڑے تنازعے کا رخ اختیار کر سکتا ہے، جو معاشرے میں فساد کا باعث بن سکتا ہے۔
اسلام ہمیں دوسروں کی مدد اور خیر خواہی کی بھی ترغیب دیتا ہے، لیکن یہ خیر خواہی اس وقت ہونی چاہیے جب ضرورت ہو اور جب دوسرے فرد نے مدد کی درخواست کی ہو۔ نبی کریمؐ نے فرمایا،’’تم میں سے کوئی اس وقت تک کامل مومن نہیں ہو سکتا جب تک وہ اپنے بھائی کے لیے بھی وہی پسند نہ کرے جو اپنے لیے پسند کرتا ہے۔‘‘(صحیح بخاری)۔
یہ حدیث ہمیں اس بات کی تاکید کرتی ہے کہ دوسروں کے ساتھ بھلائی اور خیر خواہی سے پیش آنا چاہیے، لیکن اس بھلائی کے لیے حدود کا خیال رکھنا ضروری ہے۔ مدد اور خیر خواہی کا مطلب یہ نہیں کہ دوسروں کے معاملات میں بنا اجازت دخل دیا جائے۔
مداخلت اور آج کا معاشرہ :
موجودہ دور میں بھی مداخلت کے مسائل بہت عام ہیں۔ سوشل میڈیا اور دیگر مواصلاتی ذرائع کی وجہ سے لوگ دوسروں کی ذاتی زندگیوں میں بلاوجہ دخل دیتے ہیں۔ اسلام اس بات کی تاکید کرتا ہے کہ ہم ایک دوسرے کے ذاتی معاملات کی عزت کریں اور بنا وجہ کسی کے نجی معاملات میں مداخلت سے گریز کریں۔بےجامداخلت کےکئی منفی اثرات ہوتےہیں،جوفرد،معاشرت اوررشتوںپربراہ ِراست اثراند از ہوتے ہیں۔ یہاںکچھ اہم نتائج دئیےجارہےہیں۔
۱۔ رشتوںمیںخرابی: جب کوئی شخص دوسروںکےمعاملات میں بےجامداخلت کرتاہے،تواس سےرشتوںمیںتناؤاوراختلافات پیدا ہوتےہیں۔ غیرضروری مداخلت اکثرغلط فہمیاںاوردوریاںپیداکرتی ہے،جوبالآخررشتےکونقصان پہنچاسکتی ہیں۔
۲۔ا عتمادکی کمی: بےجامداخلت سےافرادکاایکدوسرےپراعتمادکم ہوجاتاہے۔ جب کسی کی نجی زندگی میںباربارمداخلت کی جاتی ہے تو وہی شخص اپنےمعاملات میں دوسروں سے دور رہنے لگتا ہے ا ور اسکے دل میں بدگمانی پیداہوسکتی ہے۔
۳۔ ذہنی تناؤ: مداخلت کرنےسےنہ صرف جس شخص کےمعاملات میںدخل دیاجاتاہے،وہ متاثرہوتاہےبلکہ مداخلت کرنے والے کے لیے بھی ذہنی دباؤبڑھتاہے۔ لوگوںکےمعاملا ت میںدخل اندازی کرنابلاوجہ کی فکری پریشانی کاسبب بن سکتاہے۔
۴۔ معاشرتی ناہمواری: جب لوگ ایکدوسرے کے کاموں میں مداخلت کرتےہیں،تواس سےمعاشرتی ہم آہنگی متاثرہوتی ہے۔ بے جا مداخلت معاشرتی نظام میںبگاڑپیداکرتی ہےاورلوگ ایکد وسرے کے معاملات میںشک وشبہات سےکام لینےلگتےہیں۔
۵۔ فردکی خودمختاری میںخلل: ہرانسان کی اپنی آزادی اور خود مختاری یہی ہوتی ہے ۔ بیجامداخلت اس خودمختاری کونقصان پہنچاتی ہے اور افراد کو اپنی زندگی کے اہم فیصلےکرنے سے روکتی ہے۔
۶۔ فتنہ اورفسادکاسبب: بےجامداخلت اکثر جھگڑوں، فتنوں، اور اختلاف کاباعث بنتی ہے۔ ایک چھوٹےسےمعاملےمیںمداخلت بڑے مسائل کوجنم دےسکتی ہے،جس سےمعاشرتی فسادپیداہوتاہے۔
۷۔ وقت کاضیاع: دوسروںکےکاموںمیںمداخلت کرنے والے افراداکثراپنےوقت اورتوانی کاضیاع کرتےہیں،کیونکہ وہ اپنی ذمے داریوں کےبجائےدوسروںکےمعاملات میںمصروف رہتے ہیں۔
بے جامداخلت سےبچنےاوردوسروں کی آزادی اورحقوق کااحترام کرنےسےنہ صرف افرادکوفائدہ ہوتاہےبلکہ معاشرتی ہم آہنگی اورمحبت کاماحول بھی قائم رہتاہے۔قرآن و حدیث کی روشنی میں دوسروں کے کام میں مداخلت ایک ایسا عمل ہے جس کی نہ صرف مذمت کی گئی ہے بلکہ اس سے بچنے کی تلقین بھی کی گئی ہے۔ ہر فرد کو اپنی زندگی کے فیصلے کرنے کا حق حاصل ہے اور دوسروں کی آزادی میں مداخلت اسلام کی روح کے خلاف ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے معاشرے میں محبت، بھائی چارہ اور احترام کو فروغ دیں، اور ہر فرد کے حقوق کا تحفظ کریں۔ اسی میں معاشرتی بھلائی اور اسلامی اصولوں کی پیروی کا درس ملتا ہے۔
(کالم نگار ایک استاد ہیں، ان کا تعلق بونیاربارہمولہ سے ہے)
رابطہ۔8082403001
[email protected]
??????????????